بنا سائنٹفک تعمیرات کے سبب ہو رہے ہیں حادثے!

اتر کاشی میں سرنگ میں پھنسے مزدوروں کو نکالنے کے لئے اتوار کو اوپر سے ڈرلنگ کرنے کے کام پر توجہ دی گئی ۔حکام نے بتایا پہلے دن 19.2 میٹر کا حصہ ڈرل سے توڑا گیا ۔اس سے کوئی اڑچن نہیں آئی تو اس راستے سے بہت جلد باہر نکال لیا جائے گا ۔اتراکھنڈ کے اتر کاشی میں زیر تعمیر سرنگ کیوں ڈھہہ گئی اس کی وجہ ابھی تک صاف نہیں ہو پائی ۔لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا ہمالیائی پہاڑوں کی نزاکت اور مار جھیلنے کی صلاحیت کو نظر انداز کرتے ہوئے کیا جا رہا ہے ۔دور اندیشی اور بغیر سائنٹفک ڈولپمنٹ کاموں کو انجام دیا گیا ۔انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق جغرافیائی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ہمالیائی علاقوں میں ہو رہی تعمیرات سائنسی طریقہ سے و سیکورٹی کے قدم اٹھانے کے بجائے اقتصادی اور سماجی و سیاسی فائدوں کو زیادہ ترجیح دی جا رہی ہے ۔انڈین اکیڈمی آف سائنس کے جرنل کرنٹ سائنس میں جغرافیائی ماہر نریش پنت اور ایچ ایس سونی نے لکھا ہے جغرافیائی حالات کو نظر انداز کرکے غیر موضوع جگہوں پر بے ترتیب طریقہ سے شہر اور رہائشی عمارتوں کو بنایا جا رہا ہے ۔اتر کاشی میں ہوئے حادثہ کئی مہینے پہلے ہی انہوں نے لکھا تھا ہم زمین کی مار جھیلنے کی صلاحیت اور خطروں کے سلسلے میں سول کنسٹرکشن کے تقاضوں کو لاگو کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ بہت ٹورزم مارکیٹ کی طاقت سیکورٹی قواعد پر حاوی ہو گئی ہے ۔یہ سرنگ جس چاردھام ہائی وے پروجیکٹ کے تحت بن رہی تھی اسے سال 2016 میں شروع کیا گیا تھا ۔اس کے تحت چاروں دھام ،یمنوتری ،گنگوتری،اور کیدارناتھ اور بدریناتھ سال بھر سڑک سہولت سے جوڑے رکھنے کا ٹارگیٹ ہے لیکن اسے لاگو کرنے کے طریقے کئی سائنٹفک اور ماحولیاتی گروپ مسلسل تنقید کرتے رہے ہیں ۔سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار کو حکم دیا تھا کہ اس پروجیکٹ کے ماحولیاتی اتار چڑھاو¿ اور دیگر خطروں کو کم کرنے کے لئے ہائی پاور کمیٹی بنائیں ۔مرکزی وزیر ماحولیات کے ذریعے بنائی گئی اس ہائی پاور کمیٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس پروجیکٹ میں غیر سائنٹفک اور بنا اسکیم کے کام کرنے کے سبب ہمالیا کے ایکو سسٹم کو نقصان پہونچایا ہے ۔کمیٹی نے یہ بھی پایا تھا کہ 889 کلو میٹر کے چار دھام کے چوڑا کرنے کی اسکیم کو چھوٹی 53 اسکیموں میں بدل دیا تھا تھا ۔یہ سبھی حصے 100 کلومیٹر سے چھوٹے تھے جس کے سبب انہیں اب ماحولیاتی قواعد سے ہو کر نہیں گزرنا پڑا ۔جولائی 2020 میں پیش رپورٹ میں کمیٹی نے کہا تھا کہ اس پروجیکٹ کے تحت ڈھلان کا معائنہ کئے بغیر درکار قدم اٹھانے کے بغیر کٹان کی گئی جس سے چٹانیں گرنے کا خطرہ برھ گیا ہے ۔آئی آئی ٹی رڑکی اور جرمنی یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک اسٹڈی میں پایا تھا کہ رشی کیش سے بدری ناتھ کے جوشی مٹھ تک تیس کلو میٹر ہائی وے میں ستمبر ،اکتوبر ،2022 میں 309 چٹانیں گری تھیں یعنی تقریباً ہر ایک کلو میٹر پر چٹانیں گریں ۔یہی نہیں کہا جا رہا ہے کہ ہمالیہ سے سڑکیں یا دوسرے پروجیکٹ بننے نہیں چاہیے لیکن وہاں کی جغرافیائی پیچیدگیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے سیکورٹی پر دھیان دینا چاہیے تاکہ خطرہ کم ہو سکے ۔مشکل جگہوں پر اہم اسکیمیں بسائی جا رہی ہیں ۔لیکن مقامی جغرافیائی اور مقامی ماحول کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت کو ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔لاپرواہی کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے ۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!