سشما سوراج کا دلیل آمیز، موثر جواب
بہت دنوں کے بعدپارلیمنٹ میں ہندوستانی کی خارجہ پالیسی کو لیکر اتنی مفصل اور پائیدار بحث سننے کو ملی۔ راجیہ سبھا میں دونوں فریق حکمراں و اپوزیشن پوری تیاری کے ساتھ آئی تھی۔ اپوزیشن ممبران نے جم کرسرکار پر تنقیدکی لیکن سشما سوراج نے دلائل، ثبوتوں کے ساتھ جو جوابات دئے وہ لا جواب تھے، سننے والے تھے۔ سشما جی اپنی پوری لے میں تھیں۔ اتنی اچھی تقریر کئی برسوں کے بعد میں نے کسی بھی وزیر خارجہ کی سنی ہے۔ سشما جی نے کہا کہ بھارت آج گلوبل ایجنڈہ طے کرنے والا دیش ہے۔ ہندوستانی وزیر اعظم جب بیرون ملک جاتے ہیں تو وہ دہشت گردی ،ماحولیات و کالا دھن اور ترقی پر گلوبل ایجنڈہ کررہے ہوتے ہیں۔ ہم اب امریکہ کے سامنے ہریانوی رہنما نہیں ہیں۔پی ایم مودی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کوچنوتی دینے کا مادہ ہے۔ راجیہ سبھا میں جمعرات کو مودی سرکار کی خارجہ پالیسی پر ضمنی بحث کے دوران سشما نے جواب دیتے ہوئے نہ صرف اپوزیشن پر زبردست پلٹ وار کیا بلکہ ڈوکلام تنازعہ پر بھی صفائی دی۔ ڈوکلام2012 کا سمجھوتہ ابھی برقرار ہے جس کے تحت بھارت، چین، بھوٹان مل کر تنازعہ سلجھائیں گے جنگ نہیں ہم بات چیت سے اسے حل کریں گے۔ سرحدی تنازع، نیوکلیرز سپلائی گروپ اور اقوام متحدہ کے جیش محمد کے چیف مسعود اظہر کو آتنک وادی قرار دینے پر چینی اعتراض پر بھی بات جاری ہے۔ سی پی ای سی ، پی او کے سے گزر رہا ہے، یہ ہماری سرداری کا سوال ہے۔ انہوں نے کہا چین کے ساتھ ہمارا کاروبار مئی 2014 سے اب تک 116 ارب ڈالر کا تھا جو 160 ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ سشما نے کہا کہ پاکستان پر ہمارا روڈ میپ سرکار کے حلف لینے سے پہلے ہی صاف تھا۔ حلف برداری میں نواز شریف آئے ،باہمی بات چیت بھی ہوئی ۔ پاکستانی وزیر اعظم سے ہمارے رشتوں کی گہرائی یہ تھی کہ ان کے جنم دن پر ہمارے پی ایم خود چلے گئے۔ پٹھانکوٹ حملہ کے بعد بھی دوستی بدرنگ نہیں ہوئی لیکن چیزیں جیسے برہان وانی کے انکاؤنٹر کے بعد بگڑیں ، جب نواز نے اسے شہید بتادیا۔روڈ میپ ایک طرفہ نہیں چل سکتا۔ آتنک واد اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ سشما بولیں ، اسرائیل ہمارا دوست ضرورت ہے ، لیکن فلسطین کا ساتھ ہم نہیں چھوڑیں گے۔ فلسطین سے ہمارے رشتے بہتر ہیں اور وہاں کے وزیر اعظم یہاں آئے بعد میں مودی اسرائیل گئے۔ میرے فلسطین دورہ میں وہاں کے صدر محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ تنازع کو سلجھانے میں مدد مانگی۔ مودی نے بھی فلسطین کے پی ایم سے کہا کہ سشما نے کہا تھا کہ دونوں ہمارے دوست ہیں ، ہماری خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے کہ لگاتا امریکی مخالفت اور روس اسرائیل ، فلسطین، سعودی عرب، یمن آج بھی ہمارے دوست ہیں۔چینی دھمکیوں کے باوجود سشما کا یہ کہنا تھا کہ فوج جنگ کے لئے ہے لیکن جنگ سے حل نہیں نکلتا۔۔۔ جنگ کے بعد بھی آخر کار بات چیت کے لئے میدان میں ہی آنا پڑتا ہے تو بھارت کی کوشش بات چیت سے مسئلہ سلجھانے پر ہے۔ انہوں نے جن تین الفاظ صبر، لہجہ تحمل اور ڈپلومیٹک چینل کا استعمال کیا اس سے ہر کوئی متفق ہوگا۔ حقیقت میں چین کے جارحانہ بیانوں کے باوجود بھارت نے ابھی تک پورا تحمل برتا ہے۔ حالانکہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارت نے ڈوکلام کے مسئلہ پر اپنا موقف ہلکا کیا ہے۔ راجیہ سبھا میں کانگریس کی رہنمائی میں اپوزیشن نے خارجہ پالیسی پر کئی سوال کھڑے کئے۔ کانگریس کی جانب سے آنندشرما نے کہا کہ پردھان منتری کی جھپی ڈپلومیسی کا دیش کو کیا فائدہ ہورہا ہے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔ چین کے ساتھ ٹکراؤ اور امریکی ویزا کے مسئلہ پر پوزیشن صاف نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے غیرملکی دوروں کے بارے میں ایوان کو کوئی جانکاری نہیں دی۔ شرما نے نیپال، سری لنکا، موریشس اور بنگلہ دیش کے ساتھ سرکار کے رویہ پر بھی سوال کھڑے کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکار نے جنگ پنگ اور ٹرمپ سے پی ایم کی ملاقات کے بارے میں ایوان کو نہیں بتایا۔سرکار ایچ بی ویزا پر امریکہ سے ٹھوس وعدہ نہیں لے سکتی۔ برکس این ایس اے چوٹی کانفرنس میں ہندوستانی قومی سلامتی مشیر ڈوبھال کی چینی لیڈر سے ملاقات کے نتیجے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ آنند شرما نے کہا چین پاک پر اپوزیشن ہمیشہ سرکار کیساتھ کھڑی رہی لیکن اپوزیشن کوسرکار نے اعتماد میں نہیں لیا۔ چین لگاتار دھمکی دے رہا ہے ۔ چینی پی ایم اور وزیر اعظم مودی کی ملاقات کے بعد ڈوکلام پر مثبت بات چیت سے چین کے انکار کی وجہ پر بھی سوال اٹھائے گئے۔ کل ملاکر میں سمجھتا ہوں کہ سشما سوراج نے ہر سوال کا تشفی بخش جواب دیا اور ان کی تعریف اور تو اور سماجوادی پارٹی نیتا پروفیسر رام گوپال یادو نے بھی کی۔ انہوں نے کہا جس طرح سے حکومت نے ہندوستانیوں کو جنگ زدہ یمن سے نکالا اور مدد کی وہ قابل تعریف ہے۔ اتنا ہی نہیں وزیر مملکت خارجہ جنرل وی کے سنگھ مدد کے لئے خود یمن گئے یہ ایک بہت ہی ہمت افزا قدم تھا۔ یادو نے کہا کہ سشما سوراج کی بیرون ممالک میں بہت عزت ہے۔ انہوں نے صرف ٹوئٹ پر ہی ایک پاکستانی بیمار بچے کو ویزا دلوا دیا۔ رام گوپال کے یہ کہنے پر کہ ایوان میں حکمراں اور اپوزیشن دونوں نے ان کی بات کی حمایت کی اور بہت دنوں بعد کسی بھی وزیر خارجہ کاا تنا موثر ، دلیل آمیز جواب سننے کو ملا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں