گمنامی چناوی بانڈ کا معاملہ!

سپرےم کورٹ کی 5 ججو پر مستمل عائےنی بےنچ پارٹےوں کے سےاسی مالی کفالت کے لئے چناوی بانڈ اسکیم کی جواز کو چےلنج کرنے سے متعلق درخواستوں پر 31 اکتوبر سے سماعت شروع کر دی ہے ۔چناوی بانڈ اسکیم کے 2 جنوری 2018 کو نوٹی فائےڈ کےا گےا تھا اسے سےاسی مالی کفالت مےں شفافےت لانے کی کوششوں کے تحت پارٹےوں کو نقد چندے کی متابدل شکل مےں پیش کیا گےا تھا ۔اسکیم کے تقازوں کے مطابق چناوی بانڈ بھارت کی شہرےت رکھنے والے شہری شخص ےا بھارت مےں قائم تنظےم ہے کے ذرےعہ خرےدے جا سکتے ہےں اسے کوئی شخص اکیلے ےا دےگر افراد کے ساتھ مشترقہ طور سے خرےد سکتا ہے چےف جسٹس ڈی وائی چندر چور کی سربراہی والی بےنچ کانگرےس نےتا نےا ٹھاکر اور مارکس والی پارٹی کے ذرےعہ دائر سمیت 4 عرضےوں پر سماعت کر رہی ہے اس بےنچ مےں دےگر جج سنجےو کھنا اور بی آر گوائی جج جے بی پاردی والا وغےرہ ہے سپرےم کورٹ نے 16 اکتوبر کو کہا تھا کہ اٹھائے گئے اےشو کی اہمےت کے پیش نظر عائےن کی دفعہ 145 (4)کے دائےرے مےں عنوان کو کم سے کم 5 ججو کی بےنچ کے سامنے رکھا جائےگا ۔عدالت نے 10 اکتوبر کو اےک اےن جی او اے ڈی آر کی جانب سے پیش سےنئر وکیل پرشانت بھوشن کی دلیلوں پر غور کیا تھا کہ 2024 کے لوک سبھا چناﺅ کے لئے بانڈ اسکیم شروع ہونے سے پہلے مسلے پر محازبہ کرنے کی ضرورت ہے قرےب 6 سال بعد چناوی بانڈ کا اشو سپرےم کورٹ کے عائےنی بےنچ سن رہی ہے سن 2017 مےں بجٹ پیش کرتے ہوئے حکومت نے اسے فائےنےنشیل ایکٹ کی شکل مےں منی بل کہہ کر پاس کرواےا تھا اس وقت کے وزےر خزانہ نے اس قانون کی مقصد چناوی فنڈنگ کے بارے مےں گمراہی پن کو دور کرنے کے لئے اسے شفافی قدم پتاےا تھا ےہ بل سورگےہ ارون جےٹلی نے پارلیمنٹ مےں پیش کیا تھا دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ مقاصد سے ہٹ کر اس نے الٹا معاملے کو الجھا دےا ہے قانون کے مطابق کوئی بھی شخص ےا ادارہ اےس بی آئی کے ذرےعہ جاری بانڈ خرےد کر پارٹےوں کو دے سکتا ہے نہ تو وجہ بتانی ہوگی کہ اس نے کس پارٹی کو ےہ بانڈ دےا ہے اور نہ ہی پارٹی کا نام بتانے کے لئے مجبور ہے کےوں کہ اےس بی آئی بےنک اسے جاری کرتا ہے لحازہ سرکار کو پتہ رہتا ہے کس کارپورےٹ نے کس پارٹی کو کتنا فنڈ دےا ہے ےعنی نا تو ووٹر کو پتہ چلتا ہے اور نہ ہی کارپورےشن پارٹےوں کو لیکن سرکار سب جانتی ہے کی آر ٹی آئی سے پتہ چلا ہے کہ بھاجپا کو ان 5 برسوں مےں (2018 سے جب بانڈ قانون کا نوٹی فکیشن جاری ہوا )90 فےصد ملے بانڈ اور ان مےں 90 فےصد سے سب سے اوپر کے بانڈ (1 کروڑ روپے فی بانڈ تھے)مطلب کارپورےٹ نے ہی پیسا دےا قانون مےں تبدےلی کر عطےہ حد ختم کر دی گئی جس سے کوئی بھی کمپنی کتنی بھی رقم عطےہ مےں دے سکتی ہے دوسرا بھارت مےں رجسٹرڈ غےر ملکی کمپنیوں کی لا محدود بانڈ خرےد سکتی ہے ۔کیا سپرےم کورٹ ان تمام پہلوﺅ پر بھی دھےان دےگی ؟(انل نرےندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!