چین کے تئیں بھارت کواپنی پالیسی بدلنی ہوگی
Published On 7th December 2011
انل نریندر
ہندوستان اور چین کے درمیان رشتے ہمیشہ سرد گرم ہوتے رہے ہیں۔ ہندوستان سے ہی چین میں بودھ دھرم کی تبلیغ اور فروغ ہوا تھا۔1949ء میں چین کی کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی اور دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کا قیام عمل میں آیا۔ بھارت نے شروع سے ہی چین کے تئیں دوستی اور بھاری چارگی کا اظہار کیا ہے۔ بھارت ایک ایسا پہلا غیر کمیونسٹ ملک تھا جس نے چین کی کمیونسٹ سرکار کو تسلیم کیا تھا اور اقوام متحدہ نے بھی چین کو منظوری دلانے کی کوشش کی تھی۔1954 میں چین اور بھارت کے درمیان ایک آٹھ سالہ معاہدہ ہوا جس کے تحت بھارت نے تبت سے اپنے فاضل ملکی اختیارات کو چین کو سونپ دیا۔ اس کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیان پنچ شیل اصولوں کی تعمیل کی گئی۔ 1957ء میں دونوں ملکوں کے درمیان تبت کو لیکر رشتے خراب ہونا شروع ہوگئے۔ 31 مارچ 1959ء کوتبت میں چینی دمن کی وجہ سے وہاں کے دھرم گورو دلائی لامہ نے بھارت میں سیاسی پناہ لی۔ اس کی کشیدگی 1962ء میں ہند۔ چین جنگ کی شکل میں ہوئی۔آج بھی دلائی لامہ اور ان کے ماننے والوں کو لیکر بھارت چین میں کشیدگی بنی ہوئی ہے۔ دلائی لامہ کو لیکر چین اب کچھ زیادہ ہی جارحانہ رخ اپنائے ہوئے ہے۔ پچھلے دنوں کولکتہ میں ایک پروگرام ہوا تھا جہاں دلائی لامہ کو آنا تھا۔ اس پروگرام میں گورنر ایم کے نارائنن اور وزیر اعلی ممتا بنرجی کو بھی شرکت کرنی تھی۔ چین نے مغربی بنگال سرکار کو باقاعدہ ایک خط لکھا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ گورنر اور وزیر اعلی اس پروگرام میں نہ جائیں۔ یہ مانگ نہیں مانی۔ گورنر اس پروگرام میں شامل ہوئے اور وزیر اعلی اپنی ماں کی بیماری کی وجہ سے اس میں شامل نہیں ہو پائیں لیکن ان کے نمائندے کے طور پر ایم پی ڈیریک اوبراؤن شامل تھے۔ ہندوستان نے اس بات کی مخالفت درج کرانے کا فیصلہ کیا ہے کہ چین نے مغربی بنگال سرکار کو آخر ایسا خط کیوں لکھا؟ کچھ ہی دن پہلے چین نے نئی دہلی میں بودھ دانشوروں کی کانفرنس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا، جسے دلائی لامہ کو خطاب کرنا تھا۔ جب چین کی ضد نہیں مانی گئی تو اس نے سرحدی تنازعے پر مجوزہ بیٹھک میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ چین بھارت کے اندرونی معاملوں میں دخل اندازی سے باز نہیں آتا۔ اس نے زیادہ ہی جارحانہ رخ اپنا لیا ہے۔ مثلاً دیش کی ایک ریاستی حکومت کے سربراہوں کو کیا کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے یہ سیدھے طور پر کسی غیر ملکی حکومت کو نہیں بتانا چاہئے۔ چین دراصل اپنے آپ کو امریکہ کی طرح ایک بڑی طاقت ماننے لگا ہے اور اپنی ہر ضد کو منوانا چاہتا ہے۔ حکومت ہند بھی کچھ حد تک چین کے سامنے گھٹنے ٹیکتی نظر آرہی ہے تبھی تو حال میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھارت سرکار سے کہا کہ وہ اپنی چینی پالیسی کو واضح کرے۔ ممبئی میں ایک ریلی میں خطاب کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ بھارت کو تھوڑا اور عزم کے ساتھ چین سے پیش آنا چاہئے کیونکہ یہ دیش کو متنازعہ حصہ کہتا ہے اور کئی حصوں پر بھارت کی سرداری پر سوال بھی کھڑے کرتا ہے۔ عمر سنیچر کو ممبئی میں ایک پریس کانفرنس میں بول رہے تھے۔ کچھ ہی گھنٹے پہلے عمر عبداللہ کے والد فاروق عبداللہ نے نئی دہلی میں کہا تھا کہ بھارت کو یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ وہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو نہ تو پاکستان سے اور نہ ہی کشمیر سے واپس لے سکتا ہے۔ بیٹے عمر نے کہا کہ اگر سچ مچ آپ کو یقین ہے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے تو کارگل جنگ کے دوران کنٹرول لائن کو کیوں نہیں پارکیا؟ اگر آپ جنگ کے وقت بھی کنٹرول لائن کا احترام کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ آپ نے اس علاقے کو واپس پانے کی امید چھوڑ دی ہے۔ عمر نے نئی دہلی سے گذارش کی کہ چین اور پاکستان کے ساتھ اپنے رشتوں میں ہمیشہ معذرت گذار ہونے کا رویہ چھوڑدیں۔ انہوں نے کہا میری دہلی خواہش ہے کہ چین کے ساتھ پیش آتے وقت بھارت کو تھوڑا اور سختی دکھانی چاہئے۔ ایسا لگتا ہے کشمیر کو متنازعہ حصہ قراردینے میں چین کو ذرا بھی جھجک نہیں ہے جبکہ ہم سے ایک چین کی پالیسی کو تعمیل کرنے اور تبت و تائیوان کی طرز پر سوال نہ کھڑے کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم متحد چین کی پالیسی کی تعمیل کریں جبکہ چین متحد بھارت کی پالیسی کی تعمیل نہیں کررہا ہے۔ چین اور پاکستان دونوں کے ہی ساتھ اپنے رشتوں میں ہم عرصے سے فراخ دلی اپنا رہے ہیں جبکہ واقعی اس کی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ چین کے ساتھ تھوڑا سخت ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ ہماری سرداری کو لیکر چین پر سوال کھڑا کرتاہے تو ہمیں بھی کئی حصوں میں اس کی سرداری (جن میں تبت بھی شامل ہے) پر سوال کھڑے کرنے کا حق ہے۔Aksai Chin, Anil Narendra, China, Daily Pratap, Dalai Lama, India, Mamta Banerjee, Vir Arjun, West Bengal
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں