اشاعتیں

مئی 22, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مودی حکومت کے دو برس۔ کچھ کٹھے کچھ میٹھے نتائج

وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی ا ین ڈی اے سرکار دو سال پورے ہونے پر ان دنوں خوب جائزے ہورہے ہیں مودی سرکار نے 26مئی 2014 کو حلف لیاتھا۔ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مودی حکومت کے بارے میں عام رائے یہی سامنے آئی ہے کچھ بے شک چناوی وعدے پورے کرنے میں بھلے ہی اس حکومت کاریکارڈ بہت مثبت نہ رہا ہوں لیکن عام طور پر عوام کی نظروں میں اس کی ساکھ ایک سرگرم اور نیک نیت بنی ہے۔ کچھ میڈیا ہاؤس کی اس حکومت کی بخیہ اُدھیڑ رہے ہیں تو کچھ تعریفیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں مودی حکومت کے دو سال پورے ہونے پر سبھی وزراء اپنے اپنے کارنامے گنا رہے ہیں لیکن یہ کہنا ہوگا کہ بے شک اس حکومت نے بہت سی ترقیاتی اسکیمیں شروع کی ہیں اس کا نتیجہ بھی آئے گا لیکن ان اسکیموں کے نتائج آنے میں وقت لگتا ہے کئی سال لگیں گے مثبت نتائج آنے میں۔ دوسری طرف ہمیں یہ کہنے میں قباحت نہیں ہے کہ سابقہ حکومت نے جنتا کی عادتیں خراب کردی ہیں۔ عوام اب بغیر محنت کئے اور بغیر انتظار کئے نتیجہ چاہتی ہیں زیادہ تر عوام کو روٹی روزی سے مطلب ہیں۔ وہ مہنگائی سے نجات پانا چاہتی ہے۔ سلامتی چاہتی ہے۔ روزگار چاہتی ہے۔ وہ بھی فوراً ان سیکٹروں میں مودی سرک

کئی معنوں میں تاریخی ہے مودی کا ایران دورہ

وزیر اعظم نریندر مودی کا ایران دورہ بیحد کامیاب رہا۔بھارت اور ایران کے درمیان سمجھوتہ ہماری ڈپلومیسی میں ایک نیا باب جوڑنے والے ہیں۔ بھارت اور ایران نے آتنک واد ، شدت پسندی اور سائبر اسپیس سے مل کر سوموار کو نپٹنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم کے ایران دورہ کے دوران ہوا چاہ بہاربندرگاہ کو ترقی دینے سے متعلق سمجھوتہ دوطرفہ تعلقات کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر بھی بیحد اہم ہے۔ یہ چین کے ذریعے پاکستان میں گوادر بندرگاہ سے ہوکر بنائے جارہے بھاری بھرکم معاشی گلیارے کا جواب ہو یا نہ ہو اس سے افغانستان تک پہنچنے کیلئے بھارت کو پاکستان پر نربھر رہنے کی ضرورت پوری طرح سے ختم ہوجائے گی۔اس طرح بھارت سیدھے وسطی ایشیا اور روس تک بھی اپنی پہنچ بنا سکے گا۔ امریکہ کے ترچھے تیور کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کا ایران دورہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ہم دھیرے دھیرے آزادانہ سوچ پر مبنی ایک متوازن ڈپلومیسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ کسی سے چھپا نہیں ہے کہ گذشتہ کچھ سالوں میں ہماری سیاست پر امریکی اثر بہت کچھ زیادہ ہی گہرا دکھائی دینے لگا تھا۔ بھارت کے ساتھ ایران کے رشتے ہمیشہ سے اچھے رہے ہیں ل

کرکٹ، پیار اور فکسنگ کی کہانی ’’اظہر‘‘

’بھاگ ملکھا بھاگ‘ اور’ میریکام‘ کے بعدڈائریکٹر بایوپک فلموں پر ہاتھ آزمارہے ہیں۔ بلیو اور باس جیسی مسالہ ایکشن فلمیں بنانے والے ڈائریکٹر ٹونی ڈیسوزہ کی انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے مشہور بلے باز محمد اظہر الدین پر بنی فلم کو دیکھنے کے لئے میں بے چین تھا اور میں نے دیکھی بھی۔ امید تھی کہ اس بار ہمیں ایک شاندار بایوپک دیکھنے کو ملے گی اور پتہ چلے گا کہ اظہر پر میچ فکسنگ کے الزامات کی سچائی کیا ہے؟ لیکن فلم دیکھنے کے بعد ایسا لگا کہ ڈائریکٹر ڈیسوزہ نے محمد اظہر الدین کے اسی رخ کو ہی اپنی فلم کا حصہ بنایا جو اظہر شاید اپنے فینز کے ساتھ شیئر کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اظہر سے جڑے کئی سنگین حصوں کو فلموں میں شامل کرنے کی کوشش نہیں کی جو میرے جیسے فلم بین دیکھناچاہتے تھے۔شاید یہی اس فلم کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔ شروع سے آخر تک فلم اظہر کے کردار میں نظر آرہے عمران ہاشمی پر ٹکی ہے اور انہوں نے ایمانداری سے یہ کردار نبھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اظہر کا رول کرنے کے لئے عمران نے یقینی طور پر بڑی محنت کی ہوگی۔ قریب 5 مہینے تک کرکٹ کی باریکیاں سیکھیں اور کرکٹ گراؤنڈ میں جاکر پسینہ بہایا۔ عمران نے اظہر

امریکہ نے اسامہ کی طرح منصور کو پاک میں گھس کر مارڈالا

اسامہ بن لادن کی طرح کی پاکستانی فوج کی ناک کے نیچے رہے افغان طالبان چیف اختر منصور کو امریکہ نے مار گرانے میں زبردست کامیاب پائی ہے۔ ایتوار کو افغانستان کی خفیہ ایجنسی نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی نے منصور کے مارے جانے کی جانکاری دی۔ اس سے پہلے پینٹاگن نے منصور کو مارنے کا اعلان کیا تھا۔ منصور پاکستان کے چھاؤنی شہر کوئٹہ میں چھپا ہوا تھا اور اس کا ایک دوسرا ساتھی سنیچر کو ہمارے ڈرون حملہ میں اس وقت مارا گیا جب وہ پاکستان کے کوئٹہ میں گاڑی میں کہیں جارہا تھا۔ پینٹاگن کے مطابق امریکی ایجنسی کچھ وقت سے منصور پر نظر رکھ رہی تھیں۔ اس فوجی کارروائی کی اجازت اور ڈرون حملہ کی منظوری خود امریکی صدر براک اوبامہ نے دی تھی۔ منصور اختر کے مارے جانے سے آتنکی تنظیم طالبان کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں امن عمل کے لئے یہ بڑی کامیابی مانا جارہا ہے۔ افغانستان میں پیدا ہوا منصور 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان کے ممبر کے طور پر تنظیم میں شامل ہوا تھا۔منصور نے ملا عمر کی موت کے بعد پچھلے سال جولائی میں افغان طالبان کی کمان سنبھالی تھی۔ ملا عمر کا معاون رہ چکے منصور کو طالبان کے دیگر

انوراگ کے نوجواں کندھوں پر بی سی سی آئی کی ذمہ داری

بھاجپا میں ٹائیگر کے نام سے مشہور نوجوان ایم پی انوراگ ٹھاکر نے بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کے اعلی عہدے پر پہنچ کر یہ مثال پیش کردی ہے کہ ’’پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں‘‘ دنیا کی سب سے بڑی طاقتور کرکٹ انجمن کی کمان اب41 سالہ انوراگ ٹھاکر کے ہاتھ میں ہے ۔ جو اس چھوٹی سی ریاست ہماچل پردیش سے تعلق رکھتے ہیں جو ابھی تک صرف سیب ریاست کی شکل میں ہی زیادہ مشہور تھا۔ بی سی سی آئی کے چیئر مین بنے انوراگ کی میعاد 2017 ء تک رہے گی۔ وہ بھاجپا کے پہلے ممبر پارلیمنٹ ہیں جو یہ عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ انوراگ بورڈ کے دوسرے سب سے کم عمر کے چیئرمین ہیں۔ ان سے پہلے 1963ء میں فتح سنگھ گائکوارڈ نے33 سال کی عمر میں یہ عہدہ سنبھالا تھا۔ بی سی سی آئی کے چیئرمین ششانک منوہر کے استعفے کے بعد یہ عہدہ خالی ہوا تھا۔ ابھی جتنی ان کی عمر ہے(41 سال) اتنی عمر میں تو لوگ کرکٹ میدان میں ہی سرگرم رہتے ہیں لیکن انہوں نے میدان کی جگہ باہر بیٹھ کر کھیل کا مستقبل بہتر بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ سپریم کورٹ کے ذریعے مقرر جسٹس آر ایم لوڈھا کمیٹی کی بورڈ میں اصلاح کے لئے انقلابی سفارشیں نافذ کرنے کی بات کہی ہے۔ اس

دہلی میں جنگل راج: ہائی کورٹ کے سخت ریمارکس

جو تبصرہ بہار کے سلسلے میں کبھی پٹنہ ہائی کورٹ نے کیا تھا ویسے ہی ریمارکس دہلی ہائی کورٹ نے راجدھانی دہلی کے بارے میں دئے ہیں۔ دہلی میں خواتین کی سلامتی کو لیکر جاری سماعت کے دوران دہلی ہائی کورٹ نے مرکز اور دہلی حکومت پر سخت رائے زنی کی۔ ہائی کورٹ نے کہا یہ حالات جو جنگل راج والے ہیں ایسے میں کوئی بھی چاہے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ عدالت ہذا نے کہا کہ راجدھانی میں جرائم پر قابو پانے کے لئے دہلی پولیس نے فاضل پولیس فورس کی تقرری وزارت داخلہ کررہی ہے اور وزارت مالیات منع کررہی ہے۔ ایسے میں ہم جاننا چاہتے ہیں ایسے میں ہم جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت کا رخ کیا ہے؟ اس پر مرکزی حکومت کی جانب سے وکیل نے کہا کہ اس بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو جلد ہی اپنی رپورٹ سونپے گی۔ عدالت نے کہا دہلی پولیس کے مطابق قریب 11 ہزار نمونے جانچ کے لئے فورنسک لیب میں رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے چھان بین متاثر ہوگی۔ اسے لیکر کوئی (مرکز اور دہلی حکومت) بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ کیا آپ (مرکز کے وکیل) یہ چاہتے ہیں کہ ہم کہیں کہ دیش کی حکومت کو دہلی کے لوگوں کی سلامتی کی کوئی فکر نہیں ہے؟ ہم آپ کو نرمی کیساتھ یہ بتا رہے ہیں لیکن

امر۔ بینی کی گھر واپسی : ملائم کے ایک تیر سے کئی نشانے

اندرونی مخالفت کے باوجود 6 سال بعد امر سنگھ کو راجیہ سبھا کیلئے نامزد کر سماجوادی پارٹی کے سربراہ نے ایک تیر سے کئی نشانے لگانے کی کوشش کی ہے۔ یہ فیصلہ چونکانے والا اس لئے بھی تھا کیونکہ پارٹی سے معطل امر سنگھ کی پارٹی میں باقاعدہ واپسی نہیں ہوئی ہے اور ملائم سنگھ کے ساتھ ان کی نزدیکی کے علاوہ ایسا کوئی اشارہ نہیں تھا جس سے سماجوادی پارٹی نے ان کی گھر واپسی کے اشارے ملتے۔ امر سنگھ کے نام پر اعظم خاں نے جم کر مخالفت کی تھی۔ ہوا بھی وہی جس کا اندیشہ تھا۔ امر سنگھ کو پارٹی میں پھر سے اینٹری ملی اور ادھر اعظم خاں و پروفیسر رام گوپال یادو نے ناراضگی ظاہر کردی۔ اعظم خاں یہ کہنے سے نہیں چوکے کے آخر پارٹی تو ملائم سنگھ کی ہی ہے۔ اعظم خاں اور رام گوپال نے پارلیمانی پارٹی بورڈ کی میٹنگ بیچ میں ہی چھوڑدی اور جاری سپا کی لسٹ میں ان بلڈر سنجے سیٹ کا نام بھی ہے جنہیں کئی کوششوں کے بعد پارٹی ایم ایل سی نامزد نہیں کرواسکی تھی۔ امرسنگھ کے نام پر اعظم خاں کا اعتراض اور رام گوپال یادو کی خاموشی اختیار کرلینا بتاتا ہے کہ پارٹی چیف کے فیصلے کو مان لینے کے سوا دوسرا متبادل نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ امر سنگھ کو

پانچ ریاستوں کے نتائج سے بھاجپا اور علاقائی پارٹیوں کی طاقت بڑھی ہے

پانچ ریاستوں میں اسمبلی چناؤ کے جو مینڈیٹ آئے ہیں اس سے دو تین باتیں سامنے آجاتی ہیں پہلی یہ کہ ان انتخابات میں کانگریس اوندھے منہ گری ہے۔ بھاجپا کا کانگریس مکت ابھیان کافی حد تک کامیاب ہوتا نظر آرہا ہے۔ جہاں کبھی کانگریس سال 2000 ء میں 15 ریاستوں میں حکمرانی کرتی رہی وہیں یہ گھٹ کر صرف6 چھوٹی ریاستوں تک سمٹ گئی ہے۔ پوڈوچیری اور بہار کو ملا دیں تو 8 ریاستوں میں کانگریس حکومت رہ گئی ہے۔ کانگریس دیش کی صرف15.6 فیصدی آبادی پر ہی راج کررہی ہے جبکہ یہ 50 فیصدی سے زیادہ میں حکمرانی کیا کرتی تھی۔ اس پر سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ وائرل ہوا ہے جس میں جملہ لکھا ہے ’’سونیا ۔ راہل ہم تم ایک جنگل میں بیٹھے ہوں اور مودی آجائے۔۔۔‘‘ حقیقت میں 5 ریاستوں میں چناؤ نتیجوں پر یہ طنز صحیح اترتا ہے۔ آسام میں کرسی چھنی، مودی نے قبضہ کرلیا۔ چائے بیچنے والے نے تو چائے باغانوں پر ہی قبضہ کرلیا۔ کیرل میں بھی لیفٹ نے قبضہ کرلیا۔ مغربی بنگال میں اپنی سیاسی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے ممتا بنرجی کے آفر کو ٹھکرا کر لیفٹ کے ساتھ اتحاد کرلیا۔ اب وہاں نہ تو لیفٹ ہی بچا ہے اور نہ کانگریس، کیا اسے کانگریس مکت بھارت کی شروعات