ایک بار پھر شری رام جنم بھومی کا اشو گرمایا

جیسے جیسے 2019 کے لوک سبھا چناؤ قریب آرہے ہیں ایودھیا میں رام مندر کا اشو گرمانے لگا ہے۔بھاجپا کی پھر کوشش ہوگی کہ ایک بار پھر رام مندر کا اشو اس کے لئے تشویشات کا برہماستر بنے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اشو کو سلجھانے کیلئے مختلف سطحوں پر کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے بھی کئی کوششیں ہوچکی ہیں تازہ کوشش شری شری روی شنکر کی ہے۔ آرٹ آف لونگ فاؤنڈیشن نے کہا ہے کہ اس کے بانی شری شری روی شنکر رام مندر تنازع کا کورٹ سے باہر حل تلاش کرنے میں ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔ اس سلسلے میں شری شری روی شنکر نرموہی اکھاڑے ہے آچاریہ رام داس سمیت کئی اماموں اور ہندو دھرم گورووں کے رابطے میں ہیں۔ حالانکہ فاؤنڈیشن نے یہ بھی صاف کیا کہ اس بارے میں فی الحال کوئی نتیجہ نکالنا بہت جلد بازی ہوگی۔ پہلے یہ اشو سوامی اور بیچ بیچ میں کئی دیگر کوششوں کے بعداب شری شری روی شنکر بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعہ نپٹانے کے لئے آگے آئے ہیں لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس کی مخالفت کی ہے جبکہ شری رام جنم بھومی نیاس کے سینئر ممبر ڈاکٹر رام ولاس ودیانتی نے کہا ہے کہ ایودھیا تنازعہ کے حل کے لئے شری شری روی شنکر کی ثالثی کسی بھی حالت میں قبول نہیں کی جائے گی۔ تنازعہ کو عدالت سے باہر بات چیت کے ذریعے سلجھانے کیلئے روحانی گورو شری شری روی شنکر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کئے جانے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایتوار کو کہا کوئی ٹھوس فارمولہ آنے پر ہی وہ اس معاملے پر بات چیت کی سمت میں آگے بڑھے گا۔ بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے کہا کئی بار بات چیت ہوچکی ہے، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا، ہم ہوا میں کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔ اگر ہمارے سامنے سرکاری طور پر کوئی ٹھوس فارمولہ پیش کیا جاتا ہے تو بورڈ بات چیت کو لیکر غور کرے گا۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم بات چیت نہیں کرنا چاہتے، لیکن کوئی ٹھوس فارمولہ تو ہے تو ہم کچھ کہیں۔ آرٹ آف لونگ کے بانی شری شری روی شنکر کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ ہم صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس انصاف پر مبنی اور ٹھوس فارمولہ ہے تو وہ بورڈ کے پاس بھیجے اس کے بعدہم غور کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی و سنگھ پریوار ایودھیا تنازعہ سلجھانے اور سریو ندی کے پاس مسجد تعمیر کی مہر لگوانے کی تجویز کا داؤ کھیلنے کے فراق میں ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں اگر مندر کا معاملہ پر امن طریقے سے سلجھانے میں مودی و یوگی کی ٹولی کامیاب رہی تو 2014 کی طرز پر 2019 کے چناؤ میں بھی بھاجپا، این ڈی اے نئی تاریخ رقم کرسکتی ہے۔ حال ہی میں دیوالی پر اترپردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ یوگی کے ذریعے ایودھیا میں 183216 دیپ جلانے کا جو نیا ریکارڈ بنایا اس سے یوگی کے تئیں سنتوں میں امید بندھی ہے کہ رام للا کو پکی چھت و مضبوط چبوترے میں لے جانے میں اب زیادہ تاخیر نہیں ہوگی۔ رام مندر ہندوؤں کے لئے آج بھی عقیدت کا بھرپور اشو تو ہے ہی یوگی آدتیہ ناتھ بھی رام مندر تحریک کے سپاہی بنے تھے۔ مرکز میں حکمراں وزیر اعظم نریندر مودی رام مندر تعمیر کے رتھ یاتری رہے ہیں۔ عام جنتا کا اگر مندر تعمیر کا وعدہ پورا نہیں ہوا تو مودی و یوگی دونوں سے عام آدمی روٹھ جائے گا اور تاج پر سنکٹ میں پڑ سکتا ہے۔ ممکن ہے اس لئے مودی و یوگی مندروں میں جاکر پوجا ارچنا کے ذریعے ہندو سماج کے تئیں پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ہندوتو کی لو کو مناسب جگہ دینے کو عہد بند ہیں۔ سنگھ و سنتوں کے درمیان دونوں نیتا ایودھیا کو ترجیح دیں گے۔ بیشک اس تنازعہ کو سلجھانے کی کئی کوششیں ہوئی ہیں لیکن وزیر اعظم چندر شیکھر کے چھوٹے سے عہد میں بات چیت سے معاملہ سلجھانے کی سب سے زیادہ کوشش ہوئی لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ دونوں میں سے کوئی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہواپھر کسی بات چیت کا راستہ کیسے نکل سکتا ہے؟ ہندو کی اکثریت مانتی ہے کہ ایودھیا میں شری رام کا جنم ہوا اور ان کا مندر وہیں بننا چاہئے جہاں مسلم بابری مسجد ہونے کا اسی جگہ پر دعوی کرتے ہیں۔ اس جذبے کے خلاف روی شنکر بھی شاید ہی جا سکیں اور نہ ہی سرکار یا کوئی دیگر جاسکتا ہے۔ اسی سبب تو الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی قبول نہیں ہوا۔ عدالت نے مانا کہ ہندو استھل کو توڑ کر مسجد بنوائی گئی تھی لیکن دونوں فرقوں کے درمیان بھائی چارگی بنائے رکھنے کیلئے تین حصوں میں سے ایک حصہ مسلمانوں کو بھی دے دیا جائے۔ رام جنم بھومی نیاس مقدمے میں فریق ہندو مہا سبھا اور رام للا بھی اپنا حصہ مانگیں گے۔ اس میں شبہ ہے کہ اب مرکز پہل کرے تو بات چیت ہوسکتی ہے لیکن معاملہ ایسی حالت میں پہنچ چکا ہے جہاں کورٹ کے فیصلے سے ہی اس بڑے تنازعہ کا ازالہ ہوگا۔ کم سے کم سپریم کورٹ کی غیر جانبداری پر کسی کو شبہ نہیں ہے۔ ہاں اس مسئلے کا نپٹارہ رام مندر تحریک سے جڑے سنتوں و مسلم سماج کے مذہبی پیشوا نپٹارہ کرسکتے ہیں۔ دیش کی ایکتا کے لئے یہ ضروری بھی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!