اقلیت کی تشریح طے ہونی چاہئے

سپرےم کورٹ نے قومی اقلےتی کمےشن کو جو ہداےت دی ہے کی آباد ی کی بنےاد پر کسی فرقے کو اقلےت تشرےح کرنے کے لئے گائڈ لائنس بنانے سے متعلق معاملہ ہر 3مہےنے کے اندر فےصلہ لے کافی اہم ہے ۔عرضی مےں اپےل کی گئی تھی کہ سپرےم کورٹ اقلےت کی تشرےح نئے سرے سے طے کرے ۔چےف جسٹس رنجن گگوئی اور سنجےوکھنہ کی بےنچ نے بھاجپا نےتا اور وکےل اشونی اپادھےائے سے کہا کہ وہ اقلےت کمےشن مےں پھر اپنی اپےل داخل کرے ۔کمےشن کو اپنی رائے دےنی ہوگی ہندو ملکی سطح پر اکثرےت تو ہے لےکن کئی رےاست اےسی ہےں جہاں ہندو اقلےت ہےں باوجود اسکے وہا ں انہےں اقلےت کا درجہ حاصل نہےں ہے ۔عدالت نے قومی اقلےت سے کہا ہے کہ وہاں 5فرقوں کو اقلےت اعلان کرنے کی 1993کا نوٹےفےکشن منسوخ کرنے ،اقلےتوں کی تشرےح وپہچان طے کرنے اور جن 8رےاستوں مےں ہندوو ¿ں کی تعداد بہت کم ہے وہاں ہندوو ¿وں کو اقلےت قرار دےنے کی مانگ پر 3مہےنے مےں فےصلہ لے ۔اس سے پہلے اشونی اپادھےائے کی جانب سے پےش ہوئے وکےل نے عدالت سے کہا انھوں نے کورٹ کے 10نومبر 1917کے حکم کے مطابق قومی اقلےتی کمےشن کو ممورےنڈ م دےا تھا لےکن اقلےتی کمےشن نے آج تک اس کا جواب نہےں دےا ۔اسلئے انھوں نے ےہ اپےل داخل کی ہے ۔دراصل اپادھےائے نے 2017مےں 8رےاستوں (2011مردم شماری کے مطابق)لکشدےپ ،مےزورم ،ناگالےنڈ ،مےگھالےہ ،جموں کشمےر ،اروناچل پردےش ،منی پور ،پنچاب مےں ہندوو ¿ںکو اقلےت بتاتے ہوئے رےاست وائز اقلےتوںکی پہچان کرنے کی مانگ سے متعلق عرضی داخل کی تھی ۔سچ ےہ ہے کہ 2011کی مردم شماری کے مطابق ان 8رےاستوں مےں ہندوفرقے اقلےت ہےں ۔تواگر قومی سطح ہر آباد کے مطابق کسی کو اقلےت کا درجہ اور اس سے متعلق سارے فائدے ملتے ہےں تو رےاستی سطح پر انکے ساتھ ےہی ہونا چاہئے ۔ےہاں وہ اقلےت مےں ہے ۔اس سلسلے مےں آئےن الگ سے کچھ نہےں کہتا اقلےت اور اکثرےت کی تشرےح کو لےکر ہمارے دےش مےں 1977کی دہائی سے بحث شروع ہوئی تھی لےکن ےہ اےسا موضوع ہے جس پر زےادہ تر سےاسی پارٹےاں کچھ بولنے سے بچتی رہی ہےں ۔بھاجپا نے اس پر زور دار طرےقے سے آواز ضرور اٹھائی کےونکہ اس کی پالےسی بھی دوسری پارٹےوں کے برار ہی رہی ۔پارلےمنٹ نے بھی اس پر کبھی کوئی فےصلہ نہےں لےا وےسے بہتر تو ےہ ہوتا کہ پارلےمنٹ ہی اس پر اپنا فےصلہ دے دےتی اس کےلئے اگر ہمےں آئےن مےں ترمےم بھی کرنا پڑتی تو وہ بھی کی جاسکتی ہے ۔لےکن تلخ سچائی تو ےہ ہے کہ ےہ سےاسی پارٹےاں اپنے ووٹ بےنک کی سےاست کو ذہن مےں رکھتے ہوئے اس سے بچنے کی کوشش کرتی رہی ہےں اور اس سے لگتا ہےکہ اس اہم ترےن اشو کا فےصلہ ےاتو قومی اقلےتی کمےشن کرے ےا پھر عدالت اب دونوں کا ہی رول سامنے آگےا ہے۔امےد کرنی چاہئے کہ برسوںسے لٹکے اس مسئلے کا اب کوئی حل نکل سکے گا ۔اگرچہ ان رےاستوں مےں ہندوو ¿ں کو اقلےت کا درجہ مل جاتا ہے تو انہےں آئےن کے تحت مخصوص سرپرستی اور حق مل جائےں گے ۔جو ہم سمجھتے ہےں اور ضروری بھی اور انکا حق بھی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!