اشاعتیں

جون 16, 2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

تھینک یو پردھان منتری جی !

مہاوکاس اگھاڑی کے نیتاو¿ں کی سنیچر کو ممبئی میں میٹنگ ہوئی اس میں لوک سبھا چناو¿ میں ملی کامیابی اور آنے والے مہاراشٹر اسمبلی چناو¿ کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا ۔اس دوران پارٹی نیتاو¿ں نے بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی پر جم کر تنقید کی اور کہا کہ ہم ایم وی اے کے واسطے سیاسی ماحول کو بہتر بنانے کے لئے وزیراعظم نریندر مودی کاشکریہ اداکرتے ہیں ۔حال ہی میں ہوئے لوک سبھا چناو¿ میں کانگریس نے 13 سیٹیں جیتی تھی جو 2019 میں ریاست میں جیتی گئیں محض 1 سیٹ سے کافی بڑی چھلانگ ہے ۔جبکہ شیو سینا ،ادھوٹھاکرے کو 9 ، این سی پی شردپوار کو 8 سیٹیں ملیں ۔یو وی ٹی چیف ادھو ٹھاکرے نے سنیچر کہا کہ یہ صرف شروعات ہے ۔اپوزیشن اتحاد نے آنے والے اسمبلی چناو¿ کو بھی جیتنے کا تحیہ کر لیا ہے ۔این وی اے میں شیو سینا ادھو ٹھاکرے اور کانگریس اور این سی پی شامل ہیں ۔تینوں پارٹیوں نے اس سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی چناو¿ کیلئے حکمت عملی بنانے کے لئے یہ میٹنگ کی تھی ۔ادھو نے ممبئی میں ایم وی اے کی اتحادی پارٹیوں کے نیتاو¿ں شردپوار اور کانگریس اور پرتھوی راج چوہان کیساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی ۔ادھو ٹھاکر

پہلی بار چناوی سیاست میں قدم رکھیں گی !

کانگریس سیکریٹری جنرل پرینکا گاندھی واڈرا کیرل کی وائناڈ لوک سبھا سیٹ سے چناو¿ لڑیں گی یہ پہلی بار ہے جب پرینکا گاندھی سیدھے طور پر چناوی دنگل میں اترنے جارہی ہیں ۔گاندھی نہرو پریوار کی چوتھی پیڑی کی ممبر پرینکا اب تک کانگریس کے لئے سرگرم طور سے چناو¿ کمپین چلاتی رہی ہیں حالانکہ 2019 میں ان کے سرگرم سیاست میں داخل ہونے کے بعد سے ہی بنارس میں وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف ان کے چناوی میدان میں اترنے کی چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئی تھیں لوک سبھاچناو¿ میں راہل گاندھی وائناڈ اور رائے بریلی دونوں سیٹ سے کامیاب ہوئے تھے اس کے بعد انہوں نے وائناڈسیٹ چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور وہاں سے اب پرینکا کو چناوی میدان میں اتارنے کا فیصلہ لیا ہے ۔حالانکہ اس بار 52 سالہ پرینکا کو امیٹھی سیٹ سے اتارنے کی زور شور سے بحث چلی تھی جو گاندھی پریوار کی اپنی روایتی سیٹ ہے لیکن آخری وقت میں گاندھی پریوار کے بھروسہ مند کشوری لال شرما کو امیٹھی سے کانگریس کا امیدوار بنایا گیا ۔انہوں نے مرکزی وزیر شریمتی اسمرتی ایرانی کا زبردست شکست دی ۔وائناڈ سے امیدوار بنائے جانے کے بعد پرینکا نے کہا کہ میں بالکل نروس نہیں ہوں میں وائن

مودی کی جیت کا فرق انتا کم کیوں ہوا ؟

بنارس میں نریندر مودی کی جیت کا فرق محض 1 لاکھ 52 ہزار تک سمٹ جانے کا تذکرہ نہیں ہو رہا ہے مودی کی جیت کا اتنا فرق کم تب رہا جب درجن بھر مرکزی وزرا نے بنارس میں ڈیرا ڈالا ہوا تھا ۔2019 میں مودی بنارس سے 4 لاکھ 80 ہزار ووٹوں سے جیتے تھے ۔کئی لوگوں کا خیال ہے کے اس بار اگر کانگریس ،سپا بنارس میں زیادہ سنجیدگی سے چناﺅ لڑتی تو مودی کو ہرایا جا سکتا تھا ۔راہل گاندھی نے بھی رائے بریلی میں کہا کے اگر وہ مودی کے خلاف میری بہن پرینکا گاندھی کو کھڑا کرتے تو وہ چناﺅ میں 2-3 لاکھ کے فرق سے کامیاب ہو جاتیں یعنی کانگریس بھی اس بات کو مان رہی ہے ۔اس نے بنارس میں مودی کے قد کے مقابلے میں مضبوط امیدوار نہیں اتارا تھا ۔پچھلے کئی بار سے کانگریس امیدوار اجے رائے چناﺅ ہار رہے تھے اس لئے کانگریس نے اس بار بھی انہیں کو اتارا تھا ۔بنارس کے اس گنگا گھاٹ کی سیڑھیوں پر جیسے جیسے چھایا رہتی ہے ویسے ویسے آس پاس کے ملاح اپنے اپنے گھروں سے نکل کر سیڑھیوں پر پیٹھ جاتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کے لوگ آئیں گے اور کشتی سے گنگا ندھی کی سیر کریں گے ۔شام ڈھلنے کے ساتھ گوری شنکر نشات کی مایوسی اور بڑھنے لگتی ہے کہوں کے کوئی

اسپیکر کے عہدے کو لیکر سیاسی سرگرمیاںتیز ہوئیں!

لوک سبھا اسپیکر کے چناﺅ کو لیکر سیاسی سرگرمیاں تیز ہو گئیں ہیں ۔مانا جا رہا ہے کے تیلگو دیشم اسپیکر کا عہدہ چاہتی ہیں این ڈی اے میں شامل جے ڈی یو نے اسپیکر کے عہدے کے لئے بھاجپا امیدوار کی ہمایت کی بات کہی ہے ۔وہیں شیو سینا ادھوٹھاکرے کے نیتا سنجے روات نے اتوار کو کہا کے اگر حکمرا اتحاد میں شامل تیلگودیشم پارٹی لوک سبھا اسپیکر کے عہدے کے لئے امیدوا ر کھڑا کرتی ہے تو اپوزیشن اتحاد انڈیا کے سبھی ساتھی ان کی حمایت یقینی کرنے کے کوشش کریں گے ۔ادھر سابق لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے کہا لوک سبھا کا نیا اسپیکر کون ہوگا اس کا فیصلہ سیاسی پارٹیاں مل کر کریں گی ۔اس کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور اس کام میں ان کا کوئی رول نہیں ہے ۔راوت نے میڈیا سے بات چیت میں یہ دعویٰ کیا کے لوک سبھا اسپیکر کا چناﺅ اہم ہوگا اور اگر بھاجپا کو یہ عہدہ ملتا ہے تو وہ اسکار کی حمایت کرنے والی پارٹیوں ٹی ڈی پی ،جے ڈی یو چراگ پاسوان و جینت چودھری کی سیاسی پارٹیوں کو توڑ دیگی اور انہوںے دعویٰ کیا کے ہمےں تجربہ ہے کے بھاجپا ان لوگوں کو دھوکہ دیتی ہے جو اس کی حمایت کرتی ہیں شیو سینا این سی پی کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ان

مودی جی کی بڑھتی چنوتیاں

مودی جی جوڑ توڑ کی وجہ سے تیسری بار وزیر اعظم بن گئے ہیں لیکن ان کے چیلنج ختم نہیں ہو رہے ہیں۔ جلدی میں مودی جی نے بی جے پی کے پارلیمانی بورڈ کی باضابطہ میٹنگ بلائی جس میں پاٹا کے لیڈر کا انتخاب کرنا ہے۔ این ڈی اے کی میٹنگ بلائی اور خود کو وزیر اعظم قرار دیا۔ لیکن اس سے مودی جی کے چیلنجز کم نہیں ہوئے۔ آج وہ کئی محاذوں پر حملوں کی زد میں ہے۔ آج ہم صرف دو محاذوں پر بات کریں گے۔ پہلا، بی جے پی کے اندر سے آنے والے چیلنجز اور دوسرا، بی جے پی اور سنگھ کے درمیان تعلقات۔ بی جے پی کے اندر اس وقت ہنگامہ برپا ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم پر عدم اطمینان کے باعث کھاتوں کے اندر ایک دوسرے کو ہرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مودی جی کی سب سے بڑی شکست اتر پردیش میں ہوئی ہے۔ جہاں 75 سیٹیں جیتنے کی بات ہو رہی تھی، وہیں PATA 240 سیٹوں پر ڈٹی ہوئی تھی، جو کہ اکثریت سے 32 سیٹیں کم ہیں۔ اتر پردیش میں شکست کی وجہ سے بی جے پی مرکز میں مودی-03 حکومت نہیں بنا سکی۔ اب یہ تنازع اپنے عروج پر ہے کہ اتر پردیش میں شکست کا ذمہ دار کون ہے؟ ایک طرف امیت شاہ ہیں اور دوسری طرف اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یو