بصداحترام صاحبان کو رشوت خوری کا مخصوص اختیار نہیں!

سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں رشوت لے کر ووٹ یا بھاشن دینے والے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کو مجرمانہ مقدموں میں ملنے والی چھوٹ ختم کر دی ہے ۔عدالت نے کہا کہ رشوت کے معاملوں میں ممبران پارلیمنٹ کو پارلیمانی مخصوص اختیارات کے تحت سرپرستی حاصل نہیں ہے ۔کرپشن یا رشوت خوری سے ہندوستانی پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد کمزور ہوتی ہے ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی رہنمائی والی سات نفری بنچ نے سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راو¿ بنام سی بی آئی معاملے میں 1998 میں پاس سپریم کورٹ کے پانچ جج کی اکثریت سے پاس فیصلے کو پلٹ دیا تھا ۔اس فیصلے میں ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کو رشوت لے کر ایوان میں ووٹ کرنے پر مجرمانہ مقدمہ سے چھوٹ تھی ۔سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ نے 1998 میں دئیے گئے فیصلے کو پلٹتے ہوئے کہا کہ پانچ نفری آئینی بنچ کیا وہ فیصلہ آرٹیکل 105 اور 194 کا متضاد ہے ۔اور ان آرٹیکلس کے سہارے ایم پی اور ایم ایل اے ایوان میں کہیں کسی بات یا ووٹ کیلئے کورٹ میں جواب دہ نہیں بنائے جا سکتے ہیں لیکن اس سے انہیں رشوت خوری کی چھوٹ نہیں مل جاتی ۔135 صفحہ کا تازہ فیصلہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ ممبر اسمبلی سیتا سورین کی عرضی پر آیا ہے ۔ان پر 2012 میں راجیہ سبھا میں ووٹنگ کیلئے ایک آزاد ایم پی سے پیسے لینے کا الزام جب انہوں نے اس ایم پی کو ووٹ نہیں دیا تو سی بی آئی نے کیس درج کیا ۔سیتا نے آرٹیکل 194 (2) کا ذکرکیا ہے اور کیس منسوخ کرنے کیلئے جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی لیکن راحت نہیں ملی تو وہ سپریم کورٹ گئیں پہلے کیس 3 اور پھر 5 اور بعد میں کورٹ کی بنچ کے پاس آیا آئینی بنچ نے کیس فار ووٹ جسے جے ایم ایم رشوت کانڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اس پر 1998 میں دئیے گئے اپنے فیصلے کو بے وژن دلیلوں سے پلٹ دیا ہے ۔اس فیصلے کے پش منظر میں دیکھیں تو وہ پرانہ فیصلہ مخصوص اختیارات کا مزاق اور کھوکھلے پن کی کھلی تصویر لگتا ہے ۔معاملہ یہ تھا کہ 1993 میں پی وی نرسمہا راو¿ کی اقلیتی سرکار کو بچانے کیلئے جے ایم ایم کے صدر و ایم پی سمیت 6 ممبران پارلیمنٹ نے رشوت لے کر ووٹ دیا تھا ۔تب سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اس کے لئے ان پر مخصوص اختیارکے تحت مجرمانہ مقدمہ نہیں چلے گا ۔جبکہ رشوت لے کر بھی ووٹ نہ دینے والوں پر مجرمانہ مقدمہ چلے گا ۔یہ تو جمہوری مندر میں کھلے عام رشوت خوری کو جائز قرار دینا ہوا ۔بڑی عدالت کے فیصلے کا ایک پیغام یہ بھی ہے پبلک کے نمائندے ایوان کو بھی باہر جو بولتے ہیں یا جو کچھ کہتے ہیں اسے لیکر وہ زیادہ ذمہ دار ہوں اور ان کا برتاو¿ ایسا ہو جو سپرم اخلاقیات کی مثال کو بڑھاوا دینے والا ہو ۔جمہوریت میں آلودگی تبھی رکے گی جب جنتا کے نمائندے اس سمت میں آگے آئیں ۔چیف جسٹس کا یہ کہنا مناسب ہے کہ آئین سازیہ کے ممبران کا کرپشن اور رشوت خوری پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد کو کھوکھلا کرتی ہے ۔یہ ایسی سیاست تعمیر کرتی ہے جو شہریوں کو ذمہ دار ، جواب دہ اور نمائندہ جمہوریت سے محروم کرتی ہے ۔سوال پارلیمانی جمہوریت میں ایک ایم پی یا ممبر اسمبلی کا بھروسہ بھی ہے ۔ایک پبلک کے نمائندے کے طور پر ان کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے میں ان سے ایمانداری کی امید کی جاتی ہے اس سلسلے میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کا یہ ریمارکس ایک سچی کہانی کی طرح ہے کہ آئین سازیا کے ممبروں کے ذریعے کرپشن پبلک طور پر اس کی پاکیزگی کو تباہ کر دیتی ہے لیکن سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے سیاست داں اس سے کوئی سبق لیں گے اور ایک صحتمندر اور شفاف نظام بنانے کی سمت میں آگے بڑھیں گے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!