مظفر پور کے آئی سی یو میں ٹی وی چینل

مظفر پور میں دماغی بخار سے معصوم بچوں کی موت کا سلسلہ جاری ہے ۔بدھوار کو ایس کے ایم سی ایم اسپتال میں علاج کے دوران پانچ بچوں نے دم توڑ دیا ۔موتیہاری میں بھی پانچ بچوں کی موت کی خبر ملی ہے ۔دماغی بخار سے اب تک مرنے والے بچوں کی تعداد 156تک پہنچ گئی ہے جبکہ مختلف اسپتالوں میں متعدد بچوں کا علاج پی آئی سی یو میں چل رہا ہے ۔شہر کے دونوں اسپتالوں میں ہر گھنٹے چیخ پکار مچی ہوئی ہے ۔فاقہ کشی کے مارے بچے جس طرح چمکی بخار کے شکا رہو کر مرتے جا رہے ہیں وہ حقیقت میں ڈرانے والا سلسلہ ہے ۔میڈیا نے اس بے حد تکلیف دہ واقعہ کو جس طرح سے پیش کیا ہے وہ بھی کم بے چین کرنے والا نہیں ہے ۔خاص طورپر ان نیوز چینلوں کا رول پر تو سوالیہ نشان لگ رہے ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ انہوںنے اس سانحہ کے کوریج میں کم از کم بے حسی کا ثبوت دیا ہے ۔بہت سے ٹی وی صحافیوں نے تو صحافت کی اخلاقیت اور ضابطوں کی پرواہ تک نہیں کی ۔وہ برابر لکشمن ریکھا کر رہے ہیں ۔ نہ تو انہیں مریضوں سے ہمدردی تھی اور نہ ہی ان کی پرائیوسی کے تئیں کوئی سنجیدگی کا احساس اور تو اور انہوںنے اپنے پیشے کے بھروسہ کی بھی پرواہ نہیں کی ۔نیوز چینل کے صحافی اچانک پیدا ہوئی ایک منفی جذبے سے رغبت پاکر اس سانحہ کے کوریج میں کود پڑے ۔اچھی بات ہے کہ انہوںنے اس سانحہ کو کوریج کے لائق سمجھا یہ بھی صحیح ہے کہ میڈیا کوریج کے سبب مرکزی اور ریاستوں حکومتوں کو حرکت میں آنا پڑا یہ سب کو معلوم ہے کہ اسپتال کے آئی سی یو میں داخلہ کے کچھ قواعد ہوتے ہیں۔
جوتے پہن کر اپنی کیمرہ ٹیم کو آئی سی یو میں داخل کر ڈاکٹروں اور نرسوں سے یوں سوال و جواب نہیں کر سکتے ۔جیسا کہ کچھ ٹی وی چینلوںنے کیا ہے اگر اس دوران کئی بچے اس لئے مر جاتے چونکہ ڈاکٹر نرسوں سے سوال و جواب کر رہے تھے تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟اگر ایک اینکر نے یہ غلطی کی تو کیا یہ ضروری تھا کہ دوسرا اینکر بھی اس غلطی کو دہرائے ؟درا صل اسے انہوںنے مقبولیت اور کامیابی کا فارمولہ مان لیا انہیں تو ثابت کرنا تھا کہ وہ سب سے تیز ،قابل اور با ہمت ہیں ۔اس لئے انہوںنے وہاں موجود ہر ملازم نرس یا ڈاکٹر کو ان اموات کے لئے قصوروار ٹھہرانا تھا ۔لہذا وہ ان پر ٹوٹ پڑے بھلے ہی سہولیات کی کمی یا بد انتظامی کے لئے وہ ذمہ ہوں نہ ہوں کیونکہ ٹی وی جنرلسٹ پردھان منتری وزیر اعلیٰ ریاستی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی نا کامی پر اُٹھانے سے ڈرتے تھے ۔انہیں کٹگھرے میں کھڑا کرنے سے کتراتے تھے اس لئے ڈاکٹر نرس ان کے لئے نرم نشانہ بن گئے وہ انہیں پر پل پڑے اور انہیں کھلنایک ثابت کرنے میں لگے یہاں تک کہ ان کے کام میں رکاوٹ تک ڈالنے لگے ۔سچ تو یہ ہے کہ کل کچھ نیوز چینلوںنے مظفر پور کانڈ کو اپنے لئے ایک ایونٹ بنا لیا ۔ایک اصلاح پسند میڈیا ایونٹ جس میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کا ایک ادارہ تھا اور ٹی آر پی بنانے کا فارمولہ بھی ۔ٹی وی کوریج میں رپورٹنگ کم نظر آئی اور شور اور بھڑکنا زیادہ ،سنسنی اس کا سب سے بڑا سبب تھی اگر رپورٹر کی جگہ اینکر نے لے لی تھی تو اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ وہ رپورٹنگ نہیں شو کر رہے تھے ۔شو کو ہٹ کرنے کے لئے جو بھی مسالہ چاہیے ہوتا ہے اینکر وہی تیار کر رہے تھے رپورٹنگ نہیں تھی اس کو بھلایا جا چکا تھا اس لئے واقعہ کے پہلے اس میں کوئی رپورٹ نہیں نظر آتی ۔وہ یہ نہیں بتاتے کہ مظفر پور میں فاقہ کش بچوں کے واقعات اور حالت افریقہ کے سب سے زیادہ بھکمری کے شکار ملکوں سے بھی بد تر کیوں ہے؟انہوںنے پندرہ سال سے سرکار پر قابض نیش کمار سرکار کے ناکارہ پن کی دھجیاں کیوں نہیں اڑائیں ؟انہوںنے سوال نہیں کیا کہ انتظامیہ اتنا سست اور لا پرواہ آخر کیوں بنا رہا ؟جبکہ ہرسال اس طرح کی موتیں ہوتی رہتی ہیں ؟کیا انہیں یہ نہیں پوچھنا چاہیے تھا کہ ریاست میں پبلک ہیلتھ کی حالت اس طرح کیوں چرمرا گئی ہے ۔ہیلتھ بجٹ میں ایک مشت کٹوتی کیوں کی گئی؟پوچھنا چاہیے تھا کہ مگر پوچھا نہیں کیونکہ یہ حکمراں پارٹیوں کے لئے پریشانی کا سبب بنتی آیوشمان بھارت ہیلتھ بیما یوجنا کی تعریف میں گھنٹوں بحث ٹی وی چینل کروا سکتے ہیں مگر یہ نہیں پوچھتے کہ ایسے موقعوں پر ان کی اہمیت کیا ہے ؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!