بات بڑھی تو سہی پر آدھی رہ گئی !

کسان۔سرکار کے درمیان ساتویں دور کی بات چیت کا بھی کوئی حل نہ نکلنا مایوس کن ہے بات چیت سے بہت امیدیں جتائی جارہیں تھیں لیکن وگیان بھون میں منعقدہ بات چیت کے درمیان وزراءنے بھی کسانوں کے لنگر کا ذائقہ لیا لیکن کل ملاکر سبھی مسئلوں پر اتفاق رائے نہیں بن سکی اگلی بات چیت شاید 4جنوری کو ہوگی ،تب تک کسان تحریک جاری رہے گی۔ سرکار کے ساتھ اس دور کی بات چیت کے بعد کسان لیڈر ہنان ملا نے کہا کہ سرکار نے دو کمیٹیاں بنانے کی تجویز رکھی تھی ایک ایم ایس پی کی تعمیل کیلئے اور دوسری قانون واپسی کی مانگ کا متبادل تلاش کرنے کےلئے ہم نے دونوں کا نہ منظور کردیا ،سرکار کا رویہ نرم تھا اور آج کی بات چیت کے بنیاد پر نئی تجویز بھیجنے کو کہا لیکن کسانوں کی کوئی اور تجویز ہے ہی نہیں ہماری مانگ بس ایم ایس پی پر گارنٹی ملے اور تینوں قانون واپس لئے جائیں ہم اس پر ایک بار پھر 2جنوری کو غور کریں گے سرکار اور کسانوں کے درمیان ہوئی بات چیت میں التوا میں دو مسئلوں پر بڑے پیچ ہیں اور دور رس ہیں تین قانون واپس لینے سے سرکار کی عزت اور شان اور وسیع زرعی اصلاحات کے نظریئے کو دھکہ لگ سکتا ہے۔ایم ایس پی کو قانون میں شامل کرنے سے سرکار پر مالی بوجھ تو بڑھے گا ساتھ ہی ان تینوں قوانین کا اثر بھی کم ہوجائے گا کسانوں اور سرکار کےلئے بھی نئی چنوتیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں تینوں قوانین کے ذریعے سرکار نے ایم ایس پی اے پی ایم سی جاری رکھنے کے ساتھ ہی پرائیویٹ سیکٹر کو فصل فروخت کرنے کے متبادل بھی دیئے ہیں ۔ لیکن احتجاجی کسان ان تینوں قوانین کو اپنے لئے خطرناک مان رہے ہیں اس کی کئی وجہ گنا رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ ایم ایس پی تو ملے گی نہیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر ہاوی ہوتا جائے گا اور علاوہ ازیں کسانوں کی زمین بھی مشکل میں پڑ سکتی ہے زرائع کے مطابق کسان تحریک ایم ایس پی پر قانون کی مانگ اس لئے چل رہی ہے کہ سبھی فصلوں کے دام متعین ہوجائیں گے ابھی گیہوں ،دھان ،سرسو،دالیں ،جیسی کچھ چیزیں ہی ایم ایس پی کے دام پر خریدی جاتی ہیں باقی کھلے بازار میں جاتی ہیں۔ ایم ایس پی پر قانون کے بعد سبھی طرح کی فصل اسی بنیاد پر خریدی جائے گی پھل اور سبزیوں تک کے لئے بھی نئی بہتر راہ بن سکتی ہے جب سب چیزیں ایم ایس پی پر خریدی جائیںگی تو پرائیویٹ سیکٹر کو کچھ بیچنے کی بھاگ دوڑ اور ضرورت کہاں رہے گی ؟سرکار اس طرح کے کئی پینچ کو سمجھ رہی ہے کسانوں کے یہ سمجھانے کی کوشش بھی ہورہی ہے آخر سارا مال بکنا تو ہے ہی مگر کسان ایم ایس پی پر سب کچھ بیچتا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر بیرونی ملک سے سستی شرح پر چیزیں منگا کر بازار میں اتار دیتا ہے تو کیا ہوگا ؟سرکار کسی کو بھی اپنا کاروبار کرنے سے نہیں روک سکتی؟اس طرح کے اور کئی پینچ پیدا ہوسکتے ہیں جن کی وجہ سے کسان اور دیگر کسی سیکٹر کے لوگ نئی مانگ کو لیکر آندولن کر سکتے ہیں واقف کاروں کے مطابق آندولن کاریوں نے قانون او راپوزیشن کی مدد سے سرکار کو صحیح پھنسایاہے اس سے نکلنے کی راہ سرکار آہستہ آہستہ بنا رہی ہے پرالی اور بجلی مسئلے پر سرکار کے ذریعے بھروسہ دینے کے بعد آندولن کاری لیڈروں تک پہونچایا جا رہا ہے کہ وہ بھی بھروسہ بڑھانے کے قدموں اور اپنے مطالبات رکھیں وہ تین قانو ن کی واپسی کی جگہ کوئی اور لفظ زبان تجویز کریں حالانکہ احتجاجی لیڈر فی الحال احتجاج تیز نہ کرنے کے اشارے دے رہے ہیں ، لیکن ان کے بھی متبادل کھلے ہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!