نشید معاملہ : بھارت کی ڈپلو میٹک کامیابی یا بھاری سفارتی شکست؟

مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید 11 دنوں سے جاری ہائی پروفائل ڈرامے کو ختم کرتے ہوئے مالے میں واقع ہندوستانی ہائی کمیشن سے آخر کار باہر آگئے۔ وہ اپنی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہونے کے بعد ہائی کمیشن میں آکر پناہ لئے ہوئے تھے۔ بھارت اس کی وجہ سے ایک عجب مشکل میں پھنس گیا تھا۔ نشید گرفتاری سے بچنے کے لئے13 فروری سے ہندوستانی ہائی کمیشن میں پناہ گزیں تھے۔ دراصل وہ اپنے عہد میں بنیادی ملزم جسٹس عبداللہ محمد کو حراست میں لئے جانے کے الزامات میں عدالت میں پیش ہونے میں ناکام رہے۔ نشید کی پارٹی نے الزام لگایا تھا یہ معاملہ سیاسی اغراز پر مبنی ہے۔ ستمبر میں ہونے والے صدارتی چناؤ میں حصہ لینے سے انہیں نااہل قرار دینے کے لئے ان پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ وارنٹ جاری ہونے کے فوراً بعد 13 فروری کو بھاگ کر نشید ہندوستانی ہائی کمیشن میں داخل ہوگئے تھے۔ یوپی اے سرکار کے حمایتیوں کا سوال ہے کہ محمدنشید معاملے کو بڑی سوجھ بوجھ سے نپٹالیا گیا ہے۔ بھارت نے جس طرح مالدیپ کی موجودہ حکومت اور سابق صدر کے درمیان صلاح صفائی کا سہارا لیتے ہوئے اس کام کو خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے اور سمجھوتہ قابل تعریف ہے۔ مالدیپ کے 46 سالہ لیڈر محمد نشید نے نومبر2008ء میں جمہوری طریقے سے ہوئے چناؤ میں تین دہائیوں سے قابض ڈکٹیٹر معمون عبدالقیوم کو ہراکر صدارتی عہدہ سنبھالا تھا۔ نشید مالدیپ جمہوری پارٹی کے بانیوں میں مانے جاتے ہیں۔ قیوم کی تاناشاہ حکومت کے خلاف تحریک کرتے ہوئے وہ اپنی سیاسی زندگی میں کم سے کم 20 بار جیل گئے۔ ان کو مالدیپ کانیلسن منڈیلا کہا جاتا ہے لیکن اب فوج اور افسر شاہی میں قیوم کی پکڑ مضبوط ہونے کے سبب نشید کو پچھلے دو سالوں سے مسلسل مخالفت کا سامنا تھا۔ 7 فروری2012ء کو نشید نے ناگزیر حالات میں استعفیٰ دے دیا تھا اور قریب11 دن پہلے گرفتاری کے ڈر سے نشید نے ہندوستانی ہائی کمیشن میں پناہ لے لی تھی۔ بھارت کے سامنے عجیب و غریب الجھ کھڑی ہوگئی۔ وہ نشید کو ہائی کمیشن سے باہر نکالنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ کہا جارہا ہے کہ ہندوستانی سفارتکار ٹیم کی ڈپلومیٹک کوششوں کے بعد مالدیپ حکومت اور نشید میں کوئی خفیہ سمجھوتہ ہوا ہے۔ فی الحال وہاں کی سرکار کا اب کہنا ہے نشید کے خلاف کوئی گرفتاری وارنٹ نہیں ہے اس لئے کہا جارہا ہے بھارت سرکار نے انتہائی مشکل حالات کو اچھے طریقے سے نپٹایا ہے اور اسے سفارتی کامیابی مانا جارہا ہے۔ لیکن دوسری جانب اگر کچھ حالیہ واقعات کے بعد دیش کی توجہ پھر سے ملک کی سلامتی کو لیکر سوالوں پر لگ گئی ہے تو ایسے موقعوں پر پہلے بھی قدم اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ مثلاً افضل گورو کی پھانسی کے بعد دیش کے اندر دہشت گردی کی جڑوں کو پھلنے پھولنے اور ان کے پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے لیکر اسلام آباد سے رشتوں کو لیکر تشویش اس طرح کی جتائی گئی ہے جیسے خطرہ کوئی ایک دن میں پیدا ہوا ہو۔ دراصل یہ کچھ مثالیں ہیں ہماری حکومت کی پالیسی سازی اور غیر سنجیدگی اور غیر دور اندیشی کی۔ مالدیپ کا تازہ معاملہ اس سلسلے کی نئی مثال ہے جب محمد نشید کو ہندوستان ہائی کمیشن میں پناہ دی گئی ہے تو کہیں نہ کہیں یہ احساس کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بھارت ایک سنجیدہ اور ذمہ دار ملک ہے اور وہ اس کے سفارتی فیصلے بلا جھجک لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن ایسا ہوا نہیں۔اگر ہم اس پورے معاملے پر غور کریں تویہ نوبت کیوں آئی ۔ کیونکہ بھارت کو مالدیپ میں تیزی سے بدلتے حالات کا اندازہ نہیں تھا۔ جس نشید کو آج ہم پناہ دے کر حفاظت دے رہے ہیں ان کا فروری2012ء میں تختہ پلٹ دیا گیا تھا۔ تب بھارت سرکار کو اتنا برا لگا تھا کہ اس نے وحید مانک کو وہاں کا نیا صدر بغیر سوچے سمجھے ،بلا کسی اختلاف کے مان لیا تھا اور باقاعدہ اسے مبارکباد بھی دے دی تھی۔
دلچسپ یہ ہے کہ نشید نہ صرف مالدیپ کی جمہوری حکومت کے سربراہ رہے بلکہ ہندوستان کے سچے دوست بھی ہیں۔ لیکن بھارت اپنے دوست کی مشکل وقت میں مدد کیا کرتا وہ اپنی نا سمجھی میں ان کے خلاف سازش کو بھی نہیں بھانپ سکا۔ تب وہ اس کو ایک سازش مان رہا تھا جو مالدیپ میں جمہوری عمل کو پٹری سے اتارنے کی ایک بڑی کارروائی بن چکی تھی۔ وحید نہیں چاہتے تھے کہ ستمبر میں ہونے والے چناؤ میں نشید کو دیش میں اپنی مقبولیت ثابت کرنے کا ایک اور موقعہ مل جائے لہٰذا ان پر اپنے عہد کے دوران ایک جج کو غیر قانونی طریقے سے گرفتار کرنے کا الزام لگایا گیا۔ بھارت اگر چاہتا تو مالدیپ میں آج جیسی صورتحال ہے ان حالات میں وہ پہلے بھی مداخلت کرسکتا تھا۔ اس سے ڈیموکریٹک دنیا میں بھارت کی ساکھ اور اچھی دکھائی پڑتی۔ ویسے یہ مسئلہ جمہوریت کی حمایت سے آگے ایک پائیدار ڈپلومیسی کا بھی ہے۔ 1988ء میں صدر عبدالقیوم کا تختہ پلٹنے کی حماقت کو ناکام کرنے والے ہندوستان نے اپنا دبدبہ قائم نہیں رکھا۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ چین نے اس دوران مالدیپ میں اپنے پاؤں جما لئے ہیں ۔ یہ بھارت کے لئے نہ صرف ایک ڈپلومیٹک ہار ہی ہے بلکہ بھارت کی سلامتی کی تشویش کو لیکر یہ اس کی خطرناک غیر سنجیدگی کو بھی ظاہرکرتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟