اشاعتیں

مارچ 12, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

فتوؤں سے ڈرنے والی نہیں ہوں، گاتی رہوں گی:ناہید

ایک بار پھر ان مولویوں کے فتوؤں کی سیاست زیر بحث ہے۔ آسام میں کچھ کٹر پسند مولویوں نے انڈین آئیڈیل جونیئر میں رنراپ رہی 16 سالہ لڑکی گلوکارہ ناہید آفرین کے خلاف تازہ فتویٰ جاری کیا گیا ہے۔ اس کے خلاف 46 مولویوں ، انجمنوں اور لوگوں کے نام جاری فتوے میں کہا گیا ہے کہ ناہید انڈین آئیڈیل کے فائنل سے دور رہیں۔ ایسے پروگرام نئی پیڑھی کو تباہ کریں گے۔ اس طرح کے منورنجن کے پروگرام جاری رکھے گئے تو اللہ کا قہر نازل ہوگا۔ جادو، رقص، ناٹک، تھیٹرشریعت کے خلاف ہیں اور اس کی خلاف ورزی کر مسجد ،عیدگاہ، مدرسوں اور قبرستان سے گھرے میدان میں میوزیکل نائٹ کا انعقاد کیا گیا تو لوگوں پر اللہ کا قہر ٹوٹ پڑتا ہے۔ ناہید آفرین نے حال ہی میں سوناکشی سنہا کی فلم ’اکیرا‘ کے لئے پلے بیک سنگنگ دے چکی ہیں۔ابھی25 مارچ کو آسام میں ناہیدکا میوزیکل شو ہونا ہے۔ فتوے پر ناہید نے کہا کہ موسیقی اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اس میں شایدخدا کی سوغات ہے اور میرا خیال رہے کہ اس کا صحیح طریقے سے استعمال ہونا چاہئے۔ ایسا کرنا خدا کو نظرانداز کرنا ہوگا۔ میرے والد کا کہنا ہے ہمارے مذہبی پیشواؤں نے کہا ہے کہ میرے گانے میں کوئی برائی نہیں

خود تو ڈوبے صنم تمہیں بھی ساتھ لے ڈوبے

اترپردیش میں کانگریس کا 27 سال کا سیاسی بنواس اگلے کچھ برسوں کے لئے بڑھ گیا ہے اور اقتدار میں واپسی کے لئے کئے گئے تمام تجربے الٹے ثابت ہوئے۔ پردیش میں پہلی بار کانگریس اپنی کم از کم تعدا د پر پہنچ گئی ہے۔ چناؤ کے نتیجوں سے صاف ہے کہ جنتا کو اکھلیش اور راہل کا یہ ساتھ پسند نہیں آیا۔ دونوں کے ساتھ کو جنتا نے سرے سے مسترد کردیا۔ پہلے سے ہی صوبے میں ہچکولے کھا رہی کانگریس کی کشتی کو گٹھ بندھن نے اور ڈوبا دیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سماجوادی پارٹی کے ساتھ مل کر کانگریس اپنے گڑھ رائے بریلی اور امیٹھی تک کو نہیں بچا سکی۔ دونوں ہی ضلعوں میں کانگریس کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ سال2012ء کے چناؤ میں کانگریس نے آر ایل ڈی کے ساتھ مل کر چناؤ لڑا تھا ۔ اس وقت کانگریس کو28 سیٹیں ملی تھیں جبکہ اس باراس کی حالت یوپی کی تاریخ میں سب سے زیادہ پتلی ہوگئی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد نے کانگریس صوبے میں 114 سیٹوں پر اپنی قسمت آزما رہی تھی۔ زیادہ تر جگہ کانگریس امیدواروں کو جنتا نے مسترد کردیا۔ اس بار کے چناؤ میں کانگریس دو تہائی کا نمبر حاصل نہیں کرپائی۔ اسے مانا 7 سیٹیں ہی ملی ہیں۔ کانگریس کی پوزیش

بھنور میں پھنستی کانگریس

کبھی اپنے بیکوم آپریشن اور بہترین مینجمنٹ کیلئے جانی جانے والی کانگریس پارٹی کے ستارے ہی گردش میں چل رہے ہیں۔ جیتی ہوئی بازی کیسے ہاری جاتی ہے یہ کوئی کانگریس سے سیکھے۔ تازہ مثال ہے گووا۔ یہاں اسمبلی چناؤ میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کے بعد بھی کانگریس آج اقتدار سے باہر ہے اور کرسی دیکھتے دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے پھسل گئی۔ گووا میں کانگریس سے سیٹیں کم پانے کے باوجود بھاجپا نہ صرف وہاں سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی بلکہ ان تمام پارٹیوں کوبھی اپنی طرف لانے میں کامیاب رہی جو بی جے پی کی مخالفت کرکے ہی چناؤ جیتے تھے۔ کانگریس اپنے خراب مینجمنٹ ، حکمت عملی کی خامیوں اور آپسی گروپ بندی کے چلتے گووا میں چوک گئی۔ اتنا ہی نہیں اپنی خراب حکمت عملی کے چلتے پارٹی کو سپریم کورٹ سے الگ پھٹکار لگی۔ سرکار نہ بن پانے کی ایک بڑی وجہ گووا کانگریس کے بڑے نیتاؤں میں سی ایم کے عہدے کو لیکر بحث اور کھینچ تان اور گروپ بندی ہے۔ نتیجہ آنے کے بعد پردیش کے انچارج دگوجے سنگھ نے اسمبلی پارٹی کے نیتا کو لیکر میٹنگ کی اس میں سابق وزیراعلی پرتاپ سنگھ رانے ،دگمبر کامت، رویش نائک اور موجود ہ کانگریس پردیش پردھان لوئی

یوپی میں کھسکتی مسلم نمائندگی

اترپردیش میں مسلمانوں کے حق کی بات کرنے والی سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی اس برادری کے ووٹوں کو لیکر آپسی کھینچ تان ،قوم کی نمائندگی پر بھاری پڑ گئی ہے جس کے چلتے اس بار اسمبلی چناؤ میں اب تک کی تاریخ میں سب سے کم 27 ممبران اسمبلی ہی جیتنے میں کامیاب ہوسکے ہیں جبکہ اترپردیش اسمبلی کی 147 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹر کسی بھی پارٹی کے امیدوار کی ہار جیت کا فیصلہ کرنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 2014ء کے لوک سبھا میں پردیش کے مسلمانوں کی نمائندگی صفر ہونے کے بعد اب اسمبلی میں نمائندگی کم از کم نمبروں تک پہنچ گئی ہے۔ ریاست کی سیاست میں مسلمانوں کا رول اہم ہے۔ کبھی کانگریس جس طبقے کے ووٹوں کو اپنی تھالی سمجھا کرتی تھی، منڈل کمنڈل کے دور میں سپا ۔بسپا نے نئی سیاسی گول بندی کا سلسلہ شروع کیا اور مسلمانوں کو اس میں شامل کیا جس سے اس طبقے کی نمائندگی بڑھنی شروع ہوئی۔ 1996ء میں 39 مسلمانوں کو ایم ایل اے کی ممبری ملی تھی۔  2002ء میں یہ تعداد 44 ہوئی اور 2007ء میں یہ 56 پہنچی اور 2012ء کے اسمبلی چناؤ میں ریکارڈ 68 مسلم ممبران منتخب ہوئے مگر 2014ء کے لوک سبھا چناؤ میں سیاسی ماحول اس انداز میں

اتنی بڑی جیت سے تو دنیا بھی حیرت میں ہے

اترپردیش اور اتراکھنڈ میں چناؤ جیتنے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی اب دیش کے 14 راجیوں تک پہنچ گئی ہے۔ 8 ریاستوں (اترپردیش، اتراکھنڈ، گجرات، ہریانہ، چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش اور آسام) میں بھاجپا کی مکمل اکثریت والی سرکار ہے۔جبکہ 6 ریاستوں (جموں وکشمیر، مہاراشٹر، اروناچل پردیش، آندھرا پردیش، ناگالینڈ ) میں اتحادی حکومت ہے۔ صدر پرنب مکھرجی کی عہدہ میعاد اس سال جولائی میں پوری ہوجائے گی ایسے میں چناؤ ممکن ہے۔ صدارتی چناؤ میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ممبران کے علاوہ سبھی ریاستوں کے ممبران اسمبلی ووٹ ڈالتے ہیں۔ سنیچر کو آئے 5 ریاستوں کے چناؤ نتائج میں بھاجپا کی رہنمائی والی این ڈی اے کو اترپردیش اور اتراکھنڈ میں بھاری اکثریت ملی ہے۔ ایسے میں ان دونوں ریاستوں کے ممبران صدارتی چناؤ میں بڑا رول نبھائیں گے۔ ان چناؤ نتائج کا آگے چل کر راجیہ سبھا میں بھی بڑا فرق پڑے گا۔ مودی سرکار کے لئے اب اپنے بوتے پر بل پاس کروانے کی پریشانی دور ہوجائے گی۔ اترپردیش اور پنجاب سمیت پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ دہلی کی سیاست کو بھی متاثر کریں گے۔ اس کا سیدھا اثر اگلے مہینے ہونے والے ایم سی ڈی چناؤ پر بھی پ

نہ مسلم آئے نہ دلتوں نے پوری حمایت دی:بسپا کا وجود داؤں پر

پچھلے چناؤ میں دلت ،برہمن سوشل انجینئرنگ کا فارمولہ فیل ہونے کے بعد بہوجن سماج پارٹی کو اب دلت مسلم گٹھ جوڑ بھی کوئی گل نہیں کھلا سکا۔ ہاتھی کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں۔ نتیجوں سے صاف ہے کہ مسلمان تو پارٹی کے ساتھ آئے نہیں بلکہ دلت ووٹوں کی مضبوط دیوار بھی ڈھے گئی اور پچھڑوں نے بھی پارٹی سے کنارہ کرلیا ہے۔ پانچ برس پہلے جہاں بسپا کو 80 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی وہیں لوک سبھا چناؤمیں صفر کے بعد پارٹی اب اسمبلی چناؤ میں بھی اوندھے منہ گر کر 19 سیٹوں پر ہی سمٹ گئی ہے اور ڈھائی دہائی والی سابقہ پوزیشن میں پہنچ گئی ہے۔ ’سرووجن ہتائے ،سروو جن سکھائے ‘ کا نعرہ دے کر 10 برس پہلے یوپی میں اکثریت کی سرکار بنانے کے بعد سے بسپا کا گراف گرتا چلا گیا۔پارٹی نے دلت ، برہمن سوشل انجینئرنگ کو چھوڑ کر اس چناؤ میں دلت ۔ مسلم تجزیئے پر کارڈ کھیلا تھا اور 97 مسلمانوں کو ٹکٹ دئے تھے۔ چناؤ سے ٹھیک پہلے انہوں نے انصاری بندھوؤں کو ہاتھی پر سوار کرانے کے ساتھ ہی 3 اور ٹکٹ مسلمانوں کو دے دئے۔ ایک دہائی پہلے وہ چناؤ میں 61 مسلمانوں کو ٹکٹ دینے والی مایاوتی نے پچھلی مرتبہ85 پر مسلمان اتارے تھے جبکہ اس بار تو ریکارڈ ہی تو

جسٹس کرنن : نہ سپریم کورٹ میرا مالک ، نہ ہائی کورٹ ان کا نوکر

سپریم کورٹ نے جمعہ کو ایک اہم ترین حکم میں کلکتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس سی۔ ایس۔ کرنن کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیا۔ یہ پہلا موقعہ ہے جب ہائی کورٹ کے کسی موجودہ جج کے خلاف ضمانتی وارنٹ جاری ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جے۔ ایس ۔کھیر کی رہنمائی والی سات نفری ججوں کی آئینی بنچ نے مغربی بنگال کے ڈی جی پی کو وارنٹ تعمیل کروانے کو کہا ہے۔ جسٹس کرنن کو 31 مارچ صبح 10:30 بجے سپریم کورٹ میں پیش کرنا ہوگا۔ یہیں پر توہین عدالت معاملے میں اپنا موقف رکھنے کے ساتھ ہی 10 ہزارروپے کا مچلکہ بھر کر وہ ضمانت لے سکیں گے۔ دوسری طرف جسٹس کرنن نے وارنٹ کو غیر آئینی و دلت مخالف قدم قراردیا ہے۔ انہوں نے تلخ انداز میں کہا کہ نہ تو سپریم کورٹ میرا مالک ہے اور نہ ہی ہائی کورٹ اس کا نوکر ہے۔انہوں نے کہا میرا کیریئر بربادکرنے کے لئے جان بوجھ کر یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں جسٹس کرنن کہا میں نے 20 ججوں اور 1 سابق پی ایم کے خلاف شکایت کی تھی۔ اسی سبب میرے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ شروع کیا گیا۔ ایک آئینی ادارہ دوسرے آئینی ادارے کے راستے میں روڑا نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دلت ہونے کی وجہ سے وہ مج

یوپی میں مسلمانوں کے ایک طبقہ نے کھل کر بھاجپا کو ووٹ دیا

اسلامی مرکز دارالعلوم دیوبندجس کو دنیا میں منی مکہ اور یوپی کاسب سے بڑا روحانی مرکز مانا جاتا ہے وہاں بھاجپا نے دیو بند سمیت سہارنپور کی چاروں سیٹیں جیت کر سب کو چونکادیا ہے۔ خاص کر دیو بند میں جیت اس کی بڑی کامیابی مانی جارہی ہے۔ یہاں پر بھاجپا21 سال بعد پھر سے واپسی میں کامیاب ہوئی ہے۔ دلت۔ مسلم اتحاد کا تجزیہ بٹھانے میں جٹی بسپا یہاں کھاتہ بھی نہیں کھول پائی جبکہ سہارنپور کو اس کا گڑھ مانا جاتا تھا۔ دیوبند کی بات کریں تو اس سے پہلے بھاجپا کو یہاں 1996ء میں کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ اب یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس بار یوپی اسمبلی چناؤ میں مسلمانوں نے کھل کر بھاجپا کو ووٹ دیا ہے خاص کر مسلم خواتین نے۔ کیا تین طلاق پر مرکزی سرکار کے موقف نے مسلم خواتین کو بھاجپا کو ووٹ دینے کے لئے مائل کیا ہے؟ 30 فیصدی سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقوں میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی زیادہ پولنگ اور 9 علاقوں میں بھاجپا کی جیت سے یہ امکانی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔حالانکہ سوال ہوسکتا ہے زیادہ پولنگ کرنے والی عورتیں مسلمان تھیں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب صرف ’’بھرپور‘‘ ہے۔ سیاسی پارٹیوں ،سماجی اداروں