دنیا میں دہشت سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں بھارت کا چوتھا مقام

ادھر مرکزی وزیر داخلہ صفائی دے رہے تھے کہ بھگوا آتنک واد پر ان کے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا ہے اور معافی مانگ رہے تھے ادھر حیدر آباد میں دہشت گرد بم پھوڑ ہے تھے۔ شندے نے جب وزارت داخلہ کا عہدہ سنبھالا تھا تب بھی 2 اگست کو پونے میں چار دھماکے ہوئے تھے ۔ ان دھماکوں کی گتھی ابھی تک نہیں سلجھ پائی۔ شندے کے عہد میں دوسرا دھماکہ ہو گیا۔
نظام کے شہرحیدر آباد میں جمعرات کو پھر دہشت کا سایہ پڑا۔ یہ شہر کے دل سکھ نگر علاقے میں پانچ منٹ کے وقفے سے دو دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں میں 12 افراد کی موت ہوگئی اور 84 زخمی ہوئے۔ جن میں سے کچھ کی حالت ابھی بھی نازک بتائی جاتی ہے۔ دھماکے میں آئی ای ڈی کا استعمال کیا گیا تھا۔ دو سائیکلوں پر رکھے بم دھماکو میں ٹائمر کے ذریعے دھماکہ کیا گیا۔ کیونکہ بم دھماکے ایک ساتھ کئی ٹھکانوں پر ہوئے اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا اس کے پیچھے کسی نہ کسی دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ رہا ہوگا۔ جس طرح بھیڑ بھرے علاقے میں بم دھماکے ہوئے اس سے یہ ہی صاف ہوتا ہے کہ آتنکیوں کا مقصد بڑے پیمانے پرتباہی مچانا تھا۔ جیسے ہی میں نے حیدر آباد میں ان دھماکوں کے بارے میں سنا پہلی بات میرے دماغ میںیہ ہی آئی کہ کہیں یہ افضل گورو کی پھانسی کا جواب تو نہیں ہے۔ بیشک پلاننگ اور اسکیم سرحد پار بیٹھے آتنکی آقاؤں کی جانب سے ہو لیکن اسے عملی جامہ مقامی ہندوستانی لوگوں نے ہی پہنایا ہوگا۔ یہ لشکر طیبہ، حزب المجاہدین یا پھر آئی ایس آئی کی سازش ہوسکتی ہے جسے انجام انڈین مجاہدین یا کشمیری علیحدگی پسندوں نے دیا ہے۔
دھماکوں کا پیٹنٹ یہ ہی ثابت کرتا ہے کہ جس طرح دھماکے کے لئے دو سائیکلوں کا استعمال کیا گیا ہے۔بھیڑ والے علاقے کو چن کر بم رکھے گئے، وہ ہی دیسی طریقہ ثابت کرتا ہے۔ ایسے دھماکے دیسی ہوتے ہیں جو توقع سے کم طاقت کے ہوتے ہیں لیکن انہیں جس طرح سے لگایا جاتا ہے اس سے جان مال کو زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ پھر سوال اٹھتا ہے دھماکے کے لئے حیدر آباد ہی کیوں چنا جاتا ہے؟ حیدر آباد کے تازہ دھماکے جن مقامات پر ہوئے ان کا ویڈیو اور باقی جانکاری اکٹھے کرنے میں انڈین مجاہدین کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے جولائی 2012ء سے حیدر آباد آتنکی نشانے پر تھا اور آتنکی تنظیم انڈین مجاہدین کے دو ممبروں نے حیدر آباد کے دل سکھ نگر کی چھان بین کی تھی اور آئی ایم کے سرغنہ ریاض بھٹکل کی ہدایت پر یہ کام کیا گیا۔ اگست2012ء میں ہوئے پنے دھماکے کے معاملے میں آئی ایم کے دو آتنکیوں سید مقبول اور عمران کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ پوچھ تاچھ میں انہوں نے بتایا تھا کہ حیدر آباد کے دل سکھ نگر کے علاقہ بیگم پیٹھ اور ایبنڈس علاقے کی ٹوہ لی گئی تھی لیکن اس سے پہلے وہ حیدر آباد میں دھماکے انجام دے دیتے بھٹکل نے پنے میں دھماکے کرنے کا حکم دیا تھا۔ حیدر آباد دھماکوں کو پچھلے سال اگست میں پنے میں ہوئے ناکام دھماکوں سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ حیدر آباد میں 25 اگست2007 ء کو دو جگہ ہوئے دھماکوں دل سکھ نگر میں ملے دھماکومادے اور 21 فروری کو تیسری جگہ ملے دھماکو سامان میں بھی سائیکل اور ٹائمر بم کے استعمال کی بات سامنے آئی ہے۔ 
سال 2007ء کے دل سکھ نگر دھماکے میں امونیم نائیٹریٹ ،دھماکے کے ساتھ بال بیرنگ ڈیٹو نیٹر اور ٹائمر کا استعمال کیا گیا تھا۔ خفیہ بیورو نے 13 جنوری کو پاکستان میں یونائیٹڈ کونسل کی میٹنگ کے بعد الرٹ جاری کیا تھا۔ شندے نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ میٹنگ میں دہشت گرد گروپوں نے افضل کی پھانسی کا بدلہ لینے کی بات کہی تھی۔ را نے بھی لشکر طیبہ یا اس کے ساتھی گروپ کی طرف سے حملے کا اندیشہ ظاہر کیا تھا۔ الرٹ میں انڈین مجاہدین اور سمی کا نام تھا۔ دھماکوں کی ٹائمنگ نوٹ کریں جس طرح بجٹ سیشن کے کچھ دن پہلے افضل گورو کو پھانسی دی گئی تھی اسی طرز پر آتنک وادیوں نے بجٹ اجلاس شروع ہوتے ہی اس واردات کو انجام دیا ۔ ساتھ ہی شمالی بھارت کے بجائے اس طرح کے واقعہ جنوبی ہندوستان میں ہونا ایک الگ اشارے دیتے ہیں۔ کیونکہ کیرل،تاملناڈو، کرناٹک، مہاراشٹر سمی اور انڈین مجاہدین کے مضبوط گڑھ ہیں جہاں ان کے مضبوط سلیپر سیل ہیں۔
ان اطلاعات سے مطمئن نہیں ہوا جاسکتا کہ اس طرح کی واردات کے اندیشے پہلے ہی جتادئے گئے تھے۔
درحقیقت ایسا ہی ہوا تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان آتنکیوں کو روکا کیوں نہیں جاسکا؟ یہ پہلی بار نہیں ہے جب خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے دعوی کیا گیا ہو کہ انہیں آتنکیوں کے ارادوں کی پہلے سے ہی بھنک لگ گئی تھی اور اس کے بارے میں متعلقہ ریاستوں کو مطلع بھی کردیا گیا تھا۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ آتنکی تو اپنی حرکتوں کو انجام دینے کے لئے نئے نئے طریقے اپناتے ہیں لیکن ہماری خفیہ ایجنسیاں ،سکیورٹی ایجنسیاں پرانے کی طور طریقوں پر کام کررہی ہیں۔ اس سے زیادہ افسوسناک اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ آتنکی خطرے کا سامنا کرنے کے باوجود خفیہ ایجنسیوں میں ازخود تال میل نظر نہیںآرہا ہے اور نہ ہی سکیورٹی ایجنسیوں میں۔ قارئین کو یہ جان کر دھکا ضرور لگے گا کہ دنیا میں آتنک واد سے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں کی فہرست میں بھارت اب چوتھے مقام پر آگیا ہے۔ پہلے مقام پر عراق، دوسرے پر پاکستان، تیسرے پر افغانستان اور چوتھے پر خود بھارت ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!