لکھنو ¿ سے ہوکر جا تا ہے دہلی کا راستہ!

ایک پرانی سیاسی کہاوت ہے کہ رائے سینا ہلز کا راستہ لکھنو¿ سے ہوکر جاتاہے ساو¿ تھ بلاک میں جن 14عظیم شخصیتوں اور ایک خاتون نے وزیر اعظم کے طور پر کام کیا ہے ان میں سے 8اتر پردیش سے آتیں ہیں اگر آپ نریندر مودی کو بھی جوڑ دیں تو یہ تعداد 9ہو جاتی ہے اس فہرست میں نریندر مودی کو بھی شامل کرنے کے پیچھے دلیل یہ ہے کہ وہ ورانسی سے چن کر لوک سبھا پہونچے ہیں حا لاں کہ وہ آسانی گجرات سے لوک سبھا میں پہونچ سکتے تھے لیکن ان کو بھی اندازہ تھا کہ بھارت کی سیا ست میں اتر پردیش کی جتنی اہمیت ہے اتنی شاید کسی اور ریا ست کی نہیں دیش کی سب سے بڑی اسمبلی اور لوک سبھا میں 80ایم پی بھیجنے والی ریاست نہ صر ف بھار ت کی آبادی کا ساتواں حصہ یہاں بستا ہے بلکہ اگر یہ ایک آزاد دیش ہوتا تو آبادی کے حساب سے چین ،بھارت ،امریکہ اور انڈونیشیا اور برازیل کے بعد اس کا دنیا میں چھٹا نمبر ہوتا لیکن بات صر ف آبادی کی نہیں ہے ۔نامور مورخ اور انڈین ایکپریس کے سابق مدیر سید نقوی کہتے تروینی اتر پر دیش میں کاشی اتر پردیش متھرا آیودھیا اور گنگا اور جمنا اتر پردیش میں ہیں ایک طرح سے آزادانہ اسلامک کلچر کا جو گڑھ اتر پردیش کی سر زمین رہا ہے اس کے ایک طرح سے بھار ت کی سیاست کا میلٹنگ پوٹ یا سیلو سیل (سلات کی کٹوری) کہہ سکتے ہیں ۔ اہم یہ نہیں کہ یہاں سے 80ایم پی دہلی جاتے ہیں اہم یہ ہے کہ پانچ ہزار سال پرانے دیش کو یہ سرزمین سویلائزونل ہے یعنی تہذیب گہرائی سے فراہم کرتی ہے۔ پڑوسی ریاستوں کی بھی سیا ست کو متاثر کرتی ہے اور اتر پردیش کی سیاست ہندی پٹی کا مر کزی نقطہ ہونے کے سبب اس کے چنا و¿ نتیجے اس سے لگے ریاستوں کو بھی متاثر کرتے ہیں ۔گووند بلبھ پنت سوشل انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر فیض محمد ورسز رینا نارائن اتر پردیش کے دور کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کیوں یہاں سے مسلسل وزیر اعظم بنتے رہے ہیں ۔ہندی زون ہونے کے سبب نہ صر ف 80بلکہ آپ پاس کے ریاستوں بہار ،مدھیہ پردیش ،راجستھا ن کی بھی سیاست پر اثر ڈالتے ہیں دوسرے یوپی میں جو علائی پارٹیوں کی سیاست ہے اس کے بڑے روح رواں ملائم سنگھ یادو اور مایا وتی کے یہ علاقے رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن کی سیاست میں اتر پردیش کا دخل صاف دکھائی دیتا ہے ۔اتر پردیش میں ملی بی جے پی کو سب سے بڑی طاقت 1989تک جس پارٹی نے اتر پردیش میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتیں تھی اس نے مر کز میں سرکار بنائی اس ٹرینڈ کو بدلا 1991میں نر سمہا راو¿ نے جو اتر پردیش میں ٹرینڈ بدلا اس میں کانگریس نے 84میں سے صر ف پانچ سیٹیں جیتی لیکن اس کے باوجود دیش کے پردھا نے منتری بنے بھاجپاکی سیاست میں اتر پردیش ہمیشہ سے ایک پوئنٹ رہا ہے ۔رام مندر آندولن کی وجہ سے یوپی کی سیا ست میں دبدبہ رہا 1999،1996اور 1998میں مسلسل لوک سبھا چناو¿ میں 50سے زیادہ یوپی سے سیٹیں جیتی تھی 2004و 2009میں بھاجپا کی پر فارمنس معمولی رہی 2014اور 2019کے لوک سبھا چنا و¿ میں بھاجپا کی زبردست کامیابی کی عبارت اتر پردیش میں شاندار پرفارمنس سے لکھی گئی ہے ۔اب اتر پردیش اسمبلی میں 403ممبر ہیں یہ دیش کی سب سے بری اسمبلی ہے ،2007میں پس منظر بدلا جب ریا ست کی جنتا نے بسپا پھر 2012میں اقتدار کی چابی سپا کو سونپی جبکہ 2017میں یہ دونوں پارٹیاں حاشیے پر چلی گئیں اور بھاجپا نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی ۔اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ دہلی کا راستہ لکھنو¿ سے ہوکر جاتا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!