بالی ووڈ میں اب ستارے نہیں کہانی اورتھیم چلے گی

ہماری زندگی میں پیسے کی قیمت اور اہمیت کو لیکر پچھلے 60 برسوں میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں ہیں اس کا ہمیں اپنی ریلیز ہندی فلموں سے تھوڑا سا پتا چلتا ہے۔ آزادی کے بعد بالی ووڈ میں کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ ناظرین کی پسند بدلی ہے۔ فلموں کا مواد بدلہ ہے۔ اگر ہم 50-60 کی دہائیوں پر غور کریں تو ہیرو غریب سے پیدا ہوتا ہے یا غریبی اس پر تھوپ دی جاتی ہے اور اس کے ہیرو ہونے کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اتنا کماتا رہے تاکہ زندہ رہ سکے اور ایسا کرنے میں وہ ہمیشہ ایماندار رہتا ہے۔ فلم کا پس منظر دیہی ہو یا شہری یہ بات عائد ہوتی تھی۔پیسہ صرف ویلن یا کھلنائک کے پاس ہوتا تھا جو رئیس بنے رہنے و استحصال کرنے کے لئے ہر ہتھکنڈہ اپناتا تھا۔ فلم کے مواد پر، کہانی پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی بہ نسبت اس کی باکس آفس پر ۔ آج کے دور میں سب کچھ بدل رہا ہے۔ کہانی، اسکرپٹ پر توجہ کم ہے ستاروں پر پیسوں کی کمائی پرزیادہ ہے۔ آج فلم صنعت کروڑوں روپے کا دھندہ بن گئی ہے لیکن اگر ہم اس مالی برس کی پہلی چھ ماہی بالی ووڈ کے لئے باکس آفس کے لحاظ سے نظر ڈالیں تو پائیں گے کافی سستی ہے۔ اس دوران صرف 7 فلمیں ہٹ کے زمرے میں داخل ہوپائیں۔ جبکہ قریب 70 فیصد ہندی فلمیں اپریل سے30 ستمبر کے دوران ریلیز ہوئیں۔ ان میں اے اور بی دونوں کٹیگری کی فلمیں شامل ہیں۔ اس میں بھی اہم بات یہ ہے کہ خان (سلمان اور شاہ رخ خان) دونوں ہی سنیما ہالوں تک ناظرین کو نہیں لا پائے۔ سلمان کی ’ٹیوب لائٹ‘ اور شاہ رخ کی ’جب ہیری میٹ سیجل‘ کو ناظرین سے ڈھنگ کی توجہ نہیں ملی۔ جن فلموں نے باکس آفس پر اچھی پرفارمینس دی ان کی کہانی اسکرپٹ زبردست تھا۔ صرف ’ٹوائلٹ: ایک پریم کتھا‘ اور ’جڑواں 2 ‘ میں ہی اکشہ کمار اور ورون دوھن جیسے بڑے ایکٹر تھے، دیگر ہٹ فلموں میں ہندی میڈیم ،شبھ منگل ساودھا، بریلی کی برفی، سچن ۔اے بلن ڈریمس، نیوٹن اور لپسٹک اندر مائی برقعہ میں بڑے ستارے نہیں تھے۔دھرما پروڈکشن کے سی ای او اپورو مہتہ نے بتایا، فلم انڈسٹری کے لئے2017 ایک تاریخی سال رہا ہے۔ اس نے ثابت کردیا ہے کہ صرف اسٹار پاور ہی کسی فلم کی کامیابی کی گارنٹی نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سامعین الگ الگ طرح کی فلموں کو آج قبول کررہے ہیں۔ سیدھے طور پر مواد پوری طرح سے باکس آفس کا بادشاہ بن کر ابھرا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہندی فلموں کی پروڈکشن اور ٹکنیکل اسکل پر خاص توجہ دی جارہی ہے۔ باہو بلی میں ہم نے جو ٹیکنیکل افیکٹس دیکھے ہیں وہ کسی بھی ہالی ووڈ فلم سے برابری کرتے ہیں۔ فلم کا سائز اور اسکیل اب اہمیت نہیں رکھتے۔ جب تک ہمارے پاس کہانی نہیں ہوگی جسے اچھے سے کہا جائے تب تک ناظرین کسی فلم کوتوجہ نہیں دیں گے۔ ناظرین نے نہ صرف خان برادرس کو مسترد کیا بلکہ انہوں نے ایلیسٹرس کی دوسری فلموں کو بھی بری طرح سے نامنظور کردیا۔ ان میں امیتابھ بچن کی ’سرکار۔3‘ سوشانت سنگھ کی ’رابطہ‘ سدھارتھ ملہوترہ کی ’اے جنٹل مین‘ سوناکشی سنہا کی ’نور‘ شامل ہے۔ ناظرین ستاروں کے بجائے اچھے مواد کو اب پسند کرتے ہیں۔ لوگ یا تو زبردست اسٹوری والی فلم چاہتے ہیں یا پھر بہتر ویژول ایفکیٹس کو پسند کرتے ہیں۔ فلموں میں میوزک اہم ترین ہے لیکن اچھا میوزک بھی فلم کی کامیابی کی گارنٹی نہیں رہی۔ اس سال کی پہلی چھ ماہی میں فلاپ ہونے والی دیگر فلموں میں ’بیگم جان‘ ، ’میری پیاری بندو‘، ’جگا جاسوس‘، ’پوسٹر بوائے‘، ’سمرن‘، ’ڈے ڈی‘، ’لکھنؤ سینٹرل جیل‘، ’حسینہ پارکر‘ ،’بادشاہو‘، ’منا مارکل‘ اور ’ہاف گرل فرینڈ‘ خاص ہیں۔ فلم والے دیش کی سیاست اور سیاسی اشوز پر گہری نظر رکھتے ہیں خاص کر ساؤتھ بھارت میں ۔وہ جنتا کو متاثر کرنے والے متنازعہ اشوز کو بھی دکھانے سے نہیں کتراتے۔ حال ہی میں ساؤتھ انڈیا کے فلم اداکار وجے کرن کی فلم ’مرسل‘ اس سال کی سب سے بڑی تمل فلم مانی جارہی ہے۔ فلم نے تمام تنازعوں کے باوجود باکس آفس پر پہلے تین دنوں میں ہی قریب 100 کروڑ روپے کما لئے۔ خاص بات یہ ہے کہ وجے کی چار فلمیں 100 کروڑ کے کلب میں شامل ہوچکی ہیں۔ یہ ہی نہیں تاملناڈو میں یہ فلم سپر اسٹار رجنی کانت کی ’کبالی‘ کے ریکارڈ کو پارکرچکی ہے۔ وہیں فلم جی ایس ٹی سے جڑے مناظر سے تنازعوں میں ہے۔ا س میں ہیرو وجے کہتے ہیں سنگا پور میں سات فیصد جی ایس ٹی ہے پھر بھی وہاں مفت میں طبی سہولیات ہیں۔ آج کے لوگوں کو یہ ڈائیلاگ گوارا نہیں۔ بھاجپا نیتا اس منظر کو ہٹانے کی مانگ کررہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ سینسر بورڈ نے اس فلم کو منظوری تو دے دی ہے لیکن اب تحریک کا مطلب کیا ہے؟ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی اور ان کے ساتھی پی چدمبرم اور ڈی ایم کے لیڈر ایم کے اسٹالن اور اداکار کمل ہاسن اور تمل پروڈیوسرز کونسل اور تمل سنیما انڈسٹری کے نمائندوں نے حالانکہ اس مسئلہ پر فلم سے وابستہ لوگوں کی حمایت کی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ناظرین اب ستاروں سے زیادہ فلم کی کہانی و تھیم وغیرہ کو پسند کرنے لگے ہیں۔ اس سے ہماری فلموں کا معیار بڑھے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!