اظہارِ رائے کی آزادی کا بیجا استعمال!

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ بیجا استمال ہونے والا حق مان لیا گیاہے ۔بڑی عدالت نے یہ سخت تبصرہ جمعرات کو تبلیغی جماعت سے وابسطہ ایک عرضی پر سماعت کے دوران کیا دہلی کے نظام الدین میں واقع مرکز میں کورونا پابندی کی خلاف ورزی کر منعقد تبلیغی جماعت کے اجتماع کی میڈیا رپورٹنگ کے متعلق معاملہ میں یہ ریمارکس کسے ایک سینئر افسر کے ذریعے عدالت میں جواب داخل کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار کی بھی کھینچائی کی ہے اور اس کے جواب کوانتہائی جارحانہ اور بے شرمی سے بھرا قرار دیا ۔چیف جسٹس شرد اروند بووڑے جسٹس اے ایس بوپنہ و جسٹس بی سبرا منیم کی سربراہی والی بنچ نے کہا عدالت سب سے زیادہ بیجا استعمال اظہار رائے آزادی کا ہو رہا ہے ۔مرکز نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے جلسہ کو لیکر نفرت پھیلانے کے لئے میڈیا کے خلاف کاروائی کئے جانے سے متعلق داخل عرضیوں پر عدالت نے یہ رائے زنی کی واضح ہو اس سال مارچ میں تبلیغی جلسہ کو لیکر خاصہ تنازعہ کھڑا ہواتھا اور اسے کورونا وائرس پھیلانے کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا اس وجہ سے دیش کے مختلف حصوں سے آئے تبلیغی جلسہ میں شامل ہوئے کچھ لوگوں کو وائرس انفیکشن ہواتھا ۔سپریم کورٹ میں جماعت کے بارے میں میڈیا کی رپورٹنگ کو نفرت پھیلانے والی بتاتے ہوئے یہ عرضیاں جمیعة علمائے ہند اور کچھ دیگر انجمنوں نے دائر کی تھیں ۔مرکز نے اس معاملے میں میڈیا کا بچاو¿ کیا اور دلیل دی کہ اسے خراب رپورٹنگ کا کوئی معاملہ نہیں دکھا اس حلف نامہ پر سپریم کورٹ نے مرکز کی خاصی کھچائی کی اور کہا کہ ہمیں خراب رپورٹنگ کی تفصیلات بتانی ہوں گی اور یہ بھی کہ کیا کاروائی کی گئی بنچ نے سولیسیٹر جنرل تشار مہتا کو ہدایت دی کہ سرکار کی طرف سے نیا جوابی حلف نامہ وزارت اطلاعات و نشریات کے سکریٹری خود داخل کریں جس میں کوئی غیر ضروری اور بے تکی بات نہ ہو ۔معاملے کی اگلی سماعت دو ہفتہ کے بعد ہونے کا حکم دیتے ہوئے ناراض چیف جسٹس نے مرکزی حکومت کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ عدالت کے اس ساتھ اس طریقہ سے سلوک نہیں کر سکتے جیسے آپ نے کیا ہے کسی ماتحت افسر نے حلف نامہ داخل کیا ہے اور یہ بچکانہ ہے ۔آپ بھلے ہی متفق نا ہوں لیکن آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کو خراب رپورٹنگ کا کوئی معاملہ نہیں دکھائی دیا ان کا کہنا ہے انفورمیشن سکریٹری کو بتانا ہوگا کہ عرضی گزار نے جن دفعات کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ان کے بارے میں کیاسوچتے ہیں ؟ ہمیں تو سرکار کی طرف سے داخل حلف نامہ جواب دہی سے بچنے کی کوشش لگتا ہے ۔نفرت پھیلانے والے کچھ ٹی وی چینلوں کے بارے میں عرضی گزاروںکے الزامات پر حلف نامہ میں کوئی صفائی نہیں دی گئی ہے ۔بنچ نے سماعت کے دوران کہا صرف تیلی ویزن نیٹ ورک ایکٹ 1995اور اس کی دفعہ 20کے تحت مفاد عامہ میں کیبل ٹی وی پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اس میں کیا سرکار کے پاس ٹی وی سگنلوں پر پابندی لگانے کا اختیار ہے ؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!