ریٹرو اسپکٹیوٹیکس معاملوں میں حکومت ہند کو بڑا جھٹکا

ریٹرو اسپکٹیو ٹیکس کا معاملہ مرکزی حکومت کے گلے کی ہڈی ثابت ہورہا ہے اور معاملے میں ووڈافون سے قریب 20ہزار کروڑ روپئے کا مقدمہ ہارنے کا بعد اب بھارت سرکار برطانوی کمپنی کیرن اینرجی سے 10247کروڑ روپئے کے ٹیکس کا مقدمہ بھی ہار گئی ہے ۔نیدر لینڈ کے ایک ٹریبونل نے اس معاملے کے کیرن کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے عدالت نے کہا کہ اس نے بھارت سرکار کے خلاف میں وصولی کا عدالت میں کیس جیت لیا ہے جس میں ریٹرو اسپکیٹو ٹیسٹ کی شکل میں 10247کروڑ روپئے مانگے گئے تھے تین ججوں کی بنچ نے حکم دیا کہ 2006-07میں کیرن کے ذریعے بھارت کے کارو بار کے اندرونی روح پھونکنے پر بھارت سرکار کی یہ رقم دینے کا دعویٰ مناسب نہیں ہے حکومت ہند کی جانب سے مقرر ایک جج بھی بحث میں شامل ہو ا بھارت سرکار سے یہ بھی کہا کہ کمپنی کا جو پیسہ اس کے پاس ہے وہ سود سمیت کمپنی کو واپس کیا جائے حکومت نے اس کمپنی کا ٹیکس ڑیفنڈ روک رکھا ہے اس میں ساتھ ہی منافع بھی ضبط بھی کیا ہوا ہے بقایہ ٹیکس کی ادائیگی کے لئے کچھ شیئر بھی بیچ دیئے گئے ہیں ۔ حالانکہ بھارت سرکار اس فیصلے خلاف اپیل کر سکتی ہے اس سے پہلے ٹریبونل نے ووڈا فون کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اس کمپنی سے ٹیکس کی شکل میں قریب 22ہزار کروڑ روپئے کی مانگ کو غلط قرار دیا تھا ۔ دراصل 2012اس وقت کی حکومت نے پارلیمنٹ میں ریٹرو اسپکٹیو ٹیکس سے متعلق قانون کو منظوری دے دی تھی جس کے تحت کمپنیوں سے کئے گئے سودوں کی بنیاد پر کیپٹل گین ٹیکس وصولا جاسکتا ہے ۔ووڈا فون اور کیرن سے جنس سودوں کو لیکر مانگ کی گئی وہ اس قانون کے وجود میں آنے سے پہلے کے تھے اسی سال ستمبر میں بین الاقوامی ماتحت عدالت نے ووڈا فون سے ٹیکس وصولی اور نیدر لینڈ کی کمپنی میں ہوئے باہمی سرمایہ کاری معاہدے میں دی گئی مباسب اور یکساں برطاو¿ کی گارنٹی کی خلاف ورزی مانا اور ٹیلی کمیو نیکیشن کمپنی کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کے احکامات دیئے در اصل بھارت سرکار کا صاف ماننا ہے ٹیکس سسٹم دیش کی سرداری سے جڑا ہے اس میں باہر ی مداخلت قبول نہیں کی جاسکتی ۔ٹریبونل میں ووڈا فون اور کیرن جیسے ریٹرو ریسپیکٹیو کے ایک درجن معاملوں پر سما عت ہورہی ہے قانونی ماہرین کا کہنا ہے ووڈا فون کے معاملے کی نظیر کو دھیان رکھتے ہوئے ان معاملوں میں بھی بھارت سرکار کے خلاف فیصلہ سنایا جا سکتا ہے ۔ آخر یہ کمپنیاں بھارت سے باہر کیوں لڑنا پسند کرتی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے ہندوستانی عدلیہ نظام میں بار بار دبدبہ ہے اور وہ غیر ملکی وکیلوں اور قانونی فرموں کو دیش میں وکالت کرنے سے روکتی ہیں ۔ اس وجہ سے کمپنیوں کو لگتا ہے کہ وہ اپنے لئے بڑھیاں وکیل کھڑا نہیں کرسکتی دوسری وجہ یہ ہے کہ کمپنیوں جلد فیصلے کی تمنا رہتی ہے چونکہ مقدمہ لمبا کھنچنے سے دونوں فریقوں کو نقصان ہوتا ہے پھر انہیں لگتا ہے کہ ہماری عدالتوں پر سرکاری دباو¿ہوتا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!