26/11 کے بعد امریکہ نے 39 مرتبہ آتنکی حملوں کو ناکام کیا ہے، کیسے؟

حیدرآباد بم دھماکوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے نہ تو ہمارے دیش میں ہماری خفیہ مشینری مضبوط ہے اور نہ ہی کوئی ایسی ایجنسی جو آتنک واد مخالف مشینری پر پورے طور سے کام کرسکے۔مختلف ایجنسیوں میں تال میل کی بھاری کمی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اطلاع ہوتے ہوئے بھی آتنک وادی حملے روکنے میں ناکام ہیں۔ بیجو جنتا دل کے ایم پی جے پانڈا نے ٹوئٹرپر لکھا ہے کہ 15 ریاستوں نے مانگ کی تھی کہ دیش میں ایک آتنک واد انسدادی ایجنسی ہونی چاہئے ، جو امریکہ اور برطانیہ کی طرح نہ صرف تال میل کرے بلکہ کارروائی بھی کرے۔ امریکہ کا این سی ٹی سی حکمت عملی پلان بنانے اور اطلاعات کو اکٹھا کرنے کا کام کرتا ہے۔ یہ جانچ اور گرفتاری نہیں کرتا۔ برطانیہ کا جوائنٹ ٹریرازم اینالیسس سینٹر آتنک واد سے متعلق خفیہ اطلاعات کو جمع کرکے ان کا جائزہ لیتا ہے۔ امریکہ نے9/11 آتنکی حملے کے بعد سے اب تک ایسی39 سازشوں کو نا کام بنا یا ہے۔ نیویارک، واشنگٹن ڈی سی، نیو جرسی جیسے شہروں میں آتنکی حملوں کے قریب 20 سازشوں کو بروقت ناکام کیا ہے۔ یہ سب ممکن ہوسکا ہے چست درست خفیہ اور آن لائن نگرانی کی بدولت۔ خاص بات یہ ہے کہ 39 سے35 حملوں میں سکیورٹی ایجنسیوں نے سازش کے ابتدائی مرحلے میں ہی پکڑ لیا تھا۔ جس سے کسی طرح کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس کے برعکس بھارت میں26/11 ممبئی حملے کے بعد مختلف شہروں میں 11 آتنکی حملے ہوئے جن میں60 سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں۔ نہ تو قومی آتنک واد انسداد مرکز پر کوئی اتفاق رائے ہوا اور نہ ہی آن لائن معلومات سانجھہ کرنے کے لئے نیشنل انٹیلی جنس گریڈ پر بات آگے بڑھی۔ اس میں دیری کی وجہ سے خفیہ ایجنسیوں کے لئے آتنکی حملوں کیلئے ٹھوہ لینے والے ڈیوڈ ہیڈلی جیسے آتنکی ماسٹر مائنڈ تک پہنچا نہیں جاسکا۔ یہ دونوں ہی سیسای جھنجٹوں میں الجھ کر رہ گئی ہیں۔ 9/11 نیویارک اور واشنگٹن حملوں کے بعد نیویارک شہر کو11 مرتبہ آتنکی حملوں سے بچایا گیا۔ واشنگٹن ڈی سی کو5 بار اور نیوجرسی کو 4 بار ہوائی جہازوں اور ہوائی اڈوں کو اور دیگر ٹھکانوں کو بچایا گیا۔ ہمیں امریکہ اور برطانیہ سے کچھ سبق لینا چاہئے۔ ہمارا حال تو اتنا خراب ہے کہ دیش میں خفیہ اطلاعات اکٹھی کرنے کے بنیادی ذرائع ہی پوری طرح نظرانداز ہورہے ہیں۔ پولیس کے سپاہی ،مخبر اور عام جنتا کا تعاون لینے میں خفیہ مشینری یا سرکار کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ رہی ہے کہ حیدر آباد دھماکے کی اطلاع ہونے کے باوجود اسے ناکام نہیں کیا جاسکا۔ خفیہ اطلاع ہونے کے باوجود انہیں بروقت ناکام نہیں کیا جاسکا۔ وجہ صاف ہے کہ خفیہ اطلاعات کا اہم ذریعہ پولیس کے سپاہی کو اس مہم سے نہیں جوڑا جاتا۔ عام جنتا سے بھی جانکاری لینے کی کوشش نہیں ہے۔ سپاہی کو سب سے بڑا ذریعہ اس لئے مانا جاتا ہے کیونکہ وہ عام لوگوں کے ساتھ ٹرانسپورٹ، بازار، سنیما، ٹی اسٹال اور یہاں تک کہ پبلک ٹوائلٹ کا استعمال کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت میں مخبر کا سسٹم ختم ہورہاہے جس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ بھارت میں خفیہ ادارے پانچ سات سو روپے میں مخبر سے آتنکی اطلاعات لے لیتے ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو جیسی بڑی خفیہ ایجنسی کو تو ذرا بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن ریاستوں میں پولیس کے ذریعے خفیہ اطلاع لینے کے لئے کوئی زیادہ کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ نیم فوجی فورس میں بھی یہ ہی حالت ہے۔ کشمیر جیسی حساس ریاستوں میں اطلاعات لینے کے لئے شراب کی بوتل، کھانا اور دو چار سو روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔ کسی مخبر کو چار پانچ ہزار روپے دینے ہیں تو ہیڈ کوارٹر کوفائل بھیجنی پڑتی ہے۔ سپاہی کی اطلاع پر کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔ عام ڈیوٹی کرنے والے سپاہی کو خفیہ یونٹ سے دور رکھا جاتا ہے۔ دوسری طرف امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی یوروپی ممالک میں خفیہ اطلاعات کے لئے سپاہی سب سے بھروسے مند ملازم ہے۔ انہیں بھاری رقم کے علاوہ نقد انعام اور ترقی بھی ملتی ہے۔ اس کے بعد مخبر کا نمبر آتا ہے۔ امریکہ میں 9/11 کے بعد خفیہ اطلاعات کے لئے اس بنیادی ذرائع کا وسیع استعمال ہوا ہے۔ نتیجہ اسامہ بن لادن کی موت سے لیکر اب تک وہاں حملے کی 9 بڑی سازشوں کو ناکام بنایا جاچکا ہے ۔ جب تک ہم اپنے دیش میں دہشت گردی انسداد مہم کو ترجیح اور سمت اور خفیہ مشینری کو مضبوط نہیں کریں گے تو ہمیں نہیں لگتا کہ ہم ان آتنکی حملوں کو روک پائیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟