مہنگا ئی بڑھنے پر ہم وزن کم کردیتے تھے !

مہنگائی کی مار سے اب کمپنیا ں بھی دوچار ہونے لگی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کنزیومر چیزیں بنانے والی کمپنیا ں بھی اپنے برانڈ کے پیکٹ کو چھوٹے اور وزن کم گھٹانا شروع کر دیا ہے ۔ پارلے جی بسکٹ بر طانیہ جیسی کمپنیاں بازاروں میں پکڑ بنائے رکھنے کیلئے چھوٹے پیکٹ میں سامان فروخت پر زیا دہ زور دیتے ہیں ۔ ان کی کل فروخت میں سامان کی 40سے 50فیصدی حصہ داری ہے ۔ حالاںکہ مہنگی غذائی اجناس تیل ،چینی اور گیہوں کی قیمت بڑھنے کے سبب ان کمپنیوں نے دو روپے سے لیکر دس روپے تک کے چھوٹے پیکٹ کے وزن میں کٹوتی کر دی ۔ پچھلے چھ مہینوں میں پارلے جی بسکٹ کے دس روپے والے سبھی پیکٹ کے وزن کو گھٹاکر 7سے 8فیصد مہنگا کر دیا ہے ۔ پارلے پروڈکٹس کے سینئر چیف ایگزیکٹو کرشن رام بودھ کا کہنا ہے کہ چھوٹے پیکٹ کا پرڈکشن کا فی چیلنج بھرا ہے کیوں کہ اس میں ہونی کمائی زیا دہ نہیں ہے۔ اور جہاں تک ممکن ہے ہم پیکٹ کا وزن کم کرتے ہیں اور اسی طریقے سے ہم بازار میں ٹکے ہوئے ہیں ۔ دس روپے سے زیا دہ قیمت والے پیکٹ کی قیمتوں میں ہم آہستہ آہستہ اضافہ کرتے ہیں ۔ اس مہنگائی سے کنبے والوں کے خرچ کا بوجھ بڑھ رہا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خوردہ کے مقابلے تھوک قیمتیں تیزی سے بڑھی ہیں۔یہی حال دوسری بسکٹ کمپنی پریا گولڈ فوڈ بنا نے والی کمپنی ایبرے کا کہنا ہے کہ مہنگا ئی کے سبب کمپنیوں کا چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ کمپنی کے ڈائریکٹر شیفر اگروال کا کہنا کہ مہنگائی بڑھنے پر وزن کم کر دیتے تھے لیکن اب یہ طریقہ کارگر نہیں ہے ۔پانچ روپے والے پیکٹ کی قیمت بڑھا کر دس روپے کیا جا سکتا ہے یا اس قیمت کا بسکٹ پیکٹ بند ہی کر دیا جائے ۔ پارلے جی کا کہنا ہے کہ مارچ میں چینی کی قیمتوں میں سات فیصدی اضافہ ہوا ہے اور پیکٹ بنانے اور دوسرے سامان کے داموں میں 20سے 22فیصدی کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!