دیش بغاوت قانون کو بنائے رکھنا ضروری ؟

مر کزی حکومت نے سنیچر کو سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ دیش بغا وت قانون کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ کیدا ر ناتھ سنگھ بنام بہار اسٹیٹ (1962)کیس میں آیا فیصلہ ایک اچھی نظیر ہے ۔جس پر آگے غور کرنے کی ضرورت نہیںہے ۔مر کزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کہا کہ ججو ں کی بنچ نے دفعہ 124A(دیش بغاوت )کے سیکشن 14,19اور 21کے برابر لانے کیلئے اسے ہلکا کردیا گیا تھا ۔ اس لئے تین ججوں کی بنچ کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ آئینی جواز پرپھر سے جائیں ۔تین ججوں کی بنچ نے بڑی بنچ کی فیصلوں کا جائزہ نہیں لے سکتی ۔ مرکز نے یہ جواز عرضی گزاروں کی اس دلیل پر دیا ہے کہ معاملے کو بڑی بنچ کو سونپنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اور تین ججوں کی بنچ کیدار ناتھ فیصلے میں غیر متوقع طور پر چھوٹ گئے معاملوں کے بعد آئے فیصلوں کے پس منظر میں غور کر سکتی ہے ۔ لیکن چیف جسٹس کی بنچ نے کہا تھا کہ کیا یہ صحیح ہوگا کہ تین ججوں کی بنچ پانچ ججوں کی بنچ کو نظر انداز کر سکتی ہے ۔ کیایہ جوڈیشل جواز ہوگا کہ معاملے کو بڑی بنچ میں سونپا جائے؟معاملے کی اگلی سماعت آج 10مئی کو ہونی ہے جس میں بنچ یہ طے کرے گی کہ کیا معاملے کو بڑی بنچ کو بھیجاجائے یا پھر تین ججوں کی بنچ ہی معاملے کو سنے ۔ معاملے کی سماعت کے دوران اٹا رنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہا تھا کہ کیدار ناتھ فیصلہ صحیح ہے اور اسے کورٹ کو ماننا چاہئے ۔ اس لئے دفعہ 124Aکا جائزہ لینا در کار نہیں ہے ۔ عدالت کچھ صحافیوں کی عرضیوں پر غور کر رہی ہے جس میں دفعہ 124A(ملک کی بغاوت ) کے جواز کو چنوتی دی گئی ہے۔ سرکاری وکیل تشار مہتا کے ذریعے داخل 38صفحات کے جواب میں کرمز نے کہا قانون کے بیجا استعمال کی بنیاد پر کبھی بھی آئینی بنچ کے جائز فیصلے پر نظرثانی کر نے پر یقینی نہیں ٹھہرا یا جا سکتا ہے ۔ چھ دہائی پہلے آئینی بنچ کے ذریعے دئے گئے فیصلے کے مطابق رائج قانون پر شبہ کرنے کے بجائے معاملے درمعاملے کے حساب سے اس طرح کے بیجا استعمال کو روکنے کیلئے انتظام کئے جا سکتے ہیں ۔ اورم کا اشو اٹھاتے ہوئے مرکز نے سینئر وکیل کپل سبل کی اس دلیل کی مخالفت کی کہ بدلی ہوئی صورت میں تین ججوں کی بنچ بھی ملک کی بغاوت قانون کے جواز پر جائزہ لے سکتی ہے ۔کہا کہ اس معاملے کو نہ تو کوئی بڑی بنچ کے پاس بھیجنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی تینوں ججوں کی بنچ کے ذریعے ان ہی تقاضوںپر آئینی جواز کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جسے پہلے جائز ٹھہرایا گیا ہے ۔ اپنے جواب میں مرکز نے یہ کہا کہ تینوں ججوں کی معاملے کو بڑی ججوں کو ریفر کئے بنا تب تک نظر ثانی نہیں کر سکتی جب تک وہ اس معاملے سے مطمئن نہیں ہوتی ہے ۔ فیصلے میں بڑی خامیاں ہیں بتادیں کہ پانچ جج صاحبان کی بنچ نے کیدار ناتھ سنگھ معاملے میں 1962میں سنا ئے گئے فیصلے میں ملک کی بغاوت قانون کے جواز کو بر قرار رکھتے ہوئے اس کے بیجا استعمال کے امکان کو بھی محدود کرنے کی کوشش کی تھی ۔ بڑی عدالت نے کہا تھا کہ سرکار کی نکتہ چینی تب تک دیش کی بغاوت نہیں مانا جا سکتا جب تک اس میں اکسانے کی بات نہ ہو یا جھگڑے بھڑکانے کی اپیل نہ کی گئی ہو۔ چیف جسٹس این وی رمن، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے پانچ مئی کو کہا تھا کہ وہ اس معاملے میں 10 مئی کو سماعت کرے گی کہ کیا دیش سے بغاوت سے متعلق انگریزوں کی قانون کو چنوتی دینے والی عرضیوں کو بڑی بنچ کے پاس بھیجا جا سکتاہے؟ سپریم کورٹ نے کیدار ناتھ سنگھ کیس میں ملک کی بغاوت سے متعلق آئی پی سی کی دفعہ 124کو برقرار رکھا تھا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟