روس میں ولادیمیر پوتن کی مقبولیت کا گرتا گراف
Published On 9th December 2011
انل نریندر
مخائل گورباچیف کی اصلاحاتی پالیسیوں وا قتصادی اصلاحات کے سبب اور برسوں سے دبی سیاسی مخالفت کی چنگاری کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک سوویت روس کا بٹوارہ ہوگیا اور بڑی سوویت ایمپائر 15 آزاد ضمنی ریاستوں میں بٹ گئی۔ ان حالات میں 31 دسمبر1999ء کو اچانک صدر بورس یلتسن نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس سے ولادیمیر پوتن دیش کے نگراں صدر بن گئے۔ فروری2000ء میں طویل لڑائی کے بعد روسی لیڈروں نے چیچن باغیوں کو شکست دیتے ہوئے راجدھانی گروزنی پر اپنا حق جمالیا۔ پوتن کے اس قدم سے ان کی مقبولیت میں بھاری اضافہ ہوا۔ 26 مارچ2000ء کو پوتن نے صدارتی چناؤ جیت لیا۔ اس کے بعد انہوں نے اقتدار کی لامرکزیت بحال کرنا شروع کردی۔ صوبائی گورنروں اور کاروباری گھرانوں کی بڑھتی طاقت پر روک لگائی۔ اگرچہ اقتصادی نکتہ نظر سے روس نے پوتن کے عہد میں کوئی خاص ترقی تو نہیں کی لیکن ولادیمیر پوتن نے سوویت کے خاتمے کے بعد روس کو پہلی بار سیاسی پائیداری کا ماحول ضرور فراہم کیا۔ اسی وجہ سے پوتن مارچ2004ء میں پھر روس کے صدر بنے۔ گذشتہ ہفتے روس میں پارلیمانی چناؤ ہوئے۔ اس میں بھی وزیراعظم ولادیمیر پوتن کی یونائیٹڈ رشیا پارٹی کو زبردست جھٹکا لگا۔ پارلیمنٹ کے نچلے ایوان ڈوما میں تازہ اعدادو شمار کے مطابق اسے 50فیصد ووٹ بھی نہیں ملے ہیں البتہ 450 ممبری ہاؤس میں اسے238 سیٹوں کی معمولی اکثریت ضرور حاصل ہوگئی ہے مگر پہلے کی طرح اتنی اکثریت نہیں کہ جس کی طاقت پر وہ اپنی خواہش سے کوئی آئین میں ترمیم کرا سکے۔ چار سال پہلے64 فیصد ووٹ اور 315 سیٹوں سے اگر موازنہ کریں تو صاف ہے کہ پوتن اور ان کی پارٹی کی مقبولیت کافی گھٹی ہے۔ دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی کا ووٹ فیصد 11 سے بڑھ کر 20 کے آس پاس پہنچ گیا ہے اس پر بھی یہ دلیل کے مخالف پارٹیوں اور یوروپی چناؤ مشاہدین نے چناؤ میں دھاندلی کا الزام لگایا ہے۔ ڈوما چناؤ میں دھاندلیوں کا الزام لگاتے ہوئے پیر کو روس کی راجدھانی ماسکو میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین دیش میں پچھلے12 برسوں سے چلے آرہے پوتن کی ایک واحد عہد کی مخالفت کررہے تھے۔ مظاہرین نے پوتن بغیر روس اور انقلاب جیسے نعروں سے ماسکو کی پرانی سبیلوں کو گنجاکر رکھ دیا ہے۔ ڈوما چناؤ میں روس کی دوسری سب سے بڑی اور اپوزیشن پارٹی بن کر ابھری روسی کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری جنرل گیترادی کگنوف نے پیر کو اخباری نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ ان کی پارٹی چناؤ میں بڑے پیمانے پر ہوئی دھاندلیوں کو لیکر فکر مند ہے سبھی اعدادو شمارکی جانچ کررہی ہے۔بدقسمتی سے امریکہ کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی چناؤ کے منصفانہ ہونے پر سوال اٹھا دئے ہیں۔ جسے روس کے سب سے بڑے طاقتور لیڈر ولادیمیر پوتن شاید ہی برداشت کریں۔ان چناؤ نتیجوں کا اثر اگلے سال مارچ میں ہونے والے صدارتی چناؤ پر بھی پڑ سکتا ہے جس میں پوتن کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ پوتن دو بار سے زیادہ صدر نہیں رہ سکتے اس لئے انہوں نے2008ء میں دمیتر میدوف کو صدر بنوادیا اور خود ان کے وزیر اعظم بن گئے۔ تب تھی دنیا جانتی تھی کہ اصلی طاقت تو پوتن کے ہی پاس ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے پوتن امریکہ کی لائن پر نہیں چل رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے اسی وجہ سے امریکہ انہیں پسند نہیں کررہا۔ حالانکہ پوتن کا وہ کرشمہ تو نہیں رہا جو پہلے کبھی تھا لیکن آج بھی وہ اکیلے نیتا نظرآتے ہیں جو روس کے وقار کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ روس کو امریکہ کو جواب دینے کے لئے پوتن جیسا نیتا چاہئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس پارلیمانی چناؤ کے نتیجوں سے لیکر اگلے صدارتی چناؤ تک ولادیمیر پوتن کیسے اپنی گرتی مقبولیت کو بچا پاتے ہیں اور پھر صدر بنتے ہیں؟ روس کے مفاد میں تو ہے کہ روس ایک مضبوط ملک بن کر پھر دنیا میں اپنی جگہ بنائے لیکن بھارت اور غیر مغربی ممالک کے لئے بھی ایک مضبوط روس فائدے مند ہوگا۔ ایسا کرنے کے لئے فی الحال پوتن سے بہتر کوئی اور روسی نیتا نہیں دکھائی دے رہا۔ پوتن کو اپنی غلطیوں پر غور کرنا چاہئے اور انہیں سدھارنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Russia, Valadimir Putin, Vir Arjun,
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں