گیانواپی میں مسجد سے پہلے مندر تھا!

گیانواپی صحن کی ہندوستانی آثار قدیمہ کی سروے رپورٹ کے مطابق گیانواپی بڑا ہندو مندر تھا سروے کے دوران 32 جگہ مندر سے متعلق ثبوت ملے ہیں ۔فریقین کو جو سروے رپورٹ دی گئی ہے وہ 839 صفحہ کی ہے ۔مغربی دیوار ہندو مندرکا حصہ ہے اسے آسانی سے پہچانا جا سکتا ہے ۔جو ستون ملے ہیں وہ بھی مندر کے ہیں ان کو دوبارہ سے استعمال کیا گیا ہے ۔مقدمہ میں فریقین نے سروے رپورٹ جمعرات کو پبلک کر دی اس کے مطابق دیونا گری ،گرنتھ تیلگو اور کنڑھ زبان میں نقاشی بھی ملی ہے ۔جناردن رودر تھمب وشیشور کی فنکاری بھی ہے ۔ایک جگہ ماں مکتی منڈپ لکھا ہوا ہے جسے اہم ثبوت مانا گیا ہے ۔ہندو فریق کے وکیل ای ویشنو شنکر جین نے بتایا کہ اے ایس آئی نے مانا ہے کہ مندر سترہویں صدی میں توڑا گیا تھا اور اس کی پوزیشن دوستمبر 1669 کی ہو سکتی ہے ۔ہندو فریق کے وکیل کے مطابق وشنو شنکر جین کے مطابق اے ایس آئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 13 ہویں صدی میں اورنگ زیب نے وشوناتھ مندر کے ڈھانچہ کو تباہ کر مسجد بنوائی تھی ۔اس کے کچھ حصہ میں تبدیلی کر پھر استعمال کیا گیا ۔رپورٹ کے مطابق ثمیر البغیری میں تذکرہ ہے کہ دو ستمبر 1669 کو سمراٹ کے حکم پر اورنگ زیب کے حکام نے وشوناتھ مندر کو ڈھا دیا تھا ۔گیانواپی مسجد میں تعمیر اورنگ زیب کے عہد کے 20 ویں برس یعنی 1676-77 میں کرائی گئی ۔برآمدہ و دیگر حصہ کی اہم تعمیر 1792-93 میں کی گئی ۔گیانواپی میں تہہ خانہ بناتے وقت مندر کے ستون کا ہی استعمال کیا گیا تھا ۔دیوی دیوتاو¿ں کی مورتیوں و نقاشی ،فنکاری ،گیانواپی کے ایس 2- تہہ خانے میں پھینکی گئی ۔مٹی کے اندر دبے پائے گئے ۔گیانواپی میں 34 نقاشیاں ملی ہیں جو پہلے موجود ہندو مندر کے پتھر کی ہیں ۔اندر کی طرف پرندوں ۔چرندوں کی نقاشی والا چھوٹا داخلہ دروازہ ہے ۔باہر کی طرف سجاوٹ کیلئے نقاشی کئے گئے جانوروں سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی دیوار ہندو مندر کا باقی حصہ ہے ۔آرٹ اور نقاشی کی بنیاد پر اس سابقہ اسٹرکچر کو ہندو مندر کی شکل میں پہچانا جا سکتا ہے ۔ہندو مہیلا و کیل نے کہا کہ ہندو فریق کا دعویٰ سچ ثابت ہوا ہے ۔وویشور مندر توڑ کر اسے مسجد کی شکل دی گئی ۔وکیل جین کا دعویٰ ہے کہ موجودہ نقاشی کے باقیات دیواروں پر سجائے گئے سانچہ مرکزی حال میں کرن رتھ و پرتی رتھ ملے ہیں ۔مغربی زون کی مشرقی دیوار پر بڑا سجایا داخلہ دروازہ ہے ۔گیانواپی صحن کی دیواروں اور باقیات پر ہندو دھرم سے جڑے کئی لفظ اور کئی جملے کھدے ہوئے ہیں ۔ماضی میں یہاں مندر ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ماربل و بلوا پتھر کے کئی شبلنگ اور ندی اشارہ دے رہے ہیں کہ یہاں ماضی میں ودھی ودھان سے پوجا پاٹھ ہوتا رہا ہوگا ۔اس میں ایک ماربل کا ٹکڑا 2.5 سینٹی میٹر کا تھا جو شبلنگ کی صحیح پوزیشن میں ملا ہے ۔اسی طرح 2.5 سینٹی میٹر لمبے ، 5.5 سینٹی میٹر اونچے و 4 سینٹی میٹر چوڑا نندی بھی ٹھیک حالت میں ہے ۔اے ایس آئی نے سروے رپورٹ میں باقاعدہ اس کا تذکرہ کیا ہے ۔اے ایس آئی کی رپورٹ میں صاف کیا گیا ہے کہ پلر اور ستون پر کھدی نقاشی (ہندو قدیم دور) کی کئی فنکاریوں کو نہ صرف کاٹا گیا بلکہ اس میں پھول ،پتیوں کی سیویج بنا کر اسے گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔رپورٹ میں سواستک کو لیکر بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا کے سب سے قدیم علامتوں میں سے ایک ماناجاتا ہے ۔یہاں سے ایک پرتیک کو ہندو متر تھروتھ مانتے ہیں ۔ثبوت ہی بھگوان شیو کا ترشول ہے ۔یہ دیویہ کا علامت کا استعمال ہندوو¿ں کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟