خفیہ چندہ ووٹرس سے دھوکہ !

لوک سبھا چناو¿ سے ٹھیک پہلے سپریم کورٹ نے ایک دور رس تاریخی فیصلے میں 2018 میں لائے گئے الیکٹرول بانڈ اسکیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے فوری طور سے منسوخ کر دیا ۔سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے حکم دیا کہ الیکٹرول بانڈ خریدنے والے اور اسے بنانے والوں اور اس سے ملی رقم کو 13 مارچ تک سامنے لایا جائے ۔دراصل اسکیم کے تحت سیاسی پارٹیوں کو 1 کروڑ یااس سے زیادہ میں چندہ دینے والوں کا نام خفیہ رکھنے کی چھوٹ تھی۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا خفیہ چندہ ووٹرس سے دھوکہ ہے ۔سپریم کورٹ نے کہا الیکٹرول بانڈ کو پوشیدہ رکھنا اطلاعات حق اور آرٹیکل 19(1) (A) کی خلاف ورزی ہے ۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں کو مالی مدد سے اس کے بدلے میں کچھ اور انتظام کا نظام کو بڑھاوا مل سکتا ہے ۔انہوں نے کہا بلیک منی پر قابو پانے کا واحد طریقہ الیکٹرول بانڈ نہیں ہو سکتا ہے ۔اس کے اور بھی کئی متبادل ہیں ۔جسٹس چندر چوڑ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو سیاسی پارٹیوں کو ملے الیکٹرول بانڈ کی جانکاری دینے کی بھی ہدایات دی ہے ۔سیاسی پارٹیوں کو چندہ سپریم کورٹ نے کہا کہ ایس بی آئی چناو¿ کمیشن کو جانکاری مہیا کرائیگا اور چناو¿ کمیشن اس معلومات کو 31 مارچ تک اپنی ویب سائٹ پر جاری کرے گا ۔فیصلہ سنانے والی بنچ نے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ، جسٹس سنجیو کھنہ ،جسٹس وی آر گوئی ، جسٹس جے بی پاریدوالہ ، جسٹس منوج مشرہیں۔جانے مانے وکیل پرشانت بھوشن نے فیصلے کی تعریف کی ہے ۔انہوں نے کہا اس فیصلے سے جمہوری عمل کو مضبوطی ملے گی اور اس فیصلے کا ہماری جمہوریت پر لمبا اثر ہوگا ۔کورٹ نے بانڈ اسکیم کو خارج کر دیا ہے ۔اس اسکیم میں یہ نہیں پتہ لگتا تھا کہ کس نے کتنے روپے کے بانڈ خریدے ہیں اور کسے دئیے ۔سپریم کورٹ نے اسے اطلاعات حق کی خلاف ورزی مانا ہے اسے لیکر جو ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت کوئی کمپنی کسی بھی سیاسی پارٹی کو کتنا بھی پیسہ دے سکتی ہے ۔کورٹ نے وہ بھی منسوخ کر دی ہے ۔پرشانت بھوشن نے کہا کہ کورٹ کا کہنا ہے کہ چناوی جمہوریت کیخلاف ہے کیوں کہ یہ بڑی کمپنیوں کو صرف فلوئنگ فیول ختم کرنے کا موقع دیتی ہیں ۔سپریم کورٹ نے کہا جو بھی پیسہ اس اسکیم کے تحت جمع کیا گیا ہے وہ بھارتیہ اسٹیٹ بینک چناو¿ کمیشن کو دے اور کمیشن کی طرف سے اس کی جانکاری عام لوگوں کو مہیا کرائی جائے گی ۔شفافیت کیلئے کام کرنے والی سماجی کارکن انجلی بھاردواج نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخی بتاتے ہوئے کہا کہ فیصلہ اطلاعات حق کی جیت ہے ۔سپریم کورٹ سے الیکٹرول بانڈ کے ذریعے ملنے والے نامعلوم لا محدود کارپوریٹ فنڈنگ پر روک لگی ہے ۔سپریم کورٹ نے 2019 کے انترم حکم کے بعد سے خریدے گئے الیکٹرول بانڈ کی بھی تفصیل عام کرنے کی ہدایت دی ہے ۔جسٹس چندرچوڑ نے کہا عدالت نے اتفاق رائے سے فیصلہ دیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس پر ایک رائے ان کی تھی اور ایک جسٹس چندرسنجیو کھنہ کی لیکن نتیجہ کو لیکر سبھی کی رضامندی تھی ۔الیکٹرول بانڈ کیخلاف جو عرضیاں دائر کی گئیں تھیں ان میں کہا گیا تھا کہ یہ اطلاعات حق کی خلاف ورزی ہے ۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ کارپوریٹ فنڈنگ آزادانہ اور منصفانہ چناو¿ کیخلاف ہے ۔چناو¿ میں خرچوں اور شفافیت پر نظر رکھنے والی انجمن ایسوسی ایشن فار ڈیمورکریٹک ریفارم یعنی اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق 2022-23 میں کارپوریٹ ڈونیشن کا 90 فیصدی بی جے پی کو ملا ۔2022-23 میں قومی پارٹیوں نے 850.438 کروڑ روپے چندے میں ملنے کا اعلان کیا تھا ۔اس میں صرف بی جے پی کو 719.85 کروڑ روپے ملے تھے اور کانگریس کو 79.92 کروڑ روپے ۔یہ معاملہ سپریم کورٹ میں 8 سال سے زیادہ وقت سے لٹکا ہوا تھا اور اس پر سبھی کی نگاہیں اس لئے بھی ٹکی تھیں چونکہ اس مسئلے کا نتیجہ سال 2024 میں ہونے والے لوک سبھا چناو¿ پر بڑا اثر ڈال سکتا ہے ۔اس معاملے پر سماعت شروع ہونے سے پہلے بھارت کے اٹارنک جنرل آر وینکٹ رمنی نے اس اسکیم کی حمایت کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ یہ اسکیم سیاسی پارٹیوں کو دئیے جانے والے چندوں میں صاف دھن کے استعمال کو بڑھاوا دیتی ہے ۔ساتھ ہی اٹارنک جنرل نے بڑی عدالت کے سامنے دلیل دی تھی کہ شہریوں کے حقوق مناسب پابندیوں کے تحت ہوئے بغیر کچھ بھی اور سب کچھ جاننے کا عام حق نہیں ہو سکتا ۔اس بات کے سلسلے میں اس دلیل سے جڑا ہوا ہے جس کے تحت مانگ کی جارہی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو یہ جانکاری عام کرنی چاہیے کہ انہیں کتنا پیسہ چندے کی شکل میں کس سے ملا ہے ۔الیکشن کمیشن نے 2019 میں چناو¿ بانڈ کو آسان بنانے کیلئے سیاسی فنڈنگ سے جڑے کئی قوانین میں تبدیلیوں پر سپریم کورٹ میں تشویش ظاہر کی تھی۔چناو¿ کمیشن نے کہا تھا کہ شفافیت پر سنگین اثر ہوگا ۔کمیشن نے 27 مارچ 2019 کو حلف نامہ دائر کر بتایا تھا کہ اس مسئلے پر اس نے مرکزی حکومت کو بھی لکھا ہے ۔چناو¿ کمیشن نے یہ بھی کہا تھا کہ غیر ملکی عطیہ (ریگولیشن ) ایکٹ ایف سی آر اے 2010 میں تبدیلی سے سیاسی پارٹیوں کو بے کنٹرول غیر ملکی پیسہ کی اجازت ملے گی جس سے ہندوستانی پالیسیاں غیر ملکی کمپنیوں سے متاثر ہو سکتی ہیں ۔پچھلے چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے کہا کہ فیصلہ جمہوریت کیلئے وردان ہے اس سے لوگوں کا جمہوریت میں بھروسہ بڑھے گا اور اعتماد بحال ہوگا ۔پچھلے پانچ سات برسوں میں سپریم کورٹ کا یہ سب سے تاریخی فیصلہ ہے ۔وہیں سابق چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑا کا کہنا تھا کہ چناو¿ کمیشن نے ہمیشہ شفافیت پر زور دیا ہے ۔چناو¿ کمیشن کا یہ لگاتار رخ رہا ہے کہ سسٹم اور زیادہ شفاف ہونا چاہیے ۔ایسے ہی سابق چیف الیکشن کمشنر ٹی ایس کرشنا مورتی نے کہا کہ فیصلہ صاف ستھری جمہوریت کے مفاد میں ہے ۔چناوی بانڈ اسکیم سیاسی فنڈنگ میں شفافیت کیلئے صحیح نہیں ہے ۔عآپ کیسے جانیں گے یہ صاف پیسہ ہے یا گندا ؟ حکومت بلیک منی روکنے کے دعوے کو سماجیت اور دوہری غیر سماجی کے عدلیہ اصولوں کے ترازوں پر خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ چناو¿ میں ووٹر صحیح فیصلہ لیں اس کے لئے سیاسی پارٹیوں کو ملے چندے کے بارے میں جانکاری ملنا ضروری ہے ۔اس سے گورننس میں کھلا پن آئیگا ۔یہ آنے والے چناو¿ میں بڑا اشو بن سکتا ہے ۔(ختم) (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟