بڑھتی چینی طاقت سے امریکہ پریشان!

چینی صدر شی جن پنگ کی جاریحانہ خارجہ پالیسی کا سب سے زیادہ اثر وسط مشر ق ایشیا میں صاف دکھائی پڑ رہا ہے لیکن جیسے جیسے بیجنگ کی طاقت بڑھ رہی ہے امریکہ کی بے چینی بھی صاف جھلک رہی ہے ۔کئی برسوں کی ٹال مٹول کے بعد اب امریکہ اس خطے کی طرف آخر توجہ دے رہا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن سال 2017کے بعد جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم یعنی آسیان کی کسی بھی سالانہ میٹنگ میں حصہ لینے والے پہلے امریکی صدر بن گئے ہیں۔حالاںکہ پچھلے سال بھی وہ آسیان کا حصہ تھے،لیکن ویڈیو لنک کے ذریعے انہوںنے شرکت کی تھی آسیان کی میٹنگ میں حصہ لینے کے بعد بائیڈن اس خطے کے ایک اہم ملک انڈونیشیا ،بھارت ہے جہاں وہ چین کے صدر شی جن پنگ سے ملیںگے ۔اس کے بعد دونوں نیتا جی 20میں شامل ہوئے لیکن امریکہ اب پہلے سے کہیں وشواس گھاتی ڈپلومیٹک ماحول میں چلا رہا ہے ۔ایک زمانے میں آسیان گروپ کو ایشیائی بحرالکاہل خطے میں ڈپلومیسی کیلئے ایک اہم جگہ مانا جاتا تھا لیکن اب وہ گروپ بندی میں بٹتی جا رہی ہے ۔ دنیا میں اس کا اثر کم ہوا ہے آسیان گروپ اپنی ساکھ امن اور غیر جانبداری والا گروپ بنانا چاہتا ہے ۔گروپ اپنے دس ممبر ملکوں میںایک رائے پر رزور دیتا ہے تاکہ ایک دوسرے کی نکتہ چینی نہ کی جائے اور سبھی ممبر گروپ سے باہر کسی بھی ملک سے اپنے ڈپلومیسی جاری رکھ پائیں ۔چین کے صدر شی جن پنگ سال 2017میں آسیان اور ایشیائی پیسفک ایکانومک کوآپریشن کی میٹنگ میں حصہ لیتے ہوئے آسیان میں اپنے فیصلے لاگوں کر نے کی کسی مخصوص کاروائی کی کمی اس نظریہ کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔یہ رویہ تب تک تو صحیح تھا جب تک دنیا میں امریکہ کا بو ل بالا تھا لیکن سال 2000کے بعد عالمی منڈی میں چین کی بڑھتی دھاک سے اس خطے میں امریکی اثر گھٹا ہے کیوں کہ اس کی اقتصادی کمان وسط مشرق ایشیا کی طرف رہی ہے ۔اس دوران چین اس خطے میں اپنے سابق لیڈر ڈینگ زیاو¿پنگ کے منتر اپنی طاقت چھپا و¿ وقت کاٹتے رہو لیکن کام کر تا رہا ہے ۔شی کے عہد کے دس برسوں میں چین کی طاقت اور اثر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔گزشتہ ایک دہائی میں جنوبی مشرق ایشیا میں مصنوعی جزیروں پر چین کا قبضہ اور فوجی اڈے بنانے کی کوشش نے اسے ویتنام اور فلپائن کے سامنے لا کھڑا کیا ہے ۔آسیان نے چین کے اس خطے میں قواعد کی تعمیل کرنے گزارش کی تھی۔لیکن اس کی تمام کوششیں ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں چین نے ساو¿تھ چین سمندر میں ایسے کئی مصنوعی ٹاپو بنائے ہیں جن میں چین کے فوجی اڈے ہیں۔چین اقتصادی طور سے کافی اہم ہے ،اور فوجی طور پر بھی اتنا طاقتور ہے کہ کوئی اسے کھلے عام چنوتی نہیں دے سکتا ۔چین نے آسیان گروپ کی اتحاد کی دھجیا ں اڑا دی ہے ۔اس کی ڈپلومیسی کی چالوں کی وجہ سے چھوٹے آسیان ممبر اب پوری طرح سے اس منحصر ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یہ خطے میں اب امریکہ کے ساتھ رشتوں کولیکر مایو س ہوتا جا رہاہے ۔ اب یہ دیش امریکہ کو بھروسے کا پاٹنر نہیں مانتے انہیں لگتا ہے کہ امریکہ انسانی حقوق اور جمہوریتی کی جنگوں میں الجھا رہتا ہے ۔سال1943میں ایشیا میں آئے مالی بحران کے دوران امریکہ نے اس خطے کو سخت اقتصادی قدم اٹھانے کیلئے مجبور کیا تھا اس کے بعد جارج بش کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے جنوب مشرقی ایشیا کی امریکہ میں دلچسپی تقریباً ختم کردی تھی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟