ٹیپو سلطان ہیرو یا ویلن

ٹیپو سلطان کی جینتی کو لیکر جہاں ایک طرف بھاجپا اور کانگریس آمنے سامنے ہے وہیں دوسری طرف اسے لیکر ادبی سماج بھی بٹا ہوا ہے۔ ادیب بھی اس معاملے میں الگ الگ رائے رکھ رہے ہیں۔ بتادیں کہ ٹیپو سلطان کون تھے؟ ٹیپو سلطان بھارت کے اس وقت کے میسور ریاست کے حکمراں تھے جن کی پیدائش20 نومبر 1750 کو کرناٹک کے ویدناہلی میں ہوئی تھی۔ ٹیپو سلطان کا پورا نام سلطان فتح علی خان شاہ تھا۔ ان کے والد حیدر علی میسور ریاست کے سینا پتی تھی جو اپنی طاقت سے 1761 میں میسور سلطنت کے حاکم بنے۔ اہل حکمراں کے علاوہ ٹیپو سلطان ایک دانشور ، لائق شخصیت اور شاعر بھی تھے۔ تازہ تنازعہ کیا ہے؟ دراصل کرناٹک حکومت 20 نومبر کو ٹیپو سلطان کی جینتی منانے جارہی ہے۔ اس پروگرام میں شامل ہونے کیلئے کرناٹک کے وزیر اعلی سدیرمیا نے مرکزی وزیر مملکت ٹیلنٹ ڈیولپمنٹ اننت کمار ہیگڑے کو مدعو کیا تھا۔ اس کے جواب میں ہیگڑے نے کہا کہ وہ اس پروگرام میں شامل نہیں ہوں گے کیونکہ ٹیپو سلطان قاتل و بربریت کا حامل اور آبروریز تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ٹیپو سلطان ہندو مخالف تھا۔ ہیگڑے کے اس بیان کو لیکر سیاست سے لیکر ادب تک سبھی میں ہلچل مچ گئی۔ مصنف ڈاکٹر ایچ بالدو برہماچاریہ فرماتے ہیں کہ ٹیپو سلطان بربر اور ظالم تھاوہ ہندوؤں پر بیحد ظلم ڈھایا کرتا تھا۔ اس نے اپنی اسٹیٹ میں ہندو مندروں کو بھلے ہی گرانڈ دی تو لیکن کیرل اور تاملناڈو کے مندروں کو اس نے توڑنے کا کام کیا۔ اتنا ہی نہیں کیرل اور تاملناڈو جیسی ریاستوں میں ٹیپوسلطان نے ہندوؤں کو تلوار کے زور پر مذہب تبدیل کروایا اور مسلمان بنوایا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج بھی کیرل اور تاملناڈو کے لوگ ٹیپو سلطان کے خلاف ہیں۔ دوسری طرف ڈرامہ آرٹسٹ اروند گوڑ کہتے ہیں کہ سیاسی پارٹیاں سبھی چیزوں کو سیاسی رنگ میں رنگ دیتی ہیں۔ ٹیپو سلطان انگریزوں کے خلاف مورچہ بندی کرنے میں سب سے آگے تھے انہوں نے ہمیشہ انگریزوں کی مخالفت کی۔ رہی بات ہمارے دیش کے لوگوں کی تو ہمارا دیش نظریات اور مذہب کا دیش ہے۔ یہاں سبھی لوگوں کو اپنی آزادانہ رائے رکھنے کا حق ہے۔ کوئی ٹیپو سلطان کو ہندو مخالف سمجھتا ہے تو کوئی آبروریز ، لیکن سچائی تو یہ ہے کہ دیش کو انگریزوں سے نجات دلانے میں سب سے آگے ٹیپو سلطان ہی تھے۔ اب جب ادیب ہی ٹیپو سلطان پر الگ الگ رائے رکھتے ہیں تو سیاسی پارٹیوں کا اس مسئلہ پر روٹیاں سینکنا لازمی ہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!