1.76لاکھ کروڑ روپئے کا صحیح استعمال ہونا چاہیے

آخر کار آر بی آئی نے اپنے جمع سرمایہ سے حکومت کو رواں مالی سال کے لئے ایک لاکھ 76ہزار کروڑ روپئے دینے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ریزرو بینک کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ جب آر بی آئی سرکار کو اپنی محفوظ جمع رقم میں سے اتنے پیسے دینے جا رہا ہے ،یہ رقم اتنی بڑی ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جی ایس ٹی سے جمع ہر ماہ قریب ایک لاکھ کروڑ روپئے کا ہو رہا ہے غور طلب ہے کہ جمع کو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اقتصادی سستی سے نمٹنے کے لئے کچھ قدموں کا اعلان کیا تھا ان میں سے ایک سرکاری بینکوں کو ستر ہزار کروڑ روپئے کا سرمایہ فوراََ دیا جائے گا آر بی آئی نے یہ تاریخی فیصلہ جالان کمیٹی کی سفارش پر کیا ہے ۔آر بی آئی کے گورنر شکتی کانت داس کی سربراہی میں آر بی آئی نے پیر کو 176051کروڑ روپئے سرکار کو دینے کی منظوری دی تھی ۔یہ سفارش سابق گورنر بمل جالان کی سربراہی والی کمیٹی نے سفارش کی تھی آر بی آئی کے سابق گورنر ارجت پٹیل اس کے خلاف تھے اسی وجہ سے انہوںنے اور ڈپٹی گورنر ورل آچاریہ نے بھی استعفہ دیا تھا انہوںنے سرکار کے اس قدم کی مخالفت کرتے وقت ارجنٹینا کی مثال دی تھی 66ملین ڈالر سرکار کو دینے کے دباﺅ میں ارجنٹینا سینٹرل بینک کے گورنر مارٹن ریڈریڈو نے استعفیٰ دیا تھا بعد میں سرکار کو فنڈ مل گیا تھا ۔اس کے کچھ مہینے بعد ہی ارجنٹینا کی بانڈ کرنسی اور اسٹاک مارکیٹ تباہ ہو گئی سوال یہ ہے کہ سرکار آر بی آئی سے ملنے والی اس رقم کا کیسے استعمال کرئے گی جب وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن سے یہ سوال پوچھا گیا تو انہوںنے کہا کہ سرکار نے آر بی آئی سے ملے فنڈ کا استعمال کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔سیتارمن نے آر بی آئی سے پیسہ لینے کے کانگریس کے الزامات پر سخت اعتراض جتایا اور بولی کہ وہ ایسی الزامات کی پرواہ نہیں کرتیں ۔اور ایسے اپوزیشن لیڈر الزمات لگاتے ہی رہتے ہیں ۔کانگریس نیتا راہل گاندھی نے بینک سے رقم منتقلی کرنے کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کو خود پیدا کردہ اقتصادی بحران کے حل کا راستہ پتہ نہیں ہے اسی سلسلہ میں کانگریس نیتا نے سرکار پر مرکزی بینک سے پیسہ چوری کا الزام لگایا ہے پیسہ سرکار کو ملنے والا ہے اس کا وہ کیسے استعمال کرئے گی یہ اہم ترین ہے ۔یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ مرکزی بینک ماضی میں اس طرح پیسے دینے کے حق میں نہیں رہا ہے ظاہر ہے آر بی آئی کو کہیں نہ کہیں اسے لے کر کچھ اندیشات رہے ہوں گے مسئلہ یہ نہیں ہے کہ پیسے مانگے جا رہے ہیں بلکہ ان پیسوں کا کن کن مدوں میں استعمال ہوگا اس میں سرکار اور بینک کے درمیان صاف ستھر ا پن ہونا چاہیے حالانکہ مرکزی بینک سرکار کو ہر سال فاضل پیسہ دیتا رہا ہے جو ایک طرح سے اتنی ہی رقم ہوتی ہے ۔فوری طور پر تو مندی کہا جا رہا ہے لیکن اس پیسے کا استعمال دیش کو مالی بحران سے نکالنے کے لئے ہوگا بینک آف بڑودا کے چیف اقتصادی ماہریات سمیر نارائن اور انڈین اوور سیز بینک کے سابق سی ایم ڈی نریندر نے بتایا کہ سرکار بجٹ سے پہلے بتا چکی تھی کہ آر بی آئی سے ملنے والے فنڈ کو ملک کی ڈھانچہ بندی ،ہاﺅسنگ ،ریلوئے ،اور سڑک بنانے کے استعمال میں کیا جائے گا دوسری اس فنڈ سے بازار میں بھی پیسہ ڈالا جائے گا جس سے معیشت کو تیزی مل سکتی ہے چونکہ اس وقت ہندوستان کی معیشت گہرے بحران میں ہے اور جی ڈی پی بھی لگاتار گر رہی ہے اور اقتصادی انڈیکس کے سبھی ٹیلی نمبر نیچے ہیں ۔اور روپیہ بھی مسلسل گر رہا ہے ۔آر بی آئی کو یہ رقم ایک لاکھ چھتر ہزار کروڑ بجٹ میں کمی کے لئے استعمال کی جائے گی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا معیشت کی بری حالت میں اسے نئی طاقت کی ضرورت ہے ۔بینکوں کی حالت خستہ ہے ۔نوٹ بندی کی وجہ سے چھوٹے اور درمیانی صنعتیں سست پڑی ہیں ۔آٹو موبائل سیکٹر بھی سب سے برے دور سے گزر رہا ہے اس کے ساتھ ہی سرکاری خسارے کو کنٹرول میں رکھنا ایک بڑی چنوتی ہے بکری گھٹنے کے ساتھ روزگار بھی ختم ہو رہے ہیں اور آر بی آئی نے تو اپنا کام کر دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ سرکار اس سرمایہ کا صحیح استعمال کرتی ہے یا نہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!