دہلی ہائی کورٹ نے ای ڈی پر لگائی لگام !

پچھلے کافی وقت سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جانچ ایجنسیاں اپنے دائرہ اختیار کو بھول کر غیر ضروری طور سے سرگرم ہو رہی ہیں۔انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی سرگرمی کولیکر بھی کافی وقت سے سوال کھڑے ہو رہے تھے اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے دائرے اختیار سے باہر جاکر کام کر رہی ہیں۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ یعنی ای ڈی ایک بار پھر کسی معاملے کی جانچ شروع کردے تو اس کے دائرے میں آئے کسی بھی شخص کیلئے چھٹکارا پانا بیحد مشکل ہو جاتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ناجائز طریقے سے پیسہ اکٹھا کرنے کے جرائم کیلئے شروع ہوئی جانچ آہستہ آہستہ دوسرے کئی معاملوں تک پہنچ جاتی ہے ۔ایک بار فائل کھل جائے تو وہ شائد کبھی بند نہ ہو ۔گاہے بگاہے یہ کبھی کھل جاتی ہے اور لوگوں کو حلقان کئے رہتی ہے ۔اکثر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ اپنے دائرے اختیار سے باہر جاکر کام کرتی ہے ۔اب دہلی ہائی کورٹ نے اس کی حد لائن طے کردی ہے ۔عدالت نے کہا ہے کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو صرف پیسہ ناجائز طریقے سے کمانے سے متعلق معاملوں میں ہی کاروائی کا اختیار ہے۔اگر کسی معاملے میں اندازہ کی بنیاد پر کاروائی کی گئی ہے تو اس پر متعلقہ حکام کو قانون کے تحت کاروائی کرنی ہوگی اور اس کو سننا ہوگا ۔دہلی ہائی کورٹ کا یہ حکم کچھ عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے آیا ہے ۔ان میں پیسہ اکٹھا کرنے کو لیکر کوئی دلیل نہیں رکھی گئی تھی یہاںتک کہ سی بی آئی نے بھی ایسے کوئی حقائق سامنے نہیں پیش کئے پیسہ اکٹھا کرنے والے ایکٹ کے تحت انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو 1کروڑ یا اس سے اوپر کے معاملوں میں ہی جانچ کا حق ہے ۔مگراس نے دوسرے محکموں کے دائرے اختیار میں غیر ضروری دخل ندازی کر بہت سے معاملوں کی جانچ کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت کم معاملوںمیں مقدمہ درج ہو سکا ہے۔ باقی معاملوں کو بغیر کسی فیصلے کے ختم کرنا پڑا ۔بھلے ہی آمدنی سے زیادہ اثاثے کے معاملے میں شروع ہونے والی ای ڈی جانچ سے سب سے زیادہ گھبرانے والے لوگوںمیں سیاست داں اہم ہوتے ہیں لیکن دہلی ہائی کورٹ کے ای ڈی کو صرف پیسہ اکٹھا کرنے کے جرائم کی جانچ تک محدود رہنے کی ہدایت سے بہت سے لوگوں کو راحت ملنے کی امید ہے ۔ ہائی کورٹ کے مطابق جانچ ایجنسی صرف اندازے کی بنیاد پر یہ طے نہیں کرسکتی کہ کوئی جرم ہوا ہے یا نہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ جس جرم کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے اس کی جانچ کرنی ہوگی اور اس سلسلے میں قانونی طور سے مجاز وکیلوں کے ذریعے سماعت کرنی ہوگی۔ در اصل پچھلے کچھ برسوں میں جس طرح سے سی بی آئی،انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور انکم ٹیکس محکموں نے ٹارگیٹ کرکے کئی لوگوں پر چھاپے مارے اس سے یہ کہا جانے لگا کہ یہ ایجنسیاں سرکار کے اشارے پر کام کر رہی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے دائرے اختیار سے باہر جاکر بھی کام کررہی ہیں ۔ ان کا مقصد معاملے کی جانچ کرنے سے زیادہ لوگوں کو پریشان کرنا ہے اس لئے یہ الزام نئے نہیں ہیں۔ سبھی حکومتوںپر ایسے الزام لگتے ہیں ۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کیلئے دہلی ہائی کورٹ کا تازہ حکم ایک سبق ہونا چاہئے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟