ہمت افزا اور تاریخی فیصلہ!

سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان والوں کے قتل کے 11 قصورواروں کی سزا میں چھوٹ دے کر رہا کرنے کے فیصلے کوچھوٹ دے کر رہا کرنے کے فیصلے کو منسوخ کر ہمت افزا اور تاریخی فیصلہ دیا ہے۔ گجرات سرکار نے 2022 میں یوم آزادی کے دن ان قصورواروں کی سزا میں چھوٹ دیتے ہوئے رہا کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کے گجرات سرکارکے پاس سزا میں چھوٹ دینے اور کوئی فیصلہ لینے کا اختیار نہیں ہے ۔اس معاملہ میں فیصلہ لینے کے لئے مہارشٹر سرکار کو زیادہ صحیح بتایا سپریم کورٹ کا فیصلہ سرکار کی جانب داری کے رویہ پر سخت حملہ ہے ۔عدالت نے سارے قصورواروں کو دو ہفتہ کے اندر سرنڈر کرنے کا حکم دیا ہے سپریم کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کے کچھ اہم نکات اس طرح ہیں ۔قصورواروں کی سزا معاف کرنے کی درخواست والی اپیلوں پر غور کرنا گجرات حکومت کے دائر اختیار میں نہیں تھا کیوں کہ یہ سی آر پی سی کی دفعہ 432 کے تحت( اس سلسلہ میں فیصلہ لینے کے لئے )سرکار مجاز نہیں تھی۔ سزا میں چھوٹ پائے قصورواروں میں ایک سے ایک کی عرضی پر گجرات سرکارکے غور کرنے کیہدایت دینے والی ایک دیگر بینچ کے 13 مئی 2022 کے حکم کوغیر تسلیم مانا ۔سزا میں چھوٹ کو گجرات سرکارکا حکم بغیر سوچے سمجھے پاس کیا گیا ۔گجرات سرکار نے مہاراشٹر سرکار کے اختیارات میں قبضہ کیا۔چونکہ صرف مہاراشٹر سرکار ہی چھوٹ مانگنے والی درخواستوں پر غور کر سکتی تھی ۔گجرات اسٹیٹ کی 9 جولائی 1992 کی سزا میں چھوٹ سے متعلق پالیسی موجودہ معاملوں کے قصورواروں پر لاگو نہیں ہوتی ۔بلقیس بانو معاملے میں وقت سے پہلے رہائی کے لئے بڑی عدالت کے دروازے پر دستک دینے والے ایک قصوروار کے ساتھ گجرات حکومت کی ملی بھگت تھی ۔عدلیہ قانون کی حکمرانی کی سرپرستی اور ایک جمہوری ریاست کا مرکزی ستون ہے قانون کی حکمرانی کا مطلب صرف کچھخوش قسمت لوگوں کی حفاظت کرنا نہیں ہے ۔آرٹیکل 142 کو سپریم کورٹ کے ذریعہ قصورواروں کے حق میں جیل سے باہر رہنے کی اجازت دینے کے لئے لاگو نہیں کیا جا سکتا ہے۔بتا دیں کہ پچھلے سال 15 اگست کو گجرات سرکار نےبلقیس بانو سے اجتماعی آبرو ریزی کرنے والے 11 قصورواروں کی عمر قید کی سزا معاف کر دی تھی ۔تب سے لیکر کافی ناراضگی دیکھی گئی تھی بلقیس بانو معاملے میں گجرات سرکار کارخ شروع سے ہی جانب داری بھرا دیکھا گیا تھا ۔اس کے پیچھے سیاسی مقصد بھی دیکھے گئے تھے۔ جو قصورواروں کے رہا ہوتے ہی صاف دکھائی دئے قصورواروں کو مالا پہناکر سواگت کیا گیا مانو وہ کسیگھناو¿نے جرم کے قصور وار نہیں تھے بلکہ انہوںنے کوئی بہادری کا کام کیا ہو۔ اس طرح ان کی سزا معاف کرنا صرف انہیں بے قصور ثابت کرنے بلکہ سماج میں ان کی قصیدہ خوانی کرنے کی بھی کوشش ہوئی تھی ایسے آبروریزی اور قتل کرنے اور سماج میں نفرت پھیلانے والوں کی سزا معافی اور سواگت کسی بھی وقت سماج کی نشانی نہیں مانی جا سکتی ۔گجرات سرکار کے فیصلہ پر سپریم کورٹ کی ناراضگیفطری ہے آخر اس طرح کے جانب دارانہ فیصلہ کرنے والی سرکار کی بہبودی اور عورتوں کےحفاظت کے عزم کو کیسے مانا جا سکتا ہے ۔سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے حق کو اہم ترین مانتے ہوئے اس کے تئیں انصاف کیا ۔عدالت کا تبصرہ بھی ایک روشنی کے ستون کی طرح کام کرے گا ۔ عدالت کو بغیر کسی ڈر یا غیر جانب داری کے قانون کو نافذ کرنا آتا ہے اس فیصلے سے عدالتوں کے تئیں لوگوںکوبھروسہ بڑھے گا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟