مقدمات کی بڑھتی تعداد کے بوجھ تلے دبدتی عدالتیں

تاریخ پر تاریخ پڑتی رہتی ہے۔ زندگی گذرتی رہتی ہے، موت بھی آجاتی ہے مگر نہیں آئی ہے فیصلے کی تاریخ۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارے عدلیہ نظام کا ہوگیا ہے اور اس بات کی فکر ہماری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر التمش کبیر کو بھی ہے۔ چیف جسٹس کبیر صاحب نے دیش کی سبھی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر نچلی عدالتوں میں ججوں کی تعداد کو جلد سے جلد دوگنا بڑھانے کے لئے کہا ہے۔ ججوں کا ضرورت کے مطابق نہ ہونا، مقدموں کا سالوں لٹکے رہنے کی بڑی وجہ ہے۔جج موصوف کا کہنا ہے دیری سے انصاف یا انصاف سے محروم سماج کے لئے ایک لعنت ہے۔ جسٹس کبیر اس بارے میں وزیر اعظم کو بھی خط لکھ چکے ہیں۔ دہلی گینگ ریپ جیسی گھناونی واردات کے بعد عدلیہ نے اپنی طرف سے کارگر قدم اٹھائے ہیں۔ عورتوں کے خلاف جرائم کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی گئی ہیں لیکن وہ خصوصی عدالتی ججوں کی موجودہ کام کی صلاحیت سے ہی قائم کی گئی ہیں۔ اس سے شاید ہی کوئی مستقل حل نکلے۔ دیش کی عدالتوں میں اس وقت 3 کروڑ سے زیادہ مقدمے زیر التوا ہیں۔ ججوں کے موجودہ منظور عہدے صرف18871 ہیں۔ ان میں سے ماتحت عدالتوں میں ججوں کی تعداد 17945 ہے ۔ جسٹس کبیر نے مطالبہ کیا ہے اس تعداد کو دوگنا کردیا جائے۔ نچلی عدالتوں میں ججوں کی تعداد36 ہزار کردی جائے۔ ججوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ عدالتی اسٹاف اور عمارتیں اور بنیادی سہولیات میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوناچاہئے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے 10 سال بعد بھی آبادی تناسب 13 سے بڑھ کر صرف15.47 فیصد ہوا ہے۔ دیش کی آبادی 1 ارب 22 کروڑ ہوگئی ہے پھر بھی ججوں کی تعداد بڑھانے کے لئے کارگر قدم نہیں اٹھائے گئے۔ اگر ہم راجدھانی دہلی کی بات کریں تو راجدھانی کی مختلف عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ اس قدر حاوی ہے کہ انصاف کی رفتار دھیمی ہوتی جارہی ہے۔ 
ضلع عدالتوں میں زیر التوا معاملوں کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ راجدھانی میں یہ 6 لاکھ72 ہزار سے زیادہ مقدمے زیر التوا ہیں۔ ایسے میں ان سبھی مقدموں کا جلد نپٹارہ کرنا پہاڑ کو ہلانے جیسے چیلنج کا سامنا کرنے سے کم نہیں ہے۔ سال1982ء کے ریل منتری ایل این مکشا قتل کانڈکو30 سال گذر چکے ہیں اسکے باوجود کڑکڑ ڈوما عدالت میں ابھی بھی اس مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ ابھی تک ملزمان پر چارج شیٹ تک نہیں ہوئی ہے۔ بہت سے ملزم مر چکے ہیں اور کئی گواہ بھی دنیا چھوڑ چکے ہیں۔ ایک معاملہ 30 سال پرانا جوا کھیلنے کا ہے جس میں ایک 85 سالہ بزرگ نے عدالت میں محض اس لئے اپنا جرم قبول کرلیا کیونکہ وہ برسوں سے چلی آرہی قانونی لڑائی سے تنگ آچکا تھا۔ راجدھانی کی مختلف عدالتوں میں اکتوبر 2012ء تک لٹکے معاملوں کی تعداد کم چونکانے والی نہیں ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں 17501 ایڈیشنل ضلع عدالت میں 77703 میٹرو پولیٹن عدالت میں309237، ٹریفک کورٹ77269، سول عدالت 63389، ایوننگ کورٹ16576 ،ایڈیشنل رینٹ کنٹرولر10746، اس طرح کل معاملوں کی تعداد بنتی ہے672361۔ اب جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس التمش کبیر نے خود اس مسئلے کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ امید کی جانی چاہئے حل نکالنے کی غرض سے فوری قدم ہر سطح پر اٹھائے جائیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!