ماسکو۔تیزی سے بدلتاماسکوواد


Published On 3 April 2012
انل نریندر
مارچ کے ٹھنڈے جمعہ کو ماسکو کے بیچ سے گذرنے والی بولشایاتاترسکایا اسٹریٹ پر سناٹا چھایا ہوا ہے۔ یہ سڑک روس کی راجدھانی کی سب سے پرانی جھیل کے پاس سے گذرتی ہے۔ ماسکو میں آج کل 20 لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ یہ اب یوروپ میں مسلم عوام کا سب سے بڑے شہروں میں سے ایک بن گیا ہے اور کچھ مساجد اتنی بڑی آبادی کے لئے کافی نہیں ہیں۔ نماز جمعہ کے دوران اس تاریخی عمارت میں لوگوں کی بھیڑ زیادہ ہوتی ہے۔ ہزاروں لوگ کھلے میں برفباری کے درمیان نماز ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ زیادہ تر مسلمان مشرقی وسطی کے سابق سوویت یونین سے آئے نوجوان تارکین وطن ہیں۔ غریبی اور جدوجہد نے انہیں روس میں نئی زندگی کا آغاز کرنے کیلئے مجبور کیا ہے۔ لاکھوں ازبیک، ،تاجک اور کرغزعوام ماسکومیں ملازمتیں کررہے ہیں۔ ازبیکستان سے آئے نوجوان کو ازبیکی کہا جاتا ہے۔ہم اس بات کے شکر گزار ہیں کہ ماسکو میں اتنی مساجد ہیں لیکن دوسرے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انتظامیہ مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز کررہا ہے۔ شہر کی تاریخی مسجد کے امام حسن فاقر میدوف کا ماننا ہے کہ موجودہ سہولیات کافی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہم انتظامیہ سے اور مساجد بنانے کی اجازت مانگ رہے ہیں لیکن وہ ہماری بات نہیں مان رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ لوگوں کو اب کھلے آسام کے نیچے بارش اور برفباری کے درمیان نماز ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ ماسکو کی پرانی تاتر مسجد اب نئی عمارت میں تبدیل ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی سبھی نمازیوں کے لئے یہ جگہ کم پڑ رہی ہے۔ پرانی مسجد کے پاس گھوم رہی دو نوجوان لڑکیوں نے بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا کہ ماسکو بڑھ رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ تارکین وطن کو اپنی طرف راغب کررہا ہے جس میں بہت سے مسلمان ہیں۔ روس میں گرجا گھر بھی بنائے جارہے ہیں۔ عیسائی، مسلمانوں کو بھی مسجد بنانے سے روکا نہیں جانا چاہئے لیکن بہت سے روسیوں کو ڈر ہے کہ زیادہ غیر ملکیوں کی بساست سے روس کے کلچر اور وہاں کا رہن سہن بدل رہا ہے۔ ایک قومی تنظیم روساویٹ کے ورکر یوری گوسرکی فرماتے ہیں کہ لوگ مذاق کررہے ہیں کہ ماسکو اب ماسکوواد بن گیا ہے۔اب سڑکوں پر دوسرے ملکوں کے زیادہ چہرے نہیں دکھائی دیتے۔ہمیں اسلامک ممالک سے آئے لوگوں پر اعتراض نہیں ہے لیکن ہمیں ان مسلمانوں کو روکنا ہوگا۔ پہلے روس میں مسلمان تارکین وطن پر حملے ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے۔ روسی انسانی حقوق تنظیم سووا کے مطابق نسلی حملوں میں 2011ء کے دوران 7 لوگوں کی موت ہوئی ہے اور28 لوگ زخمی ہوئے ہیں جبکہ2008ء میں ان حملوں میں مرنے والوں کی تعداد57 تھی۔ باہر سے آئے زیادہ تر لوگوں کو کام کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جن سے مقامی لوگ کام لینے سے ہچکچاتے ہیں۔ پورے شہر ہلال دکانوں اور دیگر چیزوں کا جال سا بچھ گیا ہے۔جن میں مہنگے ریستواں سے لیکر جہاں ایک مرتبہ کھانے کی قیمت 10 ہزار روپے تک ہے، سستے ہوٹل بھی شامل ہیں۔جہاں مغربی ایشیائی لوگوں کو سکی ہوئی تندوری روٹیاں مل جاتی ہیں، سموسے بھی بنتے ہیں۔ ہلال سموسہ روس کا سب سے مقبول ٹیک اوون بن گیا ہے۔روس میں بڑی تعداد میں لوگ مذہب اسلام اپنا رہے ہیں۔ ایک سینٹر میں مذہب بدلنے والی مسلم خواتین کا رجسٹریشن کیا جاتا ہے۔ اسلام ہمیشہ سے روس کا دوسرا بڑا مذہب رہا ہے لیکن وہ اتناکٹر پسند کبھی نہیں رہا جتنا آج ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Moscow, Muslim, Russia, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟