نئی دہلی پارلیمنٹ کی پوترتا بھنگ کر دی !

دیش کی سڑکیں جب گونگی یا سنسان ہو جاتی ہیں تو اس دیش کی پارلیمنٹ آوارہ اور بے اثر ہو جاتی ہیں ۔ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے سڑک اور پارلیمنٹ کے مسلسل رشتوں پر یہ بات اس دور میں کہی تھی جب دیش کی سڑکوں پر سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں کے جھنڈے تلے ہونے والے کانگریس مخالف آندولن کی چہل پہل بنی رہتی تھی ۔اور دیش کی پارلیمنٹ میں بھی عوام کے توقعات گونجتی تھیں ۔چھ دہائی پہلے دی گئی لوہیا کی یہ آگاہی پچھلے کچھ برسوں سے مسلسل تعبیر ہوتی نظر آرہی ہے ۔پارلیمانی جمہوریت کے امرت کال میں 21د سمبر کوپارلیمنٹ کے اسپیشل سیشن کے دوران تو یہ بات نئے وسیع شکل میں ظاہر ہوئی ۔پارلیمانی کاروائی کے دوران ممبران کے درمیان تلخ لہجے میں ایک دوسرے پر الزام تراشی ہونا عام بات ہے ۔اور کبھی کبھی بے ہودہ زبان کا استعمال بھی ہوتا ہے جس پر اسپیکر وارننگ دیتے ہیں،قابل اعتراض الفاظ کو ایوان کی کاروائی سے نکلوا دیتے ہیں تو کبھی کبھی متعلقہ ممبر کو ایوان سے معطل بھی کردیتے ہیں ۔لیکن 21 ستمبرکو لوک سبھامیں جو کچھ ہوا وہ ہندوستانی پارلیمنٹ نے اور دیش نے پہلی بار دیکھا ۔مون مشن 3- کی کامیابی پر بحث کے دوران جنوبی دہلی سے چنے گئے بھاجپا ایم پی رمیش بدھوڑی نے امروہہ کے بہوجن سماج وادی پارٹی سے چن کر ایم پی کنور دانش علی کے لئے جیسے بے ہودہ اور دیش کے سب سے بڑے اقلیتی فرقہ کے تئیں فرقہ وارنہ نفرت سے بھرے الفاظ کا استعمال کیا ۔انہیں ایوان سے باہر نکل کر دیکھ لینے تک کی دھمکی بھی دی ۔ایوان میں موجود وزیر دفاع راجناتھ سنگھ بدھوڑی کے قابل اعتراض پر الفاظ ایوان سے معافی تو مانگی لیکن سوال یہ ہے کہ بدھوڑی کی اتنی ہمت کیسے ہوئی؟ بدھوڑی کے منھ سے نکلے جو بے ہودہ الفاظ پورے دیش نے سنے اور اب اس کا ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہو گیا اس کے بارے میں راجناتھ سنگھ نے کہا بدھوڑی کے منھ سے نکلے جو الفاظ انہیں میں ٹھیک سے نہیں سن پایا، پھر بھی اگر اپوزیشن ان کی باتوں سے اپنے آپ کو ٹھیس محسوس کرتی ہے تو میں افسوس ظاہر کرتاہوں ۔دراصل بدھوڑی بھاجپا کے ایک عام ایم پی نہیں ہیں بلکہ وہ دہلی کے سب سے پڑھے لکھے اور سوجھ بوجھ والے اور دبدبہ والے علاقے ساو¿تھ دہلی پارلیمانی حلقہ سے مسلسل دوبار چنے گئے ہیں اور تین بار دلی اسمبلی کے ممبر بھی رہے ہیں ۔مودی جی جب غیر ملکی دورہ سے لوٹتے ہیں تو دہلی ہوائی اڈے پر ان کے استقبال کیلئے رمیش بدھوڑی ہمیشہ موجود رہتے ہیں ۔اس کے علاوہ دہلی میں مودی کی کوئی ریلی اور روڈ شو کیلئے بھیڑ کا انتظام کا ذمہ بدھوڑی اٹھاتے ہیں اس ناطے وہ وزیراعظم کے چہیتے ممبران پارلیمنٹ میں سے ایک ہیں ۔حالانکہ بدھوڑی کے بے ہودہ الفاظ پر ابھی تک نا تو وزیراعظم اور نہ ہی آر ایس ایس کا کوئی رد عمل سامنے آیا ہے ۔لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے بدھوڑی کے قابل اعتراض الفاظ کو ایوان کی کاروائی سے ہٹانے کا حکم دیا ہے ۔حالانکہ پارلیمنٹ کی کاروائی کا سیدھا ٹیلی کاشٹ کے دور میں ایسی کاروائی کا اب کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے ۔بدھوڑی نے ایم پی دانش علی کے خلاف جس قابل اعتراض الفاظ کا استعمال کیا ہے وہ پورے دیش میں چھایہ ہوا ہے ۔اور یہ تاریخ میں درج ہو کر پارلیمانی تاریخ کا حصہ ہو گئے ہیں ۔ویڈیو کلپ کے ذریعے پوری دنیا میں یہ بے ہودہ الفاظ پھیل چلے ہیں ۔چھوٹی موٹی باتوں پر اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ کو پورے اجلاس کے لئے معطل کر دینے والے اسپیکر اوم برلا اس معاملے میں بدھوڑی کو صرف وارننگ دی ہے ۔اگر انہوں نے ایوان میں ایسا برتاو¿ کیا تو ان کے خلاف سخت کاروائی ہوگی۔غور طلب ہے کہ پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں لوک سبھا میں کانگریس پارلیمانی پارٹی کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری اور اجیہ سبھا میں عام آدمی پارٹی کے ایم پی سنجے سنگھ جب منی پور کے معاملے میں وزیراعظم سے بیان دینے کی مانگ کرتے ہوئے اپنی شیٹ سے اٹھ کر اسپیکر کے پاس بنی ویل میں پہونچ گئے تھے تو دونوں ممبران کو پورے سیشن کے لئے معطل کر دیا گیا تھا ۔اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ کی معطلی کے ایسے کئی معاملے راجیہ سبھا اور اس 17 ویں لوک سبھا میںدیکھے گئے ہیں جبکہ بدھوڑی کا معاملہ ان سب معاملے کے سامنے بے حد سنگین ہے۔یہ صحیح ہے کہ آئین کے سیکشن 105 (2 ) کے مطابق ایوان میں کہی بات یا کسی برتاو¿ کیلئے کوئی بھی ایم پی کسی بھی عدالت کے تئیں جواب دہ نہیں ہوتا ۔اس کے خلاف کوئی کیس درج نہیں ہو سکتا ہے ۔اور نا ہی کسی طرح کی کاروائی ہوسکتی ہے ایسے معاملوں لوک سبھا کی ردعمل اور کام چلانے کیلئے قواعد کے تحت اسپیکر کو ہی کاروائی کرنے کا اختیار ہے ۔ایسے میں سوال ہے کہ کیا کوئی ایم پی اپنے استحقاق حق کے تحت کسی دیگر ایم پی کے خلاف توہین آمیز زبان کا استعمال یا گالی گلوج بھی کر سکتا ہے ؟ اس بارے میں بھاجپا کے سینئر لیڈر اور سابق لوک سبھا اسپیکر کا رد عمل بھی کم حیران کرنے والا نہیں ہے جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ اس معاملے میں اسپیکر کو کیا کرنا چاہیے ۔اگر ان کے وقت میں یہ معاملہ ہوا ہوتا تو کیا کرتی ۔تو انہوںنے اول تو اس پورے معاملے میں ہی بولنے میں معذوری ظاہر کی یہی نہیں انہوںنے رمیش بدھوڑی اور دانش علی کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون ہیں۔جب کہ بدھوڑی تو ان کے لوک سبھا اسپیکر رہتے ہوئے پانچ سال تک لوک سبھا کے ایم پی رہے ہیں ۔بہر حال بھارتیہ جنتا پارٹی نے بدھوڑی کو وجہ بتاو¿ نوٹس دے کر ان سے 15 دنوں میں جواب دینے کو کہا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسے نوٹس کا کوئی مطلب نہیں ہے ۔بدھوڑی نوٹس کے جواب میں محض معذرت ہی ظاہر کردیں گے اور معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔دراصل بدھوڑی بھاجپا کے پہلے ایسے نیتا نہیں ہیں ۔جنہوں نے اقلیتی فرقہ کو نشانہ بنایا ہے اور ایسے قابل اعتراض الفاظ کا استعمال کیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی لیڈرشپ اپنے ایم پی رمیش بدھوڑی کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھا پائے گی جس سے پارٹی لائن کراس کرنے والے دوسرے لیڈروں کو سبق ملے ؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!