فلم ’لائف آف پائی‘نے مچائی آسکر میں دھوم

پچھلے کچھ عرصے سے ہندی فلموں میں ایک نئی لہر آئی ہے۔ نئے فلم ساز سیدھے پردے پر ڈرامہ کھیلنے کے بجائے جیتے جاگتے دیسی مسافروں پر لکھی کہانیوں کو اپنی کہانی کی بنیاد بنا رہے ہیں۔ ریئل اور ریل لائف کا فرق مٹانے والی یہ فلمیں ناظرین کو اپنے وقت کی سچائیوں سے جوڑتی ہیں۔ ’پان سنگھ تومر، شنگھائی، برفی، گینگس آف واسے پور اور کہانی‘ سے شروع ہوا یہ سلسلہ ’لائف آف پائی‘ تک پہنچا ہے۔ اس بار دنیا کے مشہور آسکر ایوارڈ میں بھارت کو خوش رکھنے کے لئے کئی باتیں ہیں۔ چار ایوارڈ جیتنے والی ’لائف آف پائی‘ کی پوری کاسٹ ہندوستانی تھی۔ سب سے بڑھ کر اس فلم نے خوبصورت مناظر والی جگہ کی شکل میں بھارت کو اہمیت دی ہے۔ ان میں پہلی بات ڈینی بویل کی ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ میں بھی تھی لیکن بھارت کی سنیمائی ساکھ سدھرانے میں اس کا کوئی خاص اشتراک نہیں مانا جاسکتا۔ اس فلم میں ایک سین تو بھارت کی غریبی اور مجبوری کو ظاہرکرتا ہے جس کا کہانی سے کہیں بھی کنکشن نہیں تھا۔ اس بار کے آسکر کی یہ خاصیت بتائی جارہی تھی کہ ایک دوسرے کو ٹکر دے رہی ہالی ووڈ کی چار مضبوط فلموں کا کوئی نہ کوئی انڈین کنکشن ضرور تھا۔ اس سے ایک بات تو صاف ہے کہ دنیا کے نقشے پر بھارت کی جگہ پکی ہورہی ہے۔ہالی ووڈ کی فلمیں بھارت میں پہلے بھی کافی کمائی کرتی رہی ہیں لیکن اب وہ مقبولیت کے معاملے میں ہماری فلموں سے بھی آگے جانے لگی ہیں۔ امریکہ میں لاس اینجلس کے ڈولوی تھیٹر میں ستاروں سے سجے فیسٹول میں سنیما کی دنیا کا نوبل ایوارڈ مشہور آسکر انعامات میں اس سال ہندوستانی اداکاروں کی حساس جذباتی اداکاری صلاحیت کو دکھانے والی ’آنگلی‘ تھی۔فلم ’لائف آف پائی‘ نے سب سے زیادہ چار آسکر ایوارڈ جیت کردھوم مچادی۔ فلم کے لئے موسیقی، ہدایتکار مائیکل دانا کو آسکر ملا۔ دو دیگر زمروں میں بھی یہ ملا جبکہ بین اکالک کی ایرانی یرغمال معاملے پر بنی فلم ’آرگو‘ کو بہترین فلم کا ایوارڈ ملا۔ ’آرگو‘ میں نے دیکھی ہے۔ فلم بہت اچھی بنائی ہے۔ کیونکہ یہ ایران کو پسند نہیں آئی اس لئے ایران کے سرکاری ٹی وی چینل نے اسے سی آئی اے کا اشتہار قراردیا۔ ایران میں ’آرگو‘ کلو سنیما گھروں میں پردہ سمیں نہیں ہونے دیا گیا لیکن ڈی وی ڈی کی مدد سے اسے دیکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ہندوستانی اداکاروں کی جذباتی اداکاری کو دکھانی والی تائیوان کی ہدایتکار آنگلی کی ’لائف آف پائی‘ نے چار کٹیگری میں ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔ تبو، عرفان خان اور نوودت سورج شرما نے فلم میں سنجیدہ اداکاری کی ہے۔ میرے لئے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ سورج شرما دہلی کے مشہور کالج سینٹ اسٹیفن کے طالب علم ہیں۔ وہ فلاسفی فرسٹ ایئر میں پڑھتے ہیں اور میں بھی سینٹ اسٹیفن میں پڑھا ہو۔ آسکر ایوارڈ بیشک لاس اینجلس کے ڈولوی تھیٹر میں دئے گئے ہوں لیکن دھوم تو سینٹ اسٹیفن کالج میں مچی۔ آنگلی نے اسٹیفن اسپل برگ اور مائیکل ہنیک جیسے سرکردہ اداکاروں کو پچھاڑتے ہوئے ’لائف آف پائی‘ فلم کے لئے شاندار ہدایت کیلئے آسکر ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ سورج کے اوپر چڑھتے دہلی کے اسٹیفن کالج میں ہر کسی کی زبان پر سورج ہی کا نام تھا۔ سبھی کو اپنے دہلی کا شہری ہونے پر فخر ہورہا تھا۔ ہر کوئی یہ بتانے میں فخر محسوس کررہا تھا کہ آسکر میں چمک بکھیرنے والا سورج تو اپنی دہلی کا ہی ہے۔ سینٹ اسٹیفن کے لئے تو یہ بہت خوشی کا دن رہا۔ اب ہر کوئی سورج سے ملنے کو بے تاب ہے۔ وہ راتوں رات ایک بین الاقوامی سپر اسٹار بن گئے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!