میڈیاکا گلا گھونٹنے کی تیاری



Published On 2nd November 2011
انل نریندر
جب ہمارے دادا جی سورگیہ مہاشہ کرشن جی نے پرتاپ اخبار شروع کیا تھا تو اس وقت صحافت ایک مشن ہوا کرتی تھی۔ اس وقت مشن تھا بھارت کی آزادی۔ اس مشن کو لیکر انہوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ لگادیا۔ لیکن آج میں دیکھتا ہوں کہ صحافت ایک مشن نہیں بلکہ ایک پیشہ بن گیا ہے۔ خاص طور پر ان الیکٹرانک چینلوں کے آنے سے آج وہ زیادہ تر ایک تجارتی پیشہ بن گئی ہے۔ ہر پیشے یا کاروبار کے کچھ قاعدے اور پیمانے ہوتے ہیں۔ اسی بات کو ذہن میں رکھ کر بھارتیہ پریس کونسل کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس نے ڈیڑھ دہائی پہلے اخبارات ،جریدوں اور خبر رساں ایجنسیوں کے لئے قواعدو ضوابط تیار کئے تھے اور کچھ سال بعد ان میں ترمیم بھی کی۔ اس دفعہ میں دی گئی ہدایتیں وسیع طور پر مفاد عامہ سے وابستہ رہی ہیں۔ مثال کے طور پرفرقہ وارانہ واقعات کی خبر دیتے وقت کس طرح کی ہوشیاری برتی جائے۔ تشدد کو کسی بھی صورت میں ہوا نہ دی جائے۔ کسی کے ذاتی معاملوں سے بچا جائے۔ خبر یا الزام سے متاثرہ شخص کو وضاحت کرنے کی جگہ دی جائے۔ آبروریزی کا نشانہ بنی لڑکی کا اصل نام یا پتہ نہ دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ان پیمانوں کو پرنٹ دنیا نے بڑی سنجیدگی سے قبول کیا ہے لیکن الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے یہ تصویر بدل گئی ہے۔ ٹی آر پی کی دوڑ میں ایک چینل دوسرے چینل کو مات دینے کے چکر میں لگ گئے ہیں اور کئی بار مقررہ ضابطوں کی حدود کو پار کرگئے۔ پھر جب گھوٹالوں کا دور آیا تو الیکٹرانک چینلوں نے ایک کے بعد ایک گھوٹالے کو ہائی لائٹ کیا اور متاثرہ پارٹیاں روز روز کے نئے انکشافات کرنے سے پریشان ہوگئی ہیں۔ ان میں سرکار سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ اچانک پریس کونسل نے ایسی رائے ظاہر کی ہے جس سے اس کے اور میڈیا کے درمیان کٹھاس پیدا ہوسکتی ہے۔ غور طلب ہے پریس کونسل کے چیئرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے پچھلے دنوں کہا کہ حکومت نجی سیکٹر اور دانشورانہ طبقے میں یہ تصور مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ بیحد غیر ذمہ دارانہ ڈھنگ سے کام کررہا ہے۔ غلط اور گمراہ کن رپورٹنگ کرنے ، واقعات کو ذاتیات کے نظریئے سے پیش کرنے اور سنسنی پھیلانے کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہے۔ اسے سنجیدگی سے لینے اور قصورواروں پر لگام کسنے کی ضرورت ہے۔ ایک ٹی وی چینل کو دئے گئے ایک انٹرویو میں جسٹس کاٹجو نے بتایا کہ انہوں نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے کہ میڈیا کو پریس کونسل کے دائرے میں لایا جانا چاہئے۔ انہوں نے پریس کونسل کا نام بدل کر میڈیا کونسل کرنے کی بھی صلاح دی ہے اور اسے زیادہ اختیار دینے چاہئیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کا جواب مل گیا ہے جس میں انہوں نے کہا اس پر غور کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس سلسلے میں لوک سبھا میں اپوزیشن کی لیڈر سشما سوراج سے بھی ملے ہیں۔ سشما جی نے ان سے کہا کہ ممکنہ طور پر اس بارے میں اتفاق رائے ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پریس کونسل کو غیر ذمہ دارانہ ڈھنگ سے برتاؤ کرنے والے میڈیا اداروں کا لائسنس منسوخ کرنے اور اسے ملنے والے سرکاری اشتہارات بند کرنے کا بھی اختیار دیا جانا چاہئے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ میڈیا کی آزادی پر اس سے آنچ تو نہیں آئے گی۔ جسٹس کاٹجو نے کہا کہ جمہوریت کے تئیں ہر کوئی جوابدہ ہے۔ کوئی بھی آزادی بے لگام نہیں ہوتی ہے۔ میں بھی جوابدہ ہوں ، آپ بھی جوابدہ ہیں۔ ہم سب جنتا کے تئیں جوابدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مباحثے بے تکے ہیں۔ یہ کوئی شور مچانے کا مقابلہ نہیں ہے۔ انہو ں نے تلسی داس کی چوپائی ''بھے بنو ہوئے نہ پریت '' کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کو بھی کچھ ڈر ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا میڈیا کبھی کبھی مفاد عامہ کے خلاف کام کرنے لگ جاتا ہے۔ مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب کبھی ممبئی ، دہلی، بنگلور میں کہیں بھی بم دھماکے ہوتے ہیں تو کچھ ہی گھنٹوں میں ہر چینل یہ دکھانے لگ جاتے ہیں کہ انہیں ای میل یا ایس ایم ایس ملا ہے جس میں انڈین مجاہدین، جیش محمد یا حرکت الانصار یا مسلم نام والی کسی بھی تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری لی ہے۔ انہوں نے کہا آپ کو جو ای میل یا ایس ایم ایس ملتا ہے وہ کسی شرارتی عناصر کا کام بھی ہوسکتا ہے لیکن ٹی وی چینل پر اس طرح دکھائے جانے لگتے ہیں جیسے کہ سارے مسلمان ہی آتنکی ہوں یا بم پھینکنے والے ہوں۔ جسٹس کاٹجو نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر جنتا میں تلخی پیدا کرنے کی کوشش کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ حرکت پوری طرح ملک دشمن ہے۔
ہم جسٹس کاٹجو کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن ان سے معافی مانگیں گے کہ ہم ان کے نظریات اور تبصروں سے متفق نہیں ہیں۔ میڈیا کا کام ہے سچائی دکھانا چاہے وہ کتنی کڑوی کیوں نہ ہوں۔ یہ کہنا کہ میڈیا جان بوجھ کر فرقہ وارایت کو ہوا دے رہا ہے، سرکار کا رویہ غلط اور افسوسناک ہے۔ ہم بتانا چاہیں گے کہ پریس کونسل کو سرکارکا بھونپو نہیں بننا چاہئے۔اس کی تشویش وہی ہونی چاہئے جو سرکار کی ہے۔ یہ تشفی کی بات ہے کہ دونوں ہی زبان اور لہجے میں ایک ہی نظریہ اپناتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ سرکار کو جہاں پورا میڈیا غیر ذمہ دار نظر آتا ہے وہیں جسٹس کاٹجو نے میڈیا کے ایک حصے الیکٹرانک میڈیا کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ کاٹجو ایسے اقدامات تجویز کررہے ہیں جو میڈیا کی آزادی کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ کیا اب سرکار ہر اخبار، ہر چینل کو ان کے حساب سے چلائے گی؟ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کو نقصان پہنچانے کے لئے اشتہارات روکنے کی دھمکی دی جائے گی؟ جسٹس بھی مانتے ہیں کہ میڈیا کو ہانکا نہیں جاسکتا مگر وہ جو تجویز دے رہے ہیں وہ اگر قانونی شکل میں آجائے تو منموہن سنگھ کی یوپی اے سرکار ان کا ڈنڈے کی طرح استعمال کرنے میں ہچکچائے گی نہیں۔ صحافت کے پیمانوں کی تعمیل ہر اخبار اور چینل کو یقینی کرنی ہوگی مگر ایسی کسی بھی تجویز کے بارے میں نہ سوچا جائے جو سرکار کے لئے میڈیا پر اپنی مرضی تھونپنے کا ایک ذریعہ بن جائے۔ سرکار کو میڈیا کا گلا گھونٹنے سے بچنا چاہئے۔ بہتر ہو کہ وہ تاریخ سے کچھ سبق ہے۔ پہلے بھی ایسا کرنے کی ناکام کوشش ہوچکی ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Justice Katju, Press Council of India, Role of Media, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!