اشاعتیں

2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

راہل کا بیان! ہم تو ڈوبیں گے ہی ساتھ کانگریس کو بھی ڈوبادیں گے!

کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے لگتا ہے کہ نئے اوتار کے روپ میں جنم لیا ہے۔ راہل گاندھی کے نئے اوتار کو نہ تو ہم سمجھ سکے ہیں اور نہ ہی پارٹی کے کئی سینئر نیتا۔ وہ کب کیا کہہ دیں ،کردیں اس سے پارٹی میں ہڑکم مچا ہوا ہے۔ راہل گاندھی کی برشٹاچارکے داغ سے خراب ہوچکی کانگریس کی ساکھ کو نکھارنے کی اسے کوشش کہاجائے یا پھر جنتا کی نظر پہچاننے کی حکمت عملی سمجھا جائے۔سزا یافتہ سانسدوں اور ودھایکوں کو بچانے کیلئے کیندر کے ایک آدیش کو بکواس و پھاڑنے لائق بتا کر سرکار کا فیصلہ بدلوا چکے راہل نے اس بار مہاراشٹر سرکارکو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ مہاراشٹر کے مکھیہ منتری پرتھوی راج چوہان کی موجودگی میں شکروار کو راہل نے کہا کہ آدرش گھوٹالے کی جانچ رپورٹ خارج کرنے کے فیصلے پر راجیہ سرکار کو دوبارہ غور کرنا چاہئے۔ کانگریسی حکومت والی ایک درجن ریاستوں کی بیٹھک کے بعد راہل گاندھی نے یہ ٹپنی کی۔ رپورٹ میں کئی سابق مکھیہ منتری و دیگر پھنسے ہوئے ہیں۔مہاراشٹر سرکار نے چوہان کی سربراہی میں کیبنٹ کی بیٹھک میں اسے سب کی منظوری سے رپورٹ کو خارج کیاگیا۔ راہل کی ٹپنی کے بعد اسہمت محسوس کررہے چوہان نے کہا کہ اپنے منتری

اور اب راحت کیمپوں پر چلائے بلڈوزر!

مظفر نگر فساد اور غدر کے بعد پیدا ہوئے حالات نے اترپردیش کی سماجوادی سرکار کے ناک میں دم کررکھا ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ اکھلیش سرکار اس موجودہ حالات سے نمٹنے میں کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔ اس سرکار کا نہ تو اپنے کاریکرتاؤں پر کوئی کنٹرول ہے نہ منتریوں پر اور نہ ہی ادھیکاریوں پر۔ غیر سیاسی حالت بنی ہوئی ہے۔اگر ہم بات کریں مظفر نگر اور شاملی کے دنگا راحت کیمپوں کی بدانتظامی کی تو ان کیمپوں میں بچوں کی ٹھنڈ سے موت ہورہی ہے۔ ان کے ٹینکوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔ ان کیمپوں میں ٹھنڈ سے 74 بچوں کی موت ہوچکی ہے لیکن یوپی کے پرنسپل سکریٹری کا کہنا ہے کہ ٹھنڈ سے کوئی کبھی نہیں مرتا۔ اگر ایسا ہوتا تو سائبریا میں کوئی زندہ نہیں بچتا جو دنیا کا سب سے ٹھنڈا علاقہ ہے۔ محکمہ داخلہ کے پرنسپل سکریٹری اے ۔ کے گپتا جمعرات کو راحت کیمپوں میں بچوں کی موت سے متعلق سمیتی کی رپورٹ کی جانکاری دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ٹھنڈ سے کوئی نہیں مرتا۔ رپورٹ میں کچھ موتوں کی وجہ فوڈ پوائزنگ اور نمونیہ بتائی گئی ہے۔ نمونیہ گپتا صاحب ٹھنڈ سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے سپا پرمکھ ملائم سنگھ یادو نے کہا تھا کہ کیمپوں میں کوئی متا

بھارت سرکار کے دیویانی معاملے پر موقف سے بوکھلایا امریکہ!

امریکہ میں ہندوستانی سفارتکار دیویانی کھوبراگڑے کے معاملے میں بھارت سرکار نے جس طرح کی کڑک مزاجی دکھائی ہے اس کے مثبت نتائج دوسرے ملکوں سے بھی سامنے آنے لگے ہیں اور بھارت ہی نہیں دنیا کے کئی ملکوں میں بحث شروع ہوئی ہے کہ آخر کب تک دنیا امریکہ کی دادا گیری برداشت کرے گی۔ پڑوسی ملک پاکستان سے بھی بھارت کے موقف کو حمایت مل رہی ہے۔ ’دی نیشن‘ اخبار نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ اس پر کس کو شبہ ہوگا؟ یہ مانا جاتا ہے کہ اس کی حکومت میں دنیا کے سب سے ذہین اور وسیع دماغ والے شخص شامل ہوں گے لیکن ہندوستان کے قونصل خانے کی سینئر افسر دیویانی کی گرفتاری اور ان کے ساتھ کی گئی بدسلوکی امریکی انتظامیہ کی سیاسی سوجھ بوجھ کس میں شک پیدا کرسکتی ہے۔ آخر یہ نوبت آئی کیسے؟ یہ پورا ڈرامہ جو ہوا اس سے تلخی پیدا ہوئی ہے اسے سوجھ بوجھ سے ٹالا جاسکتا تھا۔ پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ دیویانی کی گرفتاری میں شامل رہے امریکی وکیل مارشل اور ان کی گرفتاری پر دستخط کرنے والے محکمہ خارجہ کے حکام نے مبینہ طور پر گھریلو جرائم کو بین الاقوامی رنگ دے دیا ہے۔ انہوں نے امریکہ کو ل

کانگریس مخالف لہر پر ٹکی ہیں بھاجپا کی امیدیں!

چار ریاستوں میں کامیابی سے گد گد بھارتیہ جنتا پارٹی اب لوک سبھا چناؤ سے پہلے کانگریس مخالف لہر کا پورا فائدہ اٹھانے میں لگ گئی ہے۔ بھاجپا کی کوشش ہوگی کہ اس لہر میں کوئی تقسیم نہ ہو۔ ’مودی فار پی ایم‘ کے نعرے کے ساتھ بھاجپا نے اپنے مشن2014 کا روڈ میپ تیار کرلیا ہے۔ عام چناؤ میں اب محض 4 مہینے باقی ہیں اور پارٹی نے 60 دن تیاری اور 60 دن پبلسٹی کے لئے طے کئے ہیں۔ نریندر مودی نے پارٹی کے وزراء اعلی مرکزی عہدیدار اور پردیش پردھانوں کو جیت کے لئے فارمولہ بتادیا ہے۔ پچھلے عام چناؤ میں کانگریس کو 206 سیٹیں بھاجپا کو116 سیٹیں ملی تھیں۔ کانگریس جن سیٹوں پر جیتی تھی ان میں زیادہ تر بھاجپا نمبر دو پر تھی۔ ایسی سیٹوں پر بھاجپا اور کانگریس میں ووٹوں کا فرق 8-9 لاکھ کا تھا۔ گذشتہ پانچ سال میں ایسے حلقوں میں 12 لاکھ نئے ووٹر جڑ گئے ہیں۔ مرکز میں کانگریس کے 10 سالہ عہد کے خلاف بھاجپا ایک چارج شیٹ لائے گی۔ پارٹی نے خود اپنے دم خم پر 272 لوک سبھا سیٹیں جیتنے کا نشانہ رکھا ہے۔ دیش بھر کی 400 لوک سبھا سیٹوں پر پارٹی اپنے امیدوار چننے سے پہلے ریلیاں کرے گی۔ پارٹی نے جن سنگھ کی روایت کو پھر زندہ کرتے ہو

مظفر نگر میں دونوں فرقوں میں بے اعتمادی کی خلیج کو کیسے بھرا جائے؟

کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے جب ایتوار کو اترپردیش کے فساد متاثرہ مظفر نگر اور شاملی اضلاع میں لگے راحت کیمپوں اور دیہات کا اچانک دورہ کیا تو ان کا سامنا اس گنا پٹی میں فساد کے بعد فرقوں کے بیچ بنی گہری کھائی کی گہری حقیقت سے ہوا۔ ایک طرف ایک ساتھ رہنے کی منشا ہے تو دوسری طرف فرقوں کے بیچ بے اعتمادی کی کھائی۔ اسی کے پیش نظر راہل نے ثالثی کی ضرورت پر زوردیا۔ انہوں نے کیمپوں میں بیحد خراب حالات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زوردیا۔کیمپوں میں مقیم افراد نے اس بات کی شکایت کی کہ گرم کپڑوں کے دستیاب نہ ہونے سے23 بچوں کی موت ہوگئی ہے۔ زیادہ تر راحت کیمپوں میں ا سی طرح کی شکایتیں تھیں۔ ایک متاثرہ لڑکے نے تلخی بھرے انداز میںیہ بات بتائی تو راہل نے پوچھا کہ وہاں کتنے دبنگ ہیں؟ گاندھی نے متاثرین سے اپیل کی وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ جب راہل نے بار بار ان سے پوچھا کیا کیا جانا چاہئے جس سے وہ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں ، تو الکپور کے مفتی اسلم نے کہا کہ یہ تب تک ممکن نہیں ہے جب تک جن لوگوں نے فساد کو انجام دیا ہے انہیں سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیجا جاتا۔ دنگوں کو انجام دینے والے اب بھی کھلے عام گ

کانگریسیو !اب پچتائے ہوت کیا ، جب چڑیا چگ گئی کھیت

دہلی اسمبلی چناؤ میں سب سے بری طرح ہاری کانگریس نے داؤ تو کھیلا تھاعام آدمی پارٹی کو سرکار میں پھنسانے کا لیکن اسے حمایت دے کر خود پھنس گئی ہے۔ جب ہوش آیا تو بہت دیر ہوچکی تھی لہٰذا اب ’آپ‘ کو حمایت کے معاملے میں ہیں کانگریس میں گھمسان مچا ہوا ہے۔ دہلی کے سبھی لیڈر الگ پریشان ہیں اور ورکر دھرنے مظاہروں پر اتر آئے ہیں۔ بدھوار کی شام کو ہی صدر لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے ’آپ‘ پارٹی کو حلف لینے کو کہا گیا۔ صبح تک کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ حلف برداری کب ہوگی؟ کجریوال سرکار بننے پر بھی سسپنس کھڑا ہوگیا تھا۔ دراصل اس سسپنس کی بنیادی وجہ کانگریس کے اندر شروع ہوئی حمایت پر نظرثانی مانا جارہا تھا۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت ’آپ‘ کی سرکار کی تشکیل کے لئے کانگریس کے ممبران اسمبلی کی حمایت مناسب نہیں مانتیں اور دن بھر اس کے لئے لابنگ کرتی رہیں اور بتا دیا کے کجریوال کی سرکار کیسے دہلی میں پارٹی کی سیاسی جڑیں کھودنے میں جٹ جائے گی۔ جو کام بڑی اپوزیشن پارٹی بھاجپا پانچ سالوں میں نہیں کرپائی وہ کام کجریوال اینڈ کمپنی ایک مہینے میں کرسکتی ہے کیونکہ وہ کرپشن کے نام پر کانگریس کے س

کرپشن میں ملوث ہی اس کیخلاف اپدیش دینے لگے؟

کانگریس پارٹی کا کرپشن اور گھوٹالوں میں قول و فعل میں ہمیشہ فرق رہا ہے۔ تازہ مثال پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی قدم اور مہاراشٹر میں آدرش گھوٹالے کی جانچ رپورٹ کو دفن کرنا۔ادھر راہل گاندھی کہہ رہے ہیں کہ کرپشن دیش کا سب سے بڑا اشو ہے جو لوگوں کو چوس رہا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ عناصر پروجیکٹوں کو روک رہے ہیں۔ مہنگائی پر قابو کرنے کی بات بھی کہی۔ ادھر کانگریس کی مہاراشٹر سرکار انہیں ٹھینگا دکھا رہی ہے۔ وزیر اعلی پرتھوی راج چوہان نے صاف کردیا ہے کہ آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی گھوٹالہ معاملے میں جانچ کمیشن کی سفارشیں نہیں مانی جائیں گی۔ چوہان نے کہا کہ یہ فیصلہ عوام کے مفاد کے نام پر کیا گیا ہے۔ اس کو لیکر سیدھے طور پر کانگریس کی نیت اور راہل گاندھی پر سیاسی حلقوں میں انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ انہیں وجہ سے بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریند ر مودی کو یہ کہنے کا موقعہ ملا کے جو کرپشن میں ڈوبے ہیں وہ ہی اب اس کے خلاف اپدیش دے رہے ہیں۔ مودی نے ممبئی میں ایک عزم الشان ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا میں نے ایک کانگریس کے بڑے لیڈر کی تقریر دیکھی وہ کرپشن کے خلاف بول رہے تھے، ان کی ہمت تو دیکھئے کوئی دوسر

سلاخوں کے پیچھے تیج پال کیلئے سال کا خاتمہ اور نئے سال کا آغاز ہوگا!

اسمبلی چناؤ اور اس کے نتائج میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ایک وقت پیج تھری کے ہیرو ترون تیج پال کو سبھی بھول گئے ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے کبھی پیج تھری کے ہیرو آج پیج آٹھ میں ایک کالج میں سمٹ گئے ہیں۔ بہرحال ترون تیج پال پنجی جیل میں ہیں۔ انہیں سال کا آخر اور نئے سال کا آغاز بھی جیل سے ہی کرنا ہوگا۔ تہلکہ مدیر ترون تیج پال کی جوڈیشیل حراست 4 جنوری2014ء تک بڑھا دی گئی ہے۔ تیج پال کو پچھلے12 دن کی حراست ختم ہونے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں مجسٹریٹ ساریکھا ڈیسائی نے ان کی حراست بڑھا دی۔ تیج پال کے وکیلوں نے ضلع عدالت کے سامنے ان کی ضمانت کے لئے مانگ کی تھی۔ اس عرضی میں کہا گیا تھا کہ جوڈیشیل حراست میں لئے جانے کے بعد سے پولیس کے ذریعے پوچھ تاچھ نہیں کی گئی ہے۔ تیج پال سے صرف اس وقت پوچھ تاچھ کی گئی جب وہ پولیس حوالات میں تھے۔ گووا کرائم برانچ نے اس دوران ساتھی خاتون ملازم کے ساتھ جنسی استحصال کے ملزم تیج پال کی مشکلیں بڑھاتے ہوئے ان کے خلاف فاضل الزام لگائے ہیں۔برانچ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ تیج پال کے خلاف درج ایف آئی آر میں اب آئی پی سی کی دفعہ341 اور42 جوڑی گئی ہے۔تیج پال سے

’’آپ‘‘ پارٹی کی سرکارسیاست میں صفائی کی سمت میں ایک اہم قدم!

دہلی کے شہریوں نے راحت کی سانس لی ہوگی آخر کار عام آدمی پارٹی نے پچھلے15 روز سے جو سسپنس بنایا ہوا تھا وہ سرکار بنانے کے اعلان کے ساتھ ختم ہوگیا ہے۔عام آدمی پارٹی کی سیاسی معاملوں کی کمیٹی کی میٹنگ ہوئی جس میں ریفرنڈم کے نتائج کو دیکھتے ہوئے سرکار بنانے کی سمت میں آگے بڑھنے کا فیصلہ لیا گیا۔ پارٹی کے کنوینر اروند کجریوال دہلی کے لیفٹیننٹ گورنرنجیب جنگ کے سامنے سرکار بنانے کا دعوی پیش کیا۔ اب صاف ہوگیا ہے کہ اروند کجریوال ہی دہلی کے نئے وزیر اعلی ہوں گے جو رام لیلا میدان میں جنتا کے بیچ حلف لیں گے۔ ہم ’’آپ‘‘ پارٹی اور اروند کجریوال کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں۔ معلق جن آدیش میں یہ تو ہونا ہی تھا جب بھاجپا نے سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود سرکار بنانے سے منع کردیاتھا۔ اس صورت میں دو ہی متبادل بچتے تھے ایک تو دہلی میں صدر راج لگادیا جائے، دوسرا آپ پارٹی سرکار بنائے یا پھر چناؤ کرانا ہی متبادل تھا۔ اگر صدر راج لگتا تو گھوم پھر کر کانگریس کی حکومت آجاتی کیونکہ مرکزی وزارت داخلہ سروے سروا ہوتا ہے۔ اب بھی اقتدار کی باگ ڈور ایک طرح سے کانگریس کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے 8 ممبران اسمبلی کے دم خم

کیدار ناتھ حادثے میں مرے لوگوں کے وارثوں کو نہ تو معاوضہ اور نہ سرٹیفکیٹ ملا!

بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی وجے بہوگنا بیشک ایک پڑھے لکھے اچھے انسان ہیں لیکن ان کی اپنی حکومت اور انتظامیہ پر پکڑ بہت کمزور ہے۔ اتراکھنڈ کے سیاسی ماحول اور اس سرد موسم کے باوجود حالات بہت ہی خراب ہیں۔ ذرائع کے مطابق لوک سبھا چناؤ میں اتراکھنڈ کی کانگریس والی پانچ لوک سبھا سیٹیں خطرے میں پڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس لئے کانگریس اعلی کمان وزیر اعلی وجے بہوگنا کو ہٹانے کے بارے میں غور کررہا ہے اور ان کے جانشینوں میں مرکزی وزیر ہریش راوت کا نام سب سے اوپر چل رہا ہے۔ یہ تو سیاسی معاملہ ہے جس کا تعلق کانگریس پارٹی سے ہے۔ ہمیں تو دکھ اس بات کا ہے کیدارناتھ میں ماہ جون میں ہوئے قدرتی حادثے کے دوران لاپتہ ہوئے دہلی کے 237 لوگوں کی 6 ماہ بعد بھی کوئی تلاش نہیں ہوسکی اور نہ ہی ان کی موت کے بارے میں سرٹیفکیٹ یا معاوضہ ان کے عزیزوں کو ملا ہے۔ متوفین کے رشتے دار کبھی اتراکھنڈ کبھی دہلی کے محکمہ محصولات کا چکر لگا رہے ہیں۔ کل143 لوگوں کی موت کے بارے میں دیتھ سرٹیفکیٹ پچھلے ہفتے اتراکھنڈ سرکار نے دہلی کے محکمہ محصول کو بھیجے ہیں لیکن اب تک دہلی کے محکمہ محصول متوفی افراد کے رشت

کیا نریندر مودی کا پسماندگی کا فائدہ بھاجپا یوپی میں اٹھا پائے گی؟

بھاجپا کے پی ایم ان ویٹنگ نریندر مودی کا مشن لوک سبھا2014 کا راستہ اترپردیش سے ہوکر گزرتا ہے۔ 85 سیٹوں والی یہ ریاست بھارتیہ جنتا پارٹی کے گیم پلان میں بہت اہم حصہ ہے۔ تبھی تو نریندر مودی نے اپنے سب سے بھروسے مند حکمت عملی ساز امت شاہ کو لکھنؤ میں بٹھایا ہوا ہے۔ بھاجپا اترپردیش میں پارٹی کے پی ایم عہدے کے امیدوار نریندر مودی کے ذریعے ریاست کی80 سیٹوں کو حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہے۔ نریندر مودی کا چہرہ اور لیڈر شپ پارٹی کو اپنے سماجی تجزیات کے حساب سے اترپردیش میں بھارہی ہے۔پارٹی اس کوشش میں بھی لگی ہوئی ہے کہ نریندر مودی کی پسماندہ ذات ہونے کا فائدہ مل سکے۔ بھاجپا اترپردیش میں مودی کارڈ کھیل کر سیاسی سطح پر ایک تیر سے کئی نشانے لگانے میں لگی ہوئی ہے۔ بھاجپا کے حکمت عملی سازوں کولگتاہے کہ مودی کی وکاس پرش کے ساتھ ساتھ پسماندہ لیڈر کی ساکھ بھی بھاجپا کے لئے نہ صرف فائدے مند ثابت ہوگی بلکہ پارٹی ذات پات کے تجزیوں کو بھی طاقت دے گی۔ 80 سیٹوں والی اترپردیش ریاست میں بھاجپا 40 سے50 سیٹوں کے درمیان جیتنے کا نشانہ لیکر چل رہی ہے۔ نریندر مودی کی ریلیاں یہاں زیادہ تر کامیاب ہورہی ہیں۔ کاشی

پبلک اسکولوں میں نرسری داخلے پرٹکراؤ!

نرسری داخلے کے لئے محکمہ تعلیم سے جاری گائڈلائنس کے بعد 15 جنوری سے راجدھانی کے تمام پبلک اسکولوں میں نرسری داخلے شروع ہونے جارہے ہیں لیکن اسکول سے چھ کلو میٹر تک کے دائرے میں آنے والوں کو زیادہ تر70 پوائنٹ دینے کی سہولت سے اسکول منتظمین جس طرح سے ناراض ہیں اس سے والدین کی پریشانی بڑھ سکتی ہے۔ دہلی کے پرائیویٹ اسکولوں میں داخلے ، فیس میں اضافہ وغیرہ سے متعلق گڑ بڑیوں اور منمانی کی شکایتیں پرانی ہیں۔انہیں دور کرنے کے لئے کئی بار کوشش ہوچکی ہے مگر کوئی پائیدار حل نہیں نکل پایا۔ ہر بار اسکول کے مالکان و منتظمین کوئی نہ کوئی پیچ ڈھونڈ کر قاعدوں کو تلانجلی دینے کا راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ ایسے میں نرسری کلاسوں میں داخلے سے متعلق نئے قواعد پر اسکولوں کی ناراضگی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی حکومت نے داخلے کے لئے کچھ نکات کو مقرر کیا تھا جن میں اسکول سے گھر کی دوری اور متعلقہ اسکول میں بچے کا کوئی بھائی یا بہن پڑ ھ رہا ہے اگر بچے کے والدین میں سے کوئی اس اسکول کا طالبعلم رہ چکا ہو وغیرہ پہلو شامل ہیں۔ پہلے اسکول سے داخلہ پانے والے بچے کی دوری زیادہ سے زیادہ 14 کلو میٹر رکھی گئی تھی لیکن ن

اروندرسنگھ لولی نے پہنا کانٹوں بھرا تاج!

دہلی اسمبلی چناؤ میں کراری ہار کے لئے بلی کا بکرا بنایا گیا دہلی پردیش کانگریس پردھان جے پرکاش اگروال کو۔ انہیں اس عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اب یہ کانٹوں بھرا تاج 46 سالہ اروندر سنگھ لولی کو پہنایاگیا ہے۔ لولی نہ صرف سب سے کم عمر کے پردیش کانگریس کمیٹی کے چیف بنے ہیں بلکہ وہ پہلے سکھ لیڈر ہیں جنہیں اس اہم عہدے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ غور طلب ہے کانگریس میں اہم عہدوں پر نوجوان چہروں کو لانا راہل گاندھی کی ترجیحات میں شامل رہا۔ کانگریس ہائی کمان نے اپنے نوجوان ممبر اسمبلی لولی کو دہلی میں پارٹی کی کمان تھماکر صاف اشارے دئے ہیں کہ بھلے ہی اسمبلی چناؤ میں اس کی کراری شکست ہوئی ہے لیکن حریف پارٹیوں سے ٹکر لینے کا دم خم اس میں اب بھی باقی ہے۔ لولی اپنی تیز طرار ساکھ کے لئے جانے جاتے ہیں۔ دہلی اسمبلی سے لیکر سرکار تک میں ان کی دھاک محسوس کی جاتی رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دہلی میں 45 سیٹوں سے گھٹ کر محض8 سیٹوں پر کانگریس پارٹی سمٹ گئی ہے۔ اس کو پھر سے اقتدار کے قریب پہنچاپانا لولی کے لئے آسان کام نہیں ہوگا۔ دہلی اسمبلی چناؤ میں کانگریس کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ اس وقت یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ

لو ان ریلیشن کے بڑھتے ٹرینڈ سے کئی پریشانیاں درپیش!

دہلی میں لو ان ریلیشن کے معاملے بڑھنے لگے ہیں۔ لو ان ریلیشن یعنی سانجھہ زندگی جینا اور شادی کی رسم کے بغیر لڑکا لڑکی ایک ساتھ رہتے ہیں اور میاں بیوی کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس سے سماجی مسئلہ تو کھڑا ہورہا ہے لیکن ساتھ ساتھ قانونی دشواری بھی بڑھ رہی ہے۔ راجدھانی میں لو ان ریلیشن میں رہنے والوں کے خلاف بدفعلی کے معاملے تین گنا بڑھے ہیں۔ اعدادو شمار کی مانیں تو ہر مہینے ایسے 23 معاملے مختلف تھانوں میں درج ہوتے ہیں۔ اس سال اکتوبر تک ایسے کل 228 معاملے درج ہوئے جو بدفعلی کی اور دوسری حرکات کا 16 فیصدی ہیں۔ یہ انکشاف دہلی پولیس کی ایک اندرونی رپورٹ سے ہوا ہے۔ یہ رپورٹ دہلی پولیس نے بدفعلی کے معاملے میں ملزمان کے الگ الگ زمروں کی پہچان کرنے کے لئے مختلف تھانوں میں درج معاملوں کی بنیاد پر تیار کرائی ہے۔ اس کے مطابق گزرے سال جہاں لو ان ریلیشن میں رہنے والوں کے خلاف بدفعلی کرنے کے 80 معاملے درج کئے گئے تھے وہیں اس سال اکتوبر تک یہ نمبر 228 تک پہنچ گیا ہے۔ حال ہی میں ایڈیشنل سیشن جج یوگیندر کھنہ کی عدالت میں ایک ایسا معاملہ آیا۔ لو ان ریلیشن میں رہنے والی اپنی پارٹنر کو شادی کا جھانسہ دیکر

کیجریوال کا نیا ڈرامہ! سرکار بنائے یا نہیں فیصلہ رائے شماری سے؟

عام پارٹی کے ذریعے سرکار بنانے یا نہ بنانے کاڈرامہ بدستور جاری ہے بگ باس کے ریئیلٹی شو کی طرح اب کیجریوال بھی ا پنے حمایتیوں سے بوجھ رہے ہیں وہ سرکار بنائے یا نہ بنائے؟ آپ پارٹی کے تھنگ ٹینک گروپ کے اہم ممبر یوگیندر یادو نے کہا کہ میں اس بات سے متفق ہوں کہ ہمارے پاس اخلاقی مینڈیٹ ہے حالانکہ سرکار بنانے کے لئے ضروری نمبر نہیں ہے اس لئے ہم جنتا سے معلوم کررہے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ ایک دوسرے نیتا منیش سسودیا نے کہا ہمارا مقصد سرکار بنانے کا نہیں ہم چار لوگ ا ایک کمرے میں فیصلہ لے لیں ہمارے لئے جنتا کا فیصلہ ہی سرتسلیم ہے ۔ صحیح معنوں میں یہی جمہوری ڈھھنگ ٹھیک بھی ہے اگر اکثریت میں جنتا ہمیں حکوم دے گی تو ہم سرکار بنائے گے صرف ایک بار جنتا کو چناؤ کا موقع دے کر کامیاب لیڈروں کے فیصلے ان پر تھوپنا ٹھیک نہیں ہے ادھر بدھوار کو عام آدمی پارٹی کنوینر اروندر کیجریوال نے کہا کہ وہ شخصی طور سے دہلی میں مشترکہ سرکار کے خلاف ہے لیکن پارٹی کے اندر اس معاملے پر اختلاف کے بعد ہم نے دہلی کی جنتا سے رائے شماری کرانے کافیصلہ کیا ان کاکہنا ہے کہ وہ عوام کے فیصلہ کا احترام کریں گے چاہے وہ پارٹی کے لئے ہو

آخر کار لوکپال بل کیلئے انا کا خواب پورا ہوا

46 سالوں کی کوششوں کے بعد آخر کار دیش کو اب ایک تاریخی لوکپال قانون مل گیا ہے۔ راجیہ سبھا میں پہلے ہی بل کو پاس کردیا تھا اور بدھ کو لوک سبھا نے بھی لوکپال و لوک آیکت بل 2013 کو صوتی ووٹ سے پاس کردیا۔ سماجوادی پارٹی کو چھوڑ کر باقی دیگر پارٹیوں خاص کر بھاجپا لیفٹ، بسپا وغیرہ نے بل کی حمایت کی ہے۔بل کا احتجاج کررہی سپا کے ممبران ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔2011ء میں جب انا ہزار اسی لوکپال کو لیکر دہلی کے رام لیلا میدان میں انشن پر بیٹھے تھے تبھی لگنے لگا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب سرکار اور سیاسی پارٹیوں کو عوام کی مانگ کو ماننا پڑے گا۔ آج اگر یہ قانون بننے جارہا ہے تو اس کا سہرہ انا ہزارے کو جاتا ہے۔ یہ انہیں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ کانگریس بھاجپا نے بھی اس کی حمایت کرکے اچھا کیا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں کانگریسی ایم پی اور پارلیمنٹری سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین ستیہ ورت چترویدی کو نہیں بھولنا چاہئے اور ان کی تعریف کرنا سیاسی پارٹی بھی نہ بھولیں۔ اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی نے کہا کہ دو سال پہلے 27 دسمبر2011 کو اس سرکار نے لوکپال بل پر کنی کاٹ لی تھی۔ جیٹلی نے کہا بل پر عام رائے بنانے کے لئے سلیکٹ

امریکہ کی داداگری اب بھارت کو قبول نہیں!

یہ پہلا واقعہ نہیں جب امریکہ کے ذریعے کسی ہندوستانی کو بے عزت کیا گیا ہو۔ یہ پہلی بار نہیں جب اپنے کسی ڈپلومیٹ کے نازیبہ برتاؤ کی وجہ سے بھارت کو نیچا نہیں دیکھنا پڑا ہو۔ نیویارک میں بھارت کی ڈپٹی ناظم العمور دیویانی کھوبرا گڑھے پر الزام ہے کہ انہوں نے نوکرانی کے ویزا درخواست میں جعلسازی کی اور امریکی قانون کے مطابق تنخواہ بھتے ، چھٹیاں وغیرہ نہ دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ نہ صرف غیر انسانی تھا اور بھارت کو بے عزت کیا گیا جو کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں۔ اپنی بچی کو اسکول چھوڑنے جارہی آئی ایف ایس افسر دیویانی کو امریکی پولیس نے پکڑ لیا اور کپڑے اتروا کر تلاشی لی۔ بدسلوکی کا سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ اس کو جیل میں نشیڑیوں اور خطرناک قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا اور طوائفوں کے ساتھ قطار میں کھڑا کیا گیا۔ وہ اپنی بچی کو اسکول سے لانے کی دہائی دیتی رہی مگر امریکی پولیس نے نہیں سنی۔ اب سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا بھارت دیش کی نمائندگی کرنے والی کسی افسر کے ساتھ قانونی کارروائی کا یہ عمل جائز ہے؟ دوسرا سوال انسانی حقوق کا جھنڈا اٹھانے کا دعوی کرنے والے امریکہ یہ غی

کبھی نہ ختم ہونے والے اروند کیجریوال کے ڈرامے!

دہلی کے باشندے ان دنوں چوطرفہ مسائل سے گھرے ہوئے ہیں۔ ایک تو دہلی میں بڑھتا کوہرا، صبح شام چھایا رہتا ہے کہ گھروں سے نکلنا دشوار ہوگیا ہے۔ جہازوں کی پروازیں منسوخ ہورہی ہیں۔ ٹرین منسوخ ہورہی ہیں یا گھنٹوں لیٹ چل رہی ہیں۔ مہنگائی پچھلے14 ماہ میں اپنی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئی ہے۔رہی سہی کثر کیجریوال اینڈ کمپنی نے اپنے ڈراموں سے نکال دی ہے۔ کانگریس کی بنا شرط حمایت کے بعد بھی ’آپ‘ پارٹی ڈرامہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ دہلی میں سرکار نہیں بن پارہی ہے۔ مشکلوں کے باوجود مرکز ی سرکار دہلی میں صدر راج لگانے میں جلد بازی میں دکھائی نہیں پڑتی اور وزارت داخلہ میں سرکار بنانے کے لئے متبادل پر غور خوض جاری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے سرکار بنانے سے ابھی تک انکار نہیں کیا ہے بلکہ صلاح مشورہ کرنے کے لئے اور وقت مانگا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا دہلی میں جلد صدر راج لگانے کی کوئی آئینی مجبوری نہیں ہے۔ 10 دسمبر کو صدر نے کامیاب ممبران اسمبلی کی فہرست کو نوٹی فائی کر دیا ہے۔ اس سے اسمبلی وجود میں آگئی ہے۔ ان کے مطابق دہلی میں

علماؤں کا انتہا پسندی و دہشت گردی کے خلاف فتویٰ لائق خیر مقدم!

ہم جمعیت العلمائے ہند کے ذریعے بلائی گئی سہ روزہ عالمی امن کانفرنس کی تعریف کرتے ہیں۔ رام لیلا میدان میں منعقدہ اختتامی ریلی میں سب سے زیادہ نمائندے پاکستان سے آئے تھے۔ دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش، انگلینڈ، نیپال، سری لنکا، مال دیپ، میانمار کے نمائندے موجود تھے۔ شروعات کے دو دن تک یہ کانفرنس دارالعلوم دیوبند میں ہوئی اور ایتوار کو اس کا اختتام دہلی کے رام لیلا میدان میں ہوا۔ اختتام کے دن کئی اتفاق رائے سے ریزولوشن پاس ہوئے مگر سب سے خاص تھا دہشت گردی کی جم کر مذمت کرنا اور ا س کے خلاف ایک آواز میں فتویٰ جاری کرنا۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب بھارت اور اس کے پڑوسی ملکوں کے اسلامی علماء دہشت گردی کے خلاف ایک اسٹیج پر جمع ہوکر ایک رائے پر متفق ہوئے۔ کانفرنس کی صدارت دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور جمعیت العلماء ہند کے صدر مولانا محمد سید عثمان منصوری نے کی تھی اور اس کو چلانے کا کام جمعیت العلماء ہند کے سابق ایم پی اورجنرل سکریٹری محمود اسد مدنی نے کی۔ فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نہ صرف تباہی ہورہی ہے بلکہ یہ پوری طرح سے اسلام کے خلاف ہے۔ پاکستان جمعیت العلمائے اسلا

آپ کی سنئے اناکورووں کے ساتھ ہیں:لوکپال بل پر اختلافات

لوکپال بل کے لئے ایک ساتھ تحریک چھیرنے والے انا ہزارے اور اروند کیجریوال کی اسی بل کو لیکر اختلافات سامنے آگئے ہیں یا یوں کہیں کہ اسکو لیکر دونوں میں ٹھن گئی ہے۔ اس کے پہلے بل راجیہ سبھا میں اتفاق رائے سے پاس ہو جس کے آثار اب بن گئے ہیں، عام آدمی پارٹی اور انا ہزارے کے درمیان تلخ بحث چھڑی ہوئی ہے۔ آپ نے تو لوکپال اشو پر خود کو پانڈو اور انا کو ایک طرح سے سنگھ سے جوڑ کر کورووں کا ساتھ دینے والا بتادیا۔ انا مرکزی سرکار کے لائے گئے لوکپال بل کی جہاں حمایت کررہے ہیں وہیں کیجریوال اسے اب جوگپال(مذاقیہ بل) بتا رہے ہیں۔ آپ پارٹی کے بڑبولے لیڈر کمار وشواس نے انا کے رخ پر فیس بک پر لکھا مہا سمر میں کبھی کبھی ایسا وقت آتا ہے جب بھیشم پتاما کے مون اور گورو درون کے سنگھاسن سے متفق ہوجانے پر بھی ٹکراؤ کے راستے پر چل کر پانچ پانڈوں کو جنگ جاری رکھنی پڑتی ہے۔ آپ پارٹی جنگ جاری رکھے گی۔ اسی درمیان اروند کیجریوال نے پھرموجودہ لوکپال کو جوگپال بتاتے ہوئے کہا کہ اس بل سے منتری تو چھوڑیئے چوہا بھی جیل نہیں جاسکے گا۔ اس بل سے کرپشن نہیں روکے گا بلکہ یہ بدعنوانوں کو بچانے کا کام کرے گا۔ دوسری طرف انا ہز

ہم جنسی جرم یا حق؟

جنسی رشتوں کو جائز ٹھہرانے والے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے پلٹ کر اس مسئلے پر وسیع بحث اور توجہ مرکوز کردی ہے۔ جہاں ایک طرف ترقی پسند کہے جانے والے طبقے نے اسے خوش آئین قراردیا ہے وہیں مذہبی تنظیموں وا طفال حق کے لئے کام کررہیں انجمنوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صاف کہا ہے کہ جب تک آئی پی سی کی دفعہ370 وجود میں ہے جنسی استحصال و رشتوں کو قانونی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ اگر پارلیمنٹ چاہے تو اس پر بحث کرکے مناسب فیصلے لے سکتی ہے۔ دیش کی سپریم عدالت نے دہلی ہائی کورٹ کے سال2009 کے فیصلے کو ٹال دیا۔ 1861 کے اس قانون کو نہ صرف جائز قراردیا بلکہ ہندوستانی معاشرے اور مذہبی جذبات کا بھی حوالہ دیا ہے۔ اصل میں جنسی رشتوں کو جائز قراردینے والی دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے پر بہت سی مذہبی اور کلچر تنظیموں نے چنوتی دی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے یوگ گورو بابا رام دیو نے کہا کہ میں اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ہم جنسی انسانیت حق کی خلاف ورزی ہے اور غیر فطری ہے۔ یہ ایک دماغی شرارت کا حصہ ہے جس کا علاج ہے۔ بابا رام دیو نے ہم جنسی کو جینی

آخر کب ملے گا نربھیہ کو انصاف؟

16 دسمبر 2012ء کی وہ سردی کی رات سڑک کنارے بغیر کپڑوں کے پڑے پیرا میڈیکل کی طالبہ و اس کا دوست وہ سین آنکھوں کے سامنے ابھی بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہوگا۔ شاید ہو کبھی اسے بھول پائیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ کل ہی کو تو بات ہے۔ نربھیہ ٹریجڈی کو ایک سال ہوگیا ہے لیکن اس سال میں کیا بدلا؟ بیشک کئی سیکٹروں میں جیسے بہتر پولیسنگ عورتوں کی حفاظت کے لئے اٹھائے گئے اقدام، قانون وغیرہ وغیرہ میں ضرور تبدیلی آئی ہے لیکن درندگی میں کمی نہیں آئی۔ دیش کو ہلا دینے والی وسنت وہار گینگ ریپ کی واردات اور اس کے بعد اٹھائے گئے قدموں کے باوجود ہ دہلی والے نہیں سدھر پائے ہیں۔ دہلی میں اس کے بعد بہت سے بدفعلی کے واقعات ہوئے ہیں جن کی تعداد پچھلے ریکارڈ توڑ گئی ہے۔ یہ جان کار حیرانی ہوگی کہ نربھیہ معاملے کے بعد دہلی میں بدفعلی کے واقعات دوگنا ہوئے ہیں جبکہ چھیڑ خانی کے معاملوں میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ روزانہ تین چار ایسے واقعات، پانچ سات چھیڑ خانی کے کیس درج ہوتے ہیں۔ دوسری طرف اہم بات یہ بھی ہے کہ پہلے جہاں عورتیں لڑکیاں اپنے ساتھ ہوئی ذیادتی کی شکایت سے کترایا کرتی تھیں اور بچتی تھیں وہیں اب وہ اپنے ساتھ ہو

دہشت گردوں پر کیس واپس نہیں لے سکتی اکھلیش حکومت!

یہ دکھ کی بات ہے کہ اترپردیش کی سماجوادی حکومت کو عدالتی جھاڑ سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور انہیں ان کی کوئی پرواہ بھی نہیں۔ اکھلیش سرکار کو اکثر پھٹکاریں لگتی ہی رہتی ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے جہاں دہشت گردی کے واقعات میں ملزمان پر مقدمے چل رہے ہیں ان کو واپس لینے کو لیکر یہ جھاڑ لگائی گئی وہیں سپریم کورٹ نے مظفر نگر اور شاملی فسادات کے بعد راحت کیمپ میں رہنے والے 39 بچوں کی موت کے معاملے میں تشویش جتاتے ہوئے یوپی سرکار کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیمپ میں رہنے والوں کے لئے سردی کے پیش نظر تمام سہولیات مہیا کرائے۔ چیف جسٹس پی ۔سداشیوم اور جسٹس رنجن گوگئی کی بنچ نے معاملے کو بیحد سنجیدگی سے لیتے ہوئے کہا بچوں کی موت کے سلسلے میں میڈیا رپورٹ کی سچائی کا پتہ لگایا جائے۔ دوسرا کرارا جھٹکا الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعے19 لوگوں کے خلاف دہشت گردی کے معاملے واپس لینے کے اس کے فیصلے کو منسوخ کرنا ، ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف مرکزی دفعات کے تحت معاملے درج ہوئے ہیں اس لئے مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر ریاستی سرکار معاملے واپس نہیں لے سکتی۔ جسٹس دیوی پرساد سنگھ، جسٹس

تیسری بار ڈاکٹر ہرش ودھن کے ہاتھ سے چیف منسٹر کی کرسی پھسلی!

اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے میری رائے میں بی جے پی نے دہلی میں مینڈیٹ کو ایک طرح سے انکار کردیا ہے۔بی جے پی کے سی ایم امیدوار ڈاکٹر ہرش وردھن نے لیفٹیننٹ گورنر کو آگاہ کردیا ہے کہ ان کی پارٹی کیونکہ اکثریت میں نہیں ہے اس لئے سرکار بنانے میں لاچار ہے اور انہوں نے دہلی کے شہریوں سے سرکار نہ بناپانے کے لئے معذرت کی اور کہا کہ صدر نے لیفٹیننٹ گورنر کو صاف ہدایتیں دی ہوئی ہیں کہ سرکار بنانے کا دعوی پیش کرنے والی پارٹی کو 7 دن کے اندر ایوان میں اکثریت ثابت کرنی ہوگی کیونکہ بھاجپا کے پاس اکثریت نہیں ہے تو وہ بھلا کیسے سرکار بنا سکتی ہے۔ سیاست میں نمبر اور شفافیت و صاف ستھری ساکھ کی دہائی دیتے ہوئے انہوں نے کہا بھاجپا کسی دیگر پارٹی میں توڑ پھوڑ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور نہ ہی ایسی سرکار میں۔ بھاجپا نے وسیع معیار اور اونچے سیاسی پیمانے تو قائم کردئے ہیں لیکن آئے ہوئے اقتدار کو ٹھکرادیا۔ دہلی میں 15 سال اپوزیشن میں بیٹھنے کے بعد شاید بی جے پی کو بیٹھنے کی عادت سی ہوگئی ہے ۔ یہ ہی تو فکر ہے کانگریس اور بی جے پی میں ۔ کانگریس تو اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتی چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا

دہلی کی جنتا کے مینڈیٹ کی توہین کررہے ہیں کیجریوال!

یہ ٹھیک ہے اسمبلی چناؤ میں دہلی کی عوام نے کانگریس سرکار کے خلاف منفی مینڈیٹ دیا ہے اور ساتھ ہی ووٹ دیا ہے لیکن ووٹ دیتے وقت یہ نہیں سوچا کہ کانگریس کی جگہ کون لے گا؟ اگر وہ عام آدمی پارٹی کو اکثریت دے دیتے یا بھاجپا کوچار پانچ سیٹیں زیادہ دے کر جتاتے آج دہلی میں سیاسی شش و پنج کے حالات نہ دیکھنے پڑتے۔ آج سبھی پریشان ہیں جو جیتا ہے وہ بھی اور جو ہارا ہے وہ بھی۔ اسمبلی چناؤ میں کسی کو اکثریت نہ دے کر چناؤ جیتے ممبران اسمبلی کو تو الجھن میں ڈال دیا ہے ساتھ ہی وہ امید وار بھی کم پریشان نہیں جو چناؤ ہار گئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے جیتے ہوئے امیدواروں میں کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کو جیت کے بعد ان کے حمایتی جب مبارکباد دینے آتے ہیں تو ان کے پاس چائے پلانے کے لئے پیسہ تک نہیں ہے۔وہ امیدلگائے بیٹھے ہیں کہ ’آپ‘ پارٹی سرکار بنائے اور انہیں اقتدار کا ذائقہ لینے کو ملے گا۔ جو ہارے ہیں انہیں یہ پریشانی ستا رہی ہے کہ انہیں دوبارہ ٹکٹ ملے گی یا نہیں؟ سیاسی گلیاروں میں بڑی پارٹیاں سرکار بنانے کو لیکر گیند ایک دوسرے کے پالے میں ڈال رہی ہیں۔ بھاجپا نے تو لیفٹیننٹ گورنر کو لکھ کر دے دیا ہے کہ وہ سرکار ن

لال، نیلی بتی اسٹیٹس سمبل بن گئی ہے!

دیش کو آزاد ہوئے ساڑھے چھ دہائی گزر چکی ہیں لیکن انگریزوں اور سامنت شاہی کی علامت لال بتی کے رتبے کا چلن آج بھی چل رہا ہے۔ لال یا نیلی بتی والی گاڑیوں میں چلنا ایک اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے جو ہمیں سامنتی کلچر کی یاد دلاتا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے سپریم کورٹ نے ایسی حکم دیا ہے جس سے عام شہری کو راحت اور خوشی محسوس ہوگی۔ حالانکہ اس کو لیکر سپریم کورٹ نے ناراضگی جتائی ہے۔ ویسے یہ پہلا موقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ دونوں مرکز اور ریاستی سرکاروں کو لال بتی اور سائرن والی گاڑیوں کے بیجا استعمال پر جھاڑ پلا چکی ہے ۔ اب اس نے ہدایت دی ہے کہ گاڑیوں میں لال بتی کا استعمال آئینی اور اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو ہی کرنا ہوگا۔ ان میں صدر ، وزیر اعظم، کیبنٹ وزیر،کچھ سینئرافسر اور کچھ سینئر جج آتے ہیں۔ اس حکم کو سختی سے نافذ کرنے کے لئے سپریم کورٹ نے کہا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ریاستی سرکاریں اس فہرست میں بدلاؤ نہیں کرسکتیں ۔ یعنی منمانی ڈھنگ سے لال بتی نہیں بانٹ سکتیں۔ اب تک ہوتا رہا ہے کہ ہر ریاستی سرکار اتنی فراغ دلی سے لال بتی بانٹتی تھی کہ تقریباً ہر سیاسی رسوخ والا آدمی چھوٹا بڑا

شکست کے بعدکانگریس میں اندر اور باہر لیڈر شپ پر اٹھے سوال!

جیسا کہ میں نے اسی کالم میں اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ چار ریاستوں میں کراری ہار سے کانگریس کے اندر اور اس کے ساتھیوں میں لیڈر شپ کے خلاف بغاوتی آوازیں اٹھنے لگیں گی۔ ویسا ہی اب دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آخر ہار کی ذمہ داری کسی کو تو لینی پڑے گی اس سے بھی زیادہ اہم شاید یہ ہے کہ 2014ء کے عام چناؤ کے لئے کانگریس کی قیادت کون کرے گا؟ پہلے بات کرتے ہیں کانگریس کے اندر اس شرمناک ہار کے بعد اٹھی بغاوت کی آوازیں۔ اگر ہم دہلی سے شروع کریں تو سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت نے ہار کی سب سے بڑی وجہ پارٹی کے سینئر لیڈروں سے تعاون نہ مل پانے کو بتایا۔ان کا اشارہ صاف طور پر دہلی پردیش کانگریس کے پردھان جے پرکاش اگروال کی جانب ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دہلی اسمبلی چناؤمہم میں اکیلی شیلا جی ہی دن رات ریلیوں میں تقریر کرتی نظر آئیں۔ اس کے پیچھے جے پرکاش اور شیلا جی کے درمیان کافی عرصے سے 36 کا آنکڑا بھی ایک وجہ تھی۔ جے پرکاش کا کہنا تھا کہ شیلا جی ہمیشہ اپنی مان مانی کرتی تھیں اور کہیں بھی انہوں نے انہیں ساتھ لینے کی کوشش نہیں کی۔ راجستھان سے بھی اشوک گہلوت حمایتی اب کھل کر نائب صدر راہل گاندھی پر یہ کہتے ہوئے الزام لگ

حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھاجپا کی جیت کیامودی فیکٹر کو جاتی ہے؟

چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتیجے آنے کے بعد اب یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا یہ نتائج بی جے پی کے پی ایم اِن ویٹنگ نریندر مودی کی لہر کی وجہ سے آئے ہیں یا پھر اس کا سہرہ ان چار ریاستوں کے موجودہ وزرائے اعلی اور اِن ویٹنگ وزرائے اعلی کو جاتا ہے؟ یہ سوال اس لئے اٹھا ہے کیونکہ نریندر مودی نے ان چار ریاستوں میں زور دار طریقے پر چناؤ مہم میں حصہ لیا لیکن ایکطرفہ جیت تین ریاستوں میں ملی۔ چوتھی ریاست دہلی جہاں مودی نے بہت محنت کی۔ پارٹی اکثریت تک نہیں لاسکی۔ یہ ہی نہیں بلکہ دہلی میں تو پارٹی کا ووٹ فیصد پچھلے اسمبلی چناؤ سے بھی گھٹ گیا؟ سب سے پہلے تو ہمارا خیال ہے کہ لوک سبھا چناؤ نہیں جہاں مودی کی مقبولیت کا امتحان ہونے والا ہے یہ اسمبلی انتخابات ہیں جو ریاستی سرکاروں کی کارگزاری، ساکھ، وزیر اعلی کی مقبولیت ، مقامی اشوز پر لڑا گیا نہ کے نریندر مودی کی شخصیت پر لڑا گیا۔ کانگریس تو یہ کہے گی کہ بی جے پی مودی کی لہر کی وجہ سے نہیں کامیاب ہوئی۔ مدھیہ پردیش کے جوتر ادتیہ سندھیہ نے ریاست میں بی جے پی کی جیت کا سہرہ مودی کے سر باندھنے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جیت کی اصلی وجہ مودی نہی