اشاعتیں

جنوری 6, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

لانس نائک ہیمراج و سدھاکر سنگھ جیسے بہادر کبھی نہیں مرتے!

ترنگے میں لپٹا گھر لوٹا شیر گڑھ کا شیر لانس نائک ہیمراج کے کوسی کلاں(متھرا) گاؤں والوں نے اپنے شہید کو یہ ہی پیغام دیا۔ خبر آنے کے بعد سے ہی روکتی بلکتی ماں مینا دیوی بیٹے کی لاش گھر پہنچتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ پہلے میرے بیٹے کا سر لاؤ۔ فوج کے جوان دو گھنٹے تک دھاڑ دھاڑ کر یہ ہی کہتی مینا دیوی کو خاموش کرنے میں لگے رہے۔ آخر میں فوج کے جوانوں نے ہیمراج کی لاش کو چتا پر لٹایا تو گاؤں کے باقی لوگ بھی آگئے اور مینا دیوی کی آواز بن گئے۔ سبھی نعرے لگا رہے تھے کہ شہید کا سر چاہئے، صاحب ایک بار پھر آدیش دے دو،دو دو ہاتھ کرنے کے لئے پھر دیکھو ہم ان کا کیا حال کرتے ہیں۔ انہوں ننے ہمارے دو ساتھیوں کو بے رحمی سے مارا ہے ہم ان کی پوری بٹالین کو موت کی نیند سلانے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ بس ایک بار حکم دے دو۔۔۔ غصے میں بھرے ان خیالات کا اظہار سرحد پر تعینات 13 راجپوتانہ رائفلز ریجمنٹ کے جوانوں کے ہیں۔ وہ بار بار اپنے حکام سے یہ ہی درخواست کررہے تھے۔ بدلے کی آگ میں اس قدر جھلس رہے ہیں کہ انہوں نے دو دن سے کھانا تک نہیں کھایا۔ وہ بھوک ہڑتال پر ہیں اور یہ ہی کہہ رہے ہیں جب تک بدلہ نہیں لے لیں

آئیے ملئے مجلس اتحاد المسلمین کے ممبر اسمبلی اویسی سے!

آج ہم آپ کا تعارف مجلس اتحاد المسلمین کے ممبر اسمبلی اکبرالدین اویسی سے کرواتے ہیں۔ آندھرا پردیش اسمبلی میں اپنی پارٹی کے لیڈر 22 سالہ اویسی پر چار مینار علاقے میں واقع بھاگیہ لکشمی مندر کے جھگڑے کو لیکر بھڑکیلی تقریریں کرنے کا الزام ہے۔ اسے لیکر ان کے خلاف دیگر معاملے بھی ہیں۔ حیدر آباد اور دیگر مقامات پر ان کے خلاف کیس درج ہوا ہے۔ دراصل حیدر آباد میں اولڈ سٹی میں قریب40 سال سے بھی زیادہ سے اویسی خاندان کا سیاسی دبدبہ بنا ہوا ہے۔ صلاح الدین اویسی کے ذریعے شروع کردہ مجلس اتحاد المسلمین پارٹی نے حیدر آباد اولڈ سٹی کو اپنا گڑھ بنا رکھا ہے۔صلاح الدین اویسی کی سیاسی وارثت کو ان کے دونوں بیٹے اسدالدین اور اکبرالدین اویسی سنبھالے ہوئے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ حیدر آباد کے پرانے شہر سے ایم آئی ایم ہمیشہ کم سے کم 7 مسلم ممبران اسمبلی کو جتا کر ودھان سبھا میں بھیجتی رہی ہے۔ لیکن ممبر پارلیمنٹ صرف اویسی خاندان کے ہی ہوتے ہیں۔ اکبرالدین کی بھڑکیلی تقریروں کو میں نے سنا اور میرے رونکٹے کھڑے ہوگئے۔ میں ان جناب کو پہچانتا نہیں اس لئے میں نے پہلے سوچا کے شاید یہ پاکستان میں لشکر طیبہ کا مقرر بھارت ک

بند کرو یہ’ امن کی آشا ‘اور بھائی چارے کی بات

ہم تو پاکستان کی طرف امن کا ہاتھ بڑھاتے نہیں تھکتے اور ہر بار جواب میں ہمیں بربریت اور غیر انسانی برتاؤ پاکستان کی جانب سے جواب میں تحفے کی شکل میں ملتا ہے۔ وہ بھارت ہمارے مہمان بن کر آتے ہیں اور ہمارے گھر میں ہی ہمیں گالیاں دے کر چلے جاتے ہیں۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ یہ ’امن کی آشا‘ جیسے بے تکے ایک طرفہ پروگرام کب تک برداشت ہوتے رہیں گے؟ ایک بار پھر پاکستان کی بربریت اور ظالمانہ چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔ پاکستان کے قریب15 فوجی منگل کو ہندوستانی سرحد میں واقع کونچ کے مینڈھر سیکٹر میں قریب100 میٹراندر تک گھس آئے۔ انہوں نے یہاں ہندوستانی گشتی پارٹی پرحملہ بول دیا اور دو بھارتیہ جوانوں کوگلا کاٹ کر مار ڈالا۔ انہوں نے ان کی لاشیں ادھر ادھر پھینک دیں۔ ایک فوجی کا سر بھی حملہ آور اپنے ساتھ لے گئے۔ کارگل حملے (1999) کے بعد یہ ممکنہ پہلا موقعہ ہے کہ جب پاکستانی فوج نے اس طرح سے ہندوستانی سرحد میں دراندازی کی ہے۔حال ہی میں پاکستان فوج نے کیپٹن کالیا سے غیر انسانی اور بربریت برتاؤ کی بات کئے جانے کے معاملے کو ان کے والد نے اٹھایا تھا۔ پاکستان نے تب بھی اس کی تردید کی تھی اور اب بھی وہی کررہے ہ

16 دسمبر کا حادثہ آٹو و ڈی ٹی سی بس نہ ملنے کے سبب ہوا

16 دسمبر کی رات کو وسنت وہار میں جو آبروریزی کی واردات ہوئی اس کی ایک خاص وجہ دہلی میں ان آٹو رکشا والوں کی منمانی اور تاناشاہی اور پبلک ٹرانسپورٹ جس میں خاص کر بسیں شامل ہیں، کی ناکامی ذمہ دار مانی جاسکتی ہے۔ وہ بدقسمت لڑکی انامیکا اور اس کا دوست ان آٹو رکشا والوں سے گڑگڑاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہمیں ہماری منزل پر لے چلو، لیکن ایک بھی آٹو والا تیار نہیں ہوا۔ رات کو اکثر یہ ہی دیکھا گیا اول تو آٹو والا جہاں آپ جانا چاہتے ہیں وہاں جانے کو تیار نہیں ہوتا اور اگر تیار ہوتا بھی ہے تو اتنے اناپ شناپ پیسے مانگتا ہے کے آپ اس کے لئے تیار ہی نہیں ہوسکتے۔ رہا سوال بسوں کا تو سرکار اور انتظامیہ بھلے ہی دعوے کچھ کرے لیکن رات10 بجے کے بعد ایک آدھ ہی بس ملتی ہے۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ نہ تو ان آٹو والوں پر کوئی لگام کسی جارہی ہے اور نہ ہی بسوں کے نظام کو بہتربنانے میں ٹھوس قدم اٹھایا جارہا ہے۔ ٹرانسپورٹ قواعد کو طاق پر رکھ کر تمام روٹوں پر چلنا آج زیادہ تر آٹو چالکوں کی روز مرہ کی عادتوں میں شمار ہوگیا ہے۔ ایسے میں مسافروں کو بیحد دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ ہزاروں آٹو چالک ا

آسا رام کہاں کا سنت ہے؟ یہ تو خطرناک بہروپیاہے

دہلی میں درندگی اور اس کے بعد پیدا ناراضگی پر بیشک بیانات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ آندھرا پردیش پردھان بودساستیہ نارائن اور صدر کے صاحبزادے ابھیجیت مکرجی اور مدھیہ پردیش کے بھاجپا وزیر کیلاش وجے ورگیہ سمیت آدھا درجن سے زائد لیڈروں کی زبان مریادا کو بھول چکی ہے اس کڑی میں اب اپنے آپ کو خود ساختہ روحانی گورو کہنے والے آسا رام باپو کا نام بھی جڑ گیا ہے۔ کہنا ہوگا اسبات تو انہوں نے حد ہی کردی اور لکشمن ریکھا تک پار کرڈالی۔ اب سنئے اپنے آپ کو سنت کہنے والا یہ بہروپیا کیا کہتا ہے۔ جب لڑکی نشے میں چور چھ لوگوں کے چنگل میں پھنس گئی تھی تو اسے بھگوان کا نام لے کر کسی ایک کا ہاتھ پکڑ کر کہنا چاہئے تھا میں آپ کو اپنا بھائی مانتی ہوں۔ اس کے بعد ان کے پیڑ پکڑتی تو اس کے ساتھ ایسا حادثہ نہیں ہوتا۔ غلطی ایک طرف سے نہیں ہوتی ہے اگر لڑکی دھارمک ریتی رواج کو ماننے والی ہوتی تو وہ اس بس میں چڑھتی ہی نہیں۔ آسا رام باپو کے اس بے تکے بیان کی چوطرفہ نکتہ چینی ہونا فطری ہی تھا۔ ان کے بیان کو لیکر لوگوں میں زبردستی ناراضگی ہے۔ آسا رام باپو کے بیان سے متاثرہ لڑکی کے والد بہت مایوس ہیں۔ بلیا میں

مسلمانوں میں 4 شادیوں کے مسئلے پر مولوی اور عدالت آمنے سامنے

اسلام بھلے ہی 4 بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہو لیکن کن حالات میں یہ شادی ہوگی، اسے لیکر عدالت اور مولویوں کی الگ الگ رائے ہے۔ ایک لڑکی سے زبردستی شادی شدہ شخص سے نکاح کرانے کے معاملے میں ملزم مولوی کی پیشگی ضمانت کو خارج کرتے ہوئے روہنی کی ایڈیشنل سیشن جج کامنی لا نے کہا شرعی قانون ایک سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت تو دیتا ہے مگر خاص حالات میں۔ قرآن اس طرح کے ٹرینڈ کو بڑھاوا دینے کا کام نہیں کرتا۔ جسٹس کامنی لانے مولوی مصطفی رضا کو ضمانت دینے سے انکارکرتے ہوئے اسکی اپیل کو بھی خارج کردیا جس میں اس نے کہا تھا شرعی قانون شخص کو ایک ہی وقت میں 4 شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے ہندوستان میں شرعی قانون کے تحت کسی مسلم شخص کو دوسرا نکاح کرنے سے پہلے پہلی بیوی کے بیمار ہونے یا بچہ پیدا نہ کرسکنے جیسے حالات میں اجازت دی جاسکتی ہے۔ ایسے میں پہلی بیوی کی رضامندی پر شخص دوسری شادی کرسکتا ہے۔ جسٹس کامنی لا نے کہا بہت سے مسلم ملکوں میں جیسے ترکی، تیونس میں ایک سے زیادہ شادی کرنے پر روک لگائی جارہی ہے۔ وہاں پر اسے غیرقانونی قراردیا گیا ہے۔ ایسے میں بھارت جیسے جمہوری ملک میں اس طرح کی ک

دہلی پولیس اپنی جوابدہی سے نہیں بچ سکتی!

یہ بہت دکھ کی بات ہے جو دہلی پولیس عوام کے ساتھ ہونے کا دعوی کرتی ہے آج سب سے بڑے گنہگار کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج پولیس کی وردی کا کسی کو خوف نہیں رہا۔ اس کی ایک وجہ ہے پولیس محکمہ میں بڑھتا کرپشن۔ لگتا تو اب یہ ہے کہ پولیس والے یہ بھول چکے ہیں کے ان کی ڈیوٹی کیا ہے؟ کس مقصد سے انہوں نے پولیس کی نوکری جوائن کی تھی؟ اگر مقصد جنتا کو لوٹ کر اپنا گھر بھرنا ہے تو ٹھیک ہے لیکن میںآج بھی مانتا ہوں کہ سبھی پولیس والے ایسے نہیں۔ وہ ایمانداری سے نہ صرف خدمت کرتے ہیں بلکہ سسٹم میں اتنی خرابی آچکی ہے کہ محکمے میں ان کا دم گھٹنے لگا ہے۔ زیادہ تر پولیس ملازم پولیس جوائن کرنے پر لئے گئے حلف کو بھی بھول چکے ہیں۔ وہ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ وہ عوام کی سیوا کے لئے لگائے گئے ہیں ناکہ عوام کو حیران و پریشان کرکے لوٹنے کے لئے۔ وسنت وہار اجتماعی آبروریزی معاملے میں ایک واحد چشم دید گواہ و شکایت کنندہ (لڑکی کا دوست) نے کچھ ایسے سوال کھڑے کردئے ہیں جس سے پولیس کے محکمے کے کام کرنے کے طور طریقوں کا پتہ چلتا ہے۔ پولیس محکمے نے بوکھلاہٹ میں لڑکی کے دوست کے الزامات کا جواب تو دیا لیکن وہ یہ

اب درندوں کو بھی ستانے لگا پھانسی کا پھندہ!

جرائم پیشہ میں خوف پیدا کرنا ضروری ہے۔ قانون کا خوف نہ ہونے کے ہم منفی نتیجے دیکھ رہے ہیں۔ جب ان درندوں کو سزا کا خوف ہونے لگے گا تبھی ان کے سدھرنے کا چانس بنتا ہے۔ خوف کی تازہ مثال ہمارے سامنے آگئی ہے۔ وسنت وہار گینگ ریپ کے درندوں کو اب اپنے جان کی فکر ستانے لگی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایتوار کو دو ملزمان نے عدالت میں سرکاری گواہ بننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ دراصل قارئین کو بتادیں کہ سرکاری گواہ بننے کا مطلب اور فائدہ کیا ہوتا ہے؟ قانوناً جو کوئی سرکاری گواہ بنتا ہے اسے سزا سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ سرکاری گواہ بننے والا شخص اگر جیل میں ہوتا ہے تو ٹرائل کی میعاد کے دوران اسے جیل میں گذارا گیا وقت ہی اس کے لئے سزامانی جاتی ہے۔ اگر کسی کو ضمانت مل گئی ہے تو ضمانت سے پہلے گذارا گیا وقت ہی اس کی سزا مان لی جاتی ہے اور بدلے میں وہ اپنے ساتھی جرائم پیشہ کے خلاف گواہی دے کر پولیس کو جرم ثابت کرنے میں مدد کرتا ہے۔ سرکاری گواہ بننا کسی بھی ملزم کے لئے سوچی سمجھی چال ہوتی ہے تاکہ سزا کے وقت عدالت اس پر نرمی برتے۔ سرکاری گواہ بنے ملزمان کو عموماً کم سزا ہوتی ہے۔ سنیچر کو ساکی

مہلاؤں سے زیادتی میں اترپردیش نے ریکارڈ توڑا

ہمارے سماج کو کیا ہوتا جارہا ہے۔ نہ مریاداؤں کا پالن اور نہ ڈسپلن اور نہ ہی تشدد کا ٹرینڈ کچھ بھی تو نہیں پچ رہا۔پچھلے کچھ دنوں سے آبروریزی کے واقعات کا سیلاب سا آگیا ہے۔ وردی و قانون کا خوف تو ختم ہی ہوگیا ہے۔ سارے دیش میں وسنت وہار گینگ ریپ پر بحث اور مظاہر ے ہورہے ہیں اور یہ آبروریزی کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ دہلی میں ہوئی درندگی کے معاملے میں ابھی عدلیہ نے کام شروع ہی کیا ہے کہ دہلی سے ملحق نوئیڈا میں ایک دلت لڑکی کو اغوا کرکے اس کے ساتھ بدفعلی اور قتل کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ نوئیڈا میں کمپنی سے ڈیوٹی کرنے کے بعد جمعہ کو یہ لڑکی گھر لوٹ رہی تھی، اگلے دن یعنی سنیچر کی صبح گھر کے پاس اس کی نیم برہنہ لاش جھاڑوں سے ملی۔ جسم پر ناخون سے کھرونچ کے نشان تھے۔ لڑکی کے والد نے بدفعلی کے بعد قتل کی رپورٹ درج کرائی ہے۔ اس سے پہلے پولیس نے معاملہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی درج کرنے کی بات کہی تھی لیکن ممبر پارلیمنٹ اور عوامی غصے کے چلتے اسے آبروریزی کی دفعہ کے تحت معاملہ درج کرنا پڑا۔ متوفی لڑکی 21 سال کی ہے ۔ ڈاکٹروں کے مطابق لڑکی کی موت دم گھٹنے سے ہوئی ہے جس کی ایک وجہ گلا

آر ایس ایس کو’’پپو‘‘ بھاجپا پردھان کی تلاش

بھاجپا میں صدر کے عہدے کولیکر کی گئی پارٹی آئین میں ترمیم کے بعد سے زیادہ تر بڑی ریاستوں و علاقائی منڈلوں کے ذریعے دوسری میعاد کی چاہت بھاجپا کے لئے بڑی مشکل بنتا جارہا ہے۔ پارٹی کے سینئر ذرائع کی مانیں تو پارٹی کے لئے اہم کئی ہندی بولنے والی ریاستوں جیسے بہار، راجستھان، چھتیس گڑھ، اترانچل میں تنظیم کے بڑے عہدوں پر بیٹھے لیڈر ہر ممکن کوشش میں لگیں ہیں کہ نتن گڈکری کو بھی آرایس ایس پردھان کی طرح دوسری میعاد دے دی جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کیا یہ طے ہوگیا ہے کہ موجودہ پردھان کو قومی صدر کے عہدے کے لئے کلین چٹ مل گئی ہے؟ پارٹی ذرائع کا کہنا ہے اتفاق رائے کے بعد ہی نیا پردھان طے ہوگا۔ مذہبی مانیتاؤں کے مطابق مکر سکرانتی سے سوریہ دیو کے اتردشا میں داخل ہونے کے بعد ہی اچھے کام شروع ہوتے ہیں۔ اس لئے مانا جارہا ہے بھاجپا اسی دن کا انتظار کررہی ہے۔ بھاجپا لیڈر شپ یا آر ایس ایس کو پردھان کے لئے نتن گڈکری کا متبادل نہیں مل رہاہے۔ بھاجپا پر اپنی پکڑ بنائے رکھنے کے لئے آر ایس ایس نے پپو پردھان کی تلاش شروع کردی ہے لیکن سنگھ کی مشکل یہ ہے کہ وہ جس پارٹی کے لیڈروں کو سب سے زیادہ پسند کررہا ہے وہ خود