مدرسہ قانون پر سپریم کورٹ کی روک!

اتر پردیش مدرسہ ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دینے والے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو¿ بنچ کے حکم پر سپریم کورٹ میں جمعہ کو روک لگا دی ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ ،جسٹس جے وی پاردیوالہ ،جسٹس منسوج مشرا کی بنچ نے اتر پردیش سرکار اور دوسرے فریقین کو اس معاملے میں نوٹس جاری کر 31 مئی تک جواب دینے کو کہا ہے ۔معاملے کی اگلی سماعت جولائی کے دوسرے ہفتے میں ہوگی ۔الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو¿ بنچ نے گزشتہ 22 مارچ کو اپنے فیصلے میں سرکاری گرانٹ پر مدرسوں کو چلانے کے لئے سیکولرزم کے خلاف مانا تھا ۔ساتھ ہی ریاستی حکومت سے مدرسہ میں پڑھ رہے طلباءکا داخلہ عام اسکولوں میں کروانے کو کہا تھا اس کے بعد ریاست کے چیف سیکریٹری درگا شنکر مشرا نے پچھلے جمعہ کو اس حکم کی تعمیل کرنے کے احکامات دئیے تھے ۔اس معاملے میں جمعہ کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے پوچھنے پر اتر پردیش سرکار کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے ہائی کورٹ کے حکم کو منظور کر لیا ہے اس لئے اپیل نہیں کی ہے مدرسوں کے سبب سرکار پر سالانہ 1096 کروڑ روپے کا خرچ آرہا تھا ۔مدرسوں کے طلباءکو دوسرے اسکولوں میں داخلہ دیا جائے گا ۔وہیں عرضی گزاروں کی دلیل تھی کہ اس حکم سے 17 لاکھ طلباءاور 10 ہزار اساتذہ بے روزگار ہو جائیں گے ۔بنچ نے کہا مدرسہ ایکٹ کا اہم مقصدمدرسہ تعلیم کو باقاعدہ تسلیم کرنا ہے ۔لہذا جو سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف نہیں مانا جاسکتا۔ہائی کورٹ کے حکم پر روک کا مطلب یہ ہے کہ فی الحال اتر پردیش میں مدرستے چلتے رہیں گے ۔مدرسہ منتظمین نے ہائی کورٹ کے 22 مارچ کو آئے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چنوتی دی گئی تھی ۔بنچ نے کہا ہائی کورٹ کا یہ نتیجہ کہ مدرسہ بورڈ کا قیام ہی سیکولرزم کی خلاف ورزی ہے ۔مدرسہ تعلیم کو بورڈ کی ریگولیٹری پاور کے ساتھ ملانے جیسا ظاہر ہوتا ہے ۔مگر تشویس اس بات کی ہے کہ مدرسوں کے بچوں کو کوالٹی تعلیم ملے تو اس کا حل مدرسہ قانون ختم کرنے میں نہیں ہے اس کے لئے ہدایت جاری کرنی چاہیے۔بنچ نے کہا ہائی کورٹ نے مدرسہ قانون کو منسوخ کرتے وقت طلباءکے دوسرے مدرسوں اور اسکولوں میں بھیجنے کو کہا ہے اس سے 17 لاکھ طلباءمتاثر ہوں گے ۔ہمارا خیال یہ ہے کہ طلباءکو دوسرے اسکولوں میں منتقل کرنے کی ہدایت مناسب نہیں ہے ۔بڑی عدالت نے معاملے کی سماعت کے دوران کہا کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا حکم پہلی نظر میں صحیح نہیں ہے ۔بنچ نے کہا اگر مفاد عامہ کی عرضی دائر کرنے کا مقصد یہ یقینی کرناہے کہ مدرسوں کو ریاضی ،سائنس ،تاریخ اور زبان سے اہم مضامین میں سیکولرزم تعلیم فراہمی کی جاتی ہے ۔تو اس کا قدم مدرسہ ایکٹ 2004 کے تقاضوں کو منسوخ کرنا نہیں ہوگا ۔عرضی گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی ،مکل روہتکی ،پی ایس پٹوالیہ اور سلمان خورشید اور مینکا گروسوامی نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر سوال کھڑے کئے تھے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟