راکشسوں کو مارنے کیلئے لکشمن ریکھا پار کرنی پڑتی ہے
ایسا لگ رہا ہے کہ ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالہ منموہن سنگھ سرکار پر بھاری پڑ رہا ہے۔ جی ہاں ایک طرف سرکار کے اندر سینئر وزرا کی کھینچ تان بڑھتی جارہی ہے وہیں سرکار اور سی بی آئی میں اختلافات ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔ مرکزی سرکار میں نمبر دو کی حیثیت رکھنے والے پرنب مکرجی جو اس وقت وزیر مالیات ہیں، کے پرانے وزیر مالیات پی چدمبرم جو کہ اس وقت وزیر داخلہ ہیں کے درمیان سرد جنگ اب منظر عام پر آچکی ہے۔ ایک سینئر کانگریسی لیڈر کے اس گھمسان سے پارٹی اور سرکار میں جس طرح سے عجب صورتحال بنی ہوئی ہے وہ کانگریس پارٹی اور منموہن سرکار کے لئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ پارٹی اس مرتبہ معاملے کو پہلے سے کہیں زیادہ حساس مان رہی ہے کیونکہ ٹو جی معاملہ سرکار کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے اگر سپریم کورٹ وزارت مالیات کے خط پر اپنی طرف سے کوئی فیصلہ لیتی ہے تو حالت سرکار کے لئے انتہائی سنگین بن سکتی ہے۔ کانگریس کے ایک جنرل سکریٹری کے مطابق اس مرتبہ سرکار میں نمبر دو کے وزیر کے محکمے کی جانب سے متنازعہ جو ثبوت سامنے آئے ہیں لہٰذا یہ معاملہ آسانی سے نمٹایا نہیں جاسکے گا۔ پارٹی کا خیال ہے کہ پرنب اور پی چدمبرم کی آپسی کھینچ تان سے سرکار کی پہلے ہی سے خراب ہوچکی ساکھ مزید خراب ہورہی ہے۔
ادھر ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کی جانچ پر سپریم کورٹ کی نگرانی کو لیکر عدالت مرکزی حکومت اور سی بی آئی میں اختلافات بھی سامنے آگئے ہیں۔ مرکز نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں جانچ پر نگرانی رکھنے کی مخالفت کی تھی وہیں سی بی آئی نے دلیل دی تھی کہ نگرانی جاری رہنی چاہئے۔ مرکزی حکومت نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ (سپریم کورٹ) ٹو جی گھوٹالے کے معاملے میں وزیر داخلہ پر سماعت نہیں کرسکتی۔ اس نے عدالت سے کہا کہ وہ اس معاملے میں آرڈر پاس کر’’ لکشمن ریکھا ‘‘ پار نہ کرے۔ یہ سرکار کی جانب سے سپریم کورٹ کے اختیارات کو چنوتی دینا تھا لیکن سپریم کورٹ نے دو ٹوک کہا کہ آپ لکشمن ریکھا کی بات کررہے ہیں ،اگر سیتا نے لکشمن ریکھا پار نہیں کی ہوتی تو راون مارا نہیں جاتا۔ لکشمن ریکھا راکشسوں کو مارنے کے لئے ہی پار کی جاتی ہے۔ ایسا لوگ کہتے ہیں۔ جسٹس جی ایس سنگھوی اور جسٹس اے کے گانگولی کی بنچ نے یہ ہی نہیں کہا بلکہ سرکار اور سی بی آئی کے معاملے میں ہو رہی جانچ میں ٹال مٹول کرنے پر بھی اس کو جھاڑ پلائی۔ اس کے بعد سی بی آئی کے وکیل نے کہا کہ عدالت جانچ کا آدیش دیتی ہے تو وہ اس کی تعمیل کرے گی۔ اس نے یہاں تک یقین دہانی کرائی کہ وہ سبرامنیم سوامی کے کردار کے بارے میں عدالت میں پیش دستاویزوں کی بھی جانچ کرنے کو تیار ہے۔ دراصل عدالت میں درپردہ طور پر اشارہ دیا کہ اعلی عہدوں پر بیٹھے ملزمان کو سزا دلانے کے لئے وہ پرانے فیصلوں کو نظرانداز کر جانچ جاری رکھ سکتی ہے۔اس سے پہلے جسٹس جی ایس سنگھوی اور جسٹس اے کے گانگولی کی بنچ کے سامنے مرکز کے سامنے پیش ہوئے سینئر وکیل پی پی راؤ نے بڑی عدالت کی بنچ کے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیکر نگرانی کی مقرر لکشمن ریکھا ہونے کی دلیل دی تھی۔ بنچ نے راؤ سے یہ بھی پوچھ لیا کہ آخر کیوں عدالت کی جانب سے جانچ کی نگرانی کا چلن شروع ہوا؟ ونت نارائن معاملے تک ہم نے یہ نہیں سنا تھا کہ یہ چلن اس لئے شروع ہوا کیونکہ کے بدنیتی کا دائرہ بڑا ہوتا گیا اور روایتی طریقے کمزور پڑ گئے۔ جہاں ایک طرف تو سرکار اس گھوٹالے میں عدالت کی نگرانی جاری رکھنے پر اعتراض کررہی ہے، وہیں دوسری طرف سی بی آئی کی جانب سے دیش کے سینئر وکیل کے کے وینوگوپال نے کہا کہ جانچ عدالت کی نگرانی میں ہی جاری رہنی چاہئے۔ اس پر بنچ نے مرکز سے پوچھا کہ سالیسٹر جنرل نے پہلے عدالت کی جانب سے نگرانی پر اتفا ق رائے ظاہر کی تھی۔ اب اگر سرکار اپنا بیان واپس لے رہی ہے تو بتائے؟ جواب میں راؤ نے کہا کہ وہ سالیسٹر جنرل کے بیان کو واپس نہیں لے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ہوئی کارروائی سے جہاں سپریم کورٹ اور مرکزی سرکار کے درمیان اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں وہاں حکومت اور سی بی آئی کے اختلافات بھی سامنے آگئے ہیں۔
وزیر مالیات پرنب مکرجی اور وزیر داخلہ پی چدمبرم کے درمیان جنگ اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔ ٹوجی اسپیکٹرم معاملے میں سی بی آئی کے ذریعے چارج شیٹ دائر کرنے کے ایک ہفتے پہلے ہی وزارت مالیات کے اس خط کا باہر آنا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس وقت کے وزیر مالیات پی چدمبرم ٹوجی اسپیکٹرم کی قیمت کو لیکر اے راجہ سے متفق تھے، آنے والے واقعات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اور یہ بھی کہ وزیر مالیات پرنب مکرجی کے دفتر میں جاسوسی کے معاملے کے بعد کس طرح سے پرنب اور چدمبرم کے درمیان یہ تلخ جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔ سبھی کی نظریں اب وزیر اعظم منموہن سنگھ کے امریکہ سے لوٹنے پر لگی ہوئی ہیں۔ دیکھیں وزیر اعظم اور کانگریس صدر سونیا گاندھی اس نئے جھنجھٹ سے کیسے نمٹتے ہیں؟
ادھر ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالے کی جانچ پر سپریم کورٹ کی نگرانی کو لیکر عدالت مرکزی حکومت اور سی بی آئی میں اختلافات بھی سامنے آگئے ہیں۔ مرکز نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں جانچ پر نگرانی رکھنے کی مخالفت کی تھی وہیں سی بی آئی نے دلیل دی تھی کہ نگرانی جاری رہنی چاہئے۔ مرکزی حکومت نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ (سپریم کورٹ) ٹو جی گھوٹالے کے معاملے میں وزیر داخلہ پر سماعت نہیں کرسکتی۔ اس نے عدالت سے کہا کہ وہ اس معاملے میں آرڈر پاس کر’’ لکشمن ریکھا ‘‘ پار نہ کرے۔ یہ سرکار کی جانب سے سپریم کورٹ کے اختیارات کو چنوتی دینا تھا لیکن سپریم کورٹ نے دو ٹوک کہا کہ آپ لکشمن ریکھا کی بات کررہے ہیں ،اگر سیتا نے لکشمن ریکھا پار نہیں کی ہوتی تو راون مارا نہیں جاتا۔ لکشمن ریکھا راکشسوں کو مارنے کے لئے ہی پار کی جاتی ہے۔ ایسا لوگ کہتے ہیں۔ جسٹس جی ایس سنگھوی اور جسٹس اے کے گانگولی کی بنچ نے یہ ہی نہیں کہا بلکہ سرکار اور سی بی آئی کے معاملے میں ہو رہی جانچ میں ٹال مٹول کرنے پر بھی اس کو جھاڑ پلائی۔ اس کے بعد سی بی آئی کے وکیل نے کہا کہ عدالت جانچ کا آدیش دیتی ہے تو وہ اس کی تعمیل کرے گی۔ اس نے یہاں تک یقین دہانی کرائی کہ وہ سبرامنیم سوامی کے کردار کے بارے میں عدالت میں پیش دستاویزوں کی بھی جانچ کرنے کو تیار ہے۔ دراصل عدالت میں درپردہ طور پر اشارہ دیا کہ اعلی عہدوں پر بیٹھے ملزمان کو سزا دلانے کے لئے وہ پرانے فیصلوں کو نظرانداز کر جانچ جاری رکھ سکتی ہے۔اس سے پہلے جسٹس جی ایس سنگھوی اور جسٹس اے کے گانگولی کی بنچ کے سامنے مرکز کے سامنے پیش ہوئے سینئر وکیل پی پی راؤ نے بڑی عدالت کی بنچ کے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیکر نگرانی کی مقرر لکشمن ریکھا ہونے کی دلیل دی تھی۔ بنچ نے راؤ سے یہ بھی پوچھ لیا کہ آخر کیوں عدالت کی جانب سے جانچ کی نگرانی کا چلن شروع ہوا؟ ونت نارائن معاملے تک ہم نے یہ نہیں سنا تھا کہ یہ چلن اس لئے شروع ہوا کیونکہ کے بدنیتی کا دائرہ بڑا ہوتا گیا اور روایتی طریقے کمزور پڑ گئے۔ جہاں ایک طرف تو سرکار اس گھوٹالے میں عدالت کی نگرانی جاری رکھنے پر اعتراض کررہی ہے، وہیں دوسری طرف سی بی آئی کی جانب سے دیش کے سینئر وکیل کے کے وینوگوپال نے کہا کہ جانچ عدالت کی نگرانی میں ہی جاری رہنی چاہئے۔ اس پر بنچ نے مرکز سے پوچھا کہ سالیسٹر جنرل نے پہلے عدالت کی جانب سے نگرانی پر اتفا ق رائے ظاہر کی تھی۔ اب اگر سرکار اپنا بیان واپس لے رہی ہے تو بتائے؟ جواب میں راؤ نے کہا کہ وہ سالیسٹر جنرل کے بیان کو واپس نہیں لے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ہوئی کارروائی سے جہاں سپریم کورٹ اور مرکزی سرکار کے درمیان اختلافات ابھر کر سامنے آئے ہیں وہاں حکومت اور سی بی آئی کے اختلافات بھی سامنے آگئے ہیں۔
وزیر مالیات پرنب مکرجی اور وزیر داخلہ پی چدمبرم کے درمیان جنگ اب کھل کر سامنے آچکی ہے۔ ٹوجی اسپیکٹرم معاملے میں سی بی آئی کے ذریعے چارج شیٹ دائر کرنے کے ایک ہفتے پہلے ہی وزارت مالیات کے اس خط کا باہر آنا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس وقت کے وزیر مالیات پی چدمبرم ٹوجی اسپیکٹرم کی قیمت کو لیکر اے راجہ سے متفق تھے، آنے والے واقعات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اور یہ بھی کہ وزیر مالیات پرنب مکرجی کے دفتر میں جاسوسی کے معاملے کے بعد کس طرح سے پرنب اور چدمبرم کے درمیان یہ تلخ جنگ چھڑی ہوئی ہے ۔ سبھی کی نظریں اب وزیر اعظم منموہن سنگھ کے امریکہ سے لوٹنے پر لگی ہوئی ہیں۔ دیکھیں وزیر اعظم اور کانگریس صدر سونیا گاندھی اس نئے جھنجھٹ سے کیسے نمٹتے ہیں؟
2G, Anil Narendra, CBI, Corruption, Daily Pratap,
Supreme Court, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں