ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کے الزامات پر چناؤ کمیشن کا جواب

الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ای وی ایم پر تنازعہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ پچھلے مہینے پانچ ریاستوں میں ختم ہوئے اسمبلی چناؤ و مہاراشٹر میں میونسپل چناؤ میں ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کئے جانے کے الزامات لگے۔ ای وی ایم میں گڑ بڑی کے کئی سوال کھڑے کئے گئے ہیں اب ایک بار پھر گڑ بڑی کا جن بوتل سے باہر آگیا ہے۔ تنازعہ کا مرکز مدھیہ پردیش کا منڈاجہاں دو اسمبلی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے ہیں، اس ضمنی چناؤ کیلئے ریہرسل پروگرام میں ووٹر ویریفائڈ پیپر آڈٹ ٹرائل ( وی وی پیٹ) سے صرف کمل کا نشان والی پرچیاں نکل رہی تھیں۔اٹیر ضمنی چناؤ سے پہلے مدھیہ پردیش کی چیف الیکٹرول آفیسر سلینا سنگھ نے پچھلے جمعہ کو ای وی ایم مشین کا جائزہ لیتے وقت ای وی ایم کے دو الگ الگ بٹن دبائے تو وی وی پی اے ٹی سے کمل کے پھول کا پرنٹ باہر آیا۔ حالانکہ چناؤ کمیشن کے ذریعے طلب کئے جانے پر ریاستی الیکشن کمیشن نے اس طرح کی کسی بات سے انکارکیا۔ وہیں ڈیمو کے وقت موجود صحافیوں کے سوال اٹھانے پر چیف الیکٹرول آفیسر نے آپا کھودیا اور انہیں جیل میں بند کرنے تک کی دھمکی دے ڈالی۔ اترپردیش میں بھاجپا کی حیرت انگیز کامیابی پر سب سے زیادہ جارحانہ نظر آئی تھیں مایاوتی ، جنہوں نے ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا تھا۔ ادھر دہلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال بار بار یہی الزام لگا رہے ہیں اور مانگ کررہے ہیں کہ دہلی میونسپل کارپوریشن کے چناؤ میں بیلٹ پیپروں کا استعمال ہو۔ چناؤ کمیشن نے عام آدمی پارٹی کے الزامات کو پھر سے مسترد کردیا اور کہا کہ چناؤمیں خراب کارکردگی کے لئے ای وی ایم میں گڑ بڑی کو ذمہ دار ٹھہرانا بہت غلط حرکت ہے۔ چناؤ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ای وی ایم مشین پوری طرح سے نہ صرف بھروسے مند ہے بلکہ اس میں کسی بی طرح کی چھیڑچھاڑ ممکن نہیں ہے۔ سکیورٹی کے نقطہ نظر سے چناؤ کمیشن ای وی ایم سے پوری طرح مطمئن ہے۔ اس درمیان ہی چناؤ کمیشن نے یہ بھی بتایا کہ اس میں ایم3 ٹائپ ای وی ایم خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ نئی ای وی ایم سے کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ ایم3 ای وی ایم مشینوں کی پائیداری کے لئے ایک سیلف ڈاگنوسٹک سسٹم لگا ہوا ہے۔ یہ مشینیں ایک جاپانی سرٹیفائڈ سسٹم کے ساتھ آئیں گی۔ صرف ایک صحیح ای وی ایم کے علاقہ کی دوسرے ای وی ایم کے ساتھ تال میل کرسکتی ہے۔اس کی تیاری برقی سیکٹر پی ایس یو ای سی آئی ایل یا ڈیفنس سیکٹر کی پی ایس یو وی ای ایل کے ذریعے کنٹرول کیا جانا چاہئے۔ کسی بھی دیگر کمپنی کے ذریعے بنائی گئی ای وی ایم و دیگر مشینوں سے کنورسیشن نہیں کر پائے گی۔ اس طرح غلط مشینوں کا پردہ فاش ہوجائے گا۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ لوک سبھا 2019ء کے چناؤ سے پہلے یہ نئی جدید ترین مشینیں آجائیں گی۔ لیکن کیا چناؤ کمیشن کے اس بیان کا یہ مطلب نکالا جائے کہ حال ہی میں جو ای وی ایم مشینیں استعمال ہورہی ان میں گڑ بڑی ہوسکتی ہے؟ چھیڑ چھاڑ ممکن ہے؟ جب چناؤ کمیشن یہ دعوی کرتا ہے کہ نئی مشینوں میں اگر چھیڑ چھاڑ ہوئی تو وہ خود بخود کام کرنا بند کردیں گی تو اس کا مطلب ہے کہ موجودہ مشینوں میں یہ چھیڑچھاڑ ممکن ہے؟ کسی بھی جمہوری سسٹم میں منصفانہ ،آزادانہ چناؤ سسٹم انتہائی ضروری ہے۔ یہ ڈیموکریسی کی بنیاد ہے جس پر عمارت ٹکی ہوئی ہے۔ اس کو صحیح سے کرنے کے لئے ہی ایک آزاداور منصفانہ چناؤ کمیشن کی تشکیل کی گئی ہے جو کسی بھی طرح کے دباؤ میں کام نہیں کرتا۔ انڈین چناؤ کمیشن کا صرف یہی کام ہے اگر موجودہ ای وی ایم مشینوں میں کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ ممکن ہے تو چناؤ کمیشن کو یہ تسلیم کرنا چاہئے۔ اسے اس پر لگے الزامات کو یہ ثابت کرنے کا موقعہ دینا چاہئے کہ وہ چھیڑ چھاڑ کے اپنے اوپر لگے الزامات کو ثابت کریں۔ چناؤ کمیشن کو ہماری رائے میں سیاسی بیانوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اسے یہ نہیں کہنا چاہئے کہ فلاں پارٹی کو اپنی ہار کے سبب اپنے ہار کے اسباب کا تجزیہ کرنا چاہئے نہ کہ ای وی ایم مشینوں پر چھیڑ چھاڑ کے الزام لگائے جائیں۔ معاملہ سپریم کورٹ میں جا چکا ہے، چناؤ کمیشن کو بڑی عدالت (سپریم کورٹ)کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ موجودہ ای وی ایم مشینوں میں چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!