نوٹ بندی - کالا دھن کیسے ختم ہوا؟

سنیچر کو حیدر آباد میں نالسر یونیورسٹی آف لاءمیں منعقدہ عدلیہ اور آئین سمپوزیم کے پانچویں ایڈیشن کی افتتاحی سیشن میں اپنی اہم تقریر میں جسٹس ناگرتنا نے جنہوں نے پچھلے سال 2 جنوری کے فیصلے میں نوٹ بندی کی مخالفت کی تھی نے پوچھا کہ جب کاروائی کے دوران 98 فیصدی کرنسی ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کے پاس واپس آگئی تو کالا دھن کیسے ختم ہوا ؟ جسٹس رتنا نے اپنی تقریر میںنوٹ بندی معاملے میں اپنے 2023 کے فیصلے کے بارے میں بات کی جب مرکز کے نوٹ بندی قدم کی مخالفت کرنے کے لئے عدم رضامندی جتائی تھی تب سپریم کورٹ نے 41 کی اکثریتی فیصلے سے نوٹ بندی پر مرکزی حکومت کے 2016 کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا ۔جسٹس ناگ رتنا نے کہا کہ وہ نوٹ بندی کے معاملے کی سماعت کرنے والی بنچ کا حصہ بن کرخوش ہیں ۔اس خصوصی معاملے میں اپنی نا اتفاقی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ 2016 میں جب نوٹ بندی ہوئی تھی تب 86 فیصدی کرنسی 500/1000 کے نوٹ تھے ۔انہوں نے کہا 98 فیصدی کرنسی واپس آگئی تو ہم بلیک منی انسداد (نوٹ بندی ) کے نشانہ میں کہاں ہیں ؟ سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ انہوں نے اس وقت سوچا تھا کہ نوٹ بندی بلیک منی کو وائٹ میں بدلنے کا ایک اچھا طریقہ تھا ۔انہوں نے کہا کیوں کہ 98 فیصدی کرنسی واپس آگئی ۔۔۔۔میں نے اس وقت سوچا کہ یہ بلیک منی کو وائٹ بنانے کا ایک اچھا طریقہ تھا ۔اس کے بعد انکم ٹیکس کاروائی کے سلسلے میں کیا ہوا ہمیں نہیں پتہ اس لئے عام آدمی کی بدحالی نے مجھے عقیدت میں بے چین کر دیا اور مجھے غیر متفق ہونا پڑا۔ جسٹس ناگ رتنا نے اس بات پر زور دیا کہ جس طرح سے نوٹ بندی کی گئی ، وہ صحیح نہیں تھی ۔انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی میں فیصلہ لینے کی کوئی کاروائی نہیں تھی جو قانون کے مطابق تھی ۔انہوں نے یہ کہتے ہوئے تشریح دی کہ جس جلدبازی سے یہ کی گئی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت کے وزیر خزانہ کو بھی اس کے بارے میں پتہ نہیں تھا ۔جسٹس ناگ رتنا نے مہاراشٹر اسمبلی میں اٹھے معاملے کابھی ذکر کیا ۔انہوں نے گورنر کے روک کا بھی ایک اور مثال بتائی جہاں آئینی عدالتوں کے سامنے غور کیلئے لانا آئین کے تحت ایک ہیلدی ٹرینڈ نہیں ہے ۔مجھے لگتا ہے مجھے اپیل کرنی چاہیے کہ گورنر کا عہدہ حالانکہ اسے گورنر کا عہدہ کہا جاتا ہے اور گورنرکا عہدہ ایک سنجیدہ آئینی عہدہ ہے اور گورنروں کو آئین کے تحت ہی اپنے فرائض کی تعمیل اور آئین کے مطابق کرنی چاہیے تاکہ اس طرح کی مقدمہ بازی سے بچا جا سکے ۔عدالتیں منعقدہ ہونے سے پہلے جسٹس ناگ رتنا نے کہا کہ گورنروں کو کئی کام کرنے یا نا کرنے کے لئے کہا جا نا کافی شرمناک ہے ۔انہوں نے کہا اس لئے اب سمجھ میں آگیا کہ جب آئین کے مطابق اپنے فرائض کی تعمیل کرنے کے لئے کہا جائے گا ۔جسٹس ناگ رتنا کا یہ ریمارکس بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی رہنمائی والی تین نفری جج صاحبان کی بنچ کے ذریعے ڈی ایم کے نیتا کو ریاستی کیب نیٹ میں وزیر کی شکل میں پھر سے شامل کرنے کے انکار پر تملناڈو کے گورنر آر این روی کے رویہ پر سنگین تشویش ظاہر کرنے کے کچھ دیر کے بعد آئے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟