اشاعتیں

اپریل 14, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

بھاگ پرویز مشرف بھاگ: پاکستان کی بڑھتی تشویشات

پاکستان میں پہلی بار غیر فوجی حکومت نے اپنی میعاد پوری کی اور اب دوسری سرکار کا انتخاب کرنے کے لئے عام چناؤ کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ زیادہ تر وقت فوجی حکومت وہ بھی تاناشاہی کے تحت رہے ملک کے لئے یہ ایک چھوٹا کارنامہ ہی نہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ اپنے آپ میں ایک اچھا واقعہ ہے۔ اس کا سہرہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کو جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی چھایا سے نکل کر وہ ایک اچھے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ’سام دام ڈنڈ بھید‘ کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے دیگر سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کو ساتھ ملانے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن عام چناؤ سے پہلے سابق صدر پرویزمشرف کے پاکستان لوٹنے سے ملک میں ایک نئی صورتحال بنتی جارہی ہے۔ پرویز مشرف کے لوٹنے پر فوج کے علاوہ سبھی لوگ مخالف تھے لیکن لگتا ہے کہ فوج اور مشرف میں کوئی خفیہ سجھوتہ ہوچکا ہے۔ فوج کو چھوڑ کر پاکستان میں سبھی سرکاری ایجنسیاں خاص کر عدالتیں ان کے خلاف ہیں۔ آج کی تاریخ میں جنرل پرویز مشرف شاید پاکستان کے سب سے دکھی شخص ہوں گے کہ عام چناؤ کے لئے چار حلقوں سے پرچے داخل کئے اور چاروں جگہ سے خارج ہوگئے۔ الگ الگ مقامات پر ال

آروشی قتل میں ماں باپ کا ہاتھ؟

نوئیڈا کے سرخیوں میں چھائے آروشی ہیمراج قتل میں اہم جانچ افسر رہے سی بی آئی کے اے ایس پی ، اے جی ایل کول نے منگلوار کو سی بی آئی کی خصوصی جج ایس لال کی عدالت میں دعوی کیا کہ آروشی ہیمراج قتل کے ملزم والدین راجیش تلوار اور ڈاکٹر نپر تلوار نے ہی قتل کو انجام دیا تھا۔ پانچ سال پرانے اس قتل کیس میں جانچ ایجنسیوں کی جانب سے گواہ کے طور پر پیش ہوئے اے جی کول نے کہا کہ پوری جانچ اور حالات سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تلوار میاں بیوی نے ہی یہ قتل کئے ہیں۔ اے ایس پی ، اے جی ایل کول کی جانب سے عدالت میں آروشی ۔ہیمراج قتل میں ماں اور باپ کو ہی شامل بتائے جانے پر اور کسی کو تسلی ہو نہ ہو لیکن اس سے نوئیڈا پولیس کو ضرور راحت ملی ہوگی۔ پولیس نے جن ثبوتوں کی بنیاد پر ڈاکٹر تلوار کو گرفتار کر جیل بھیجا تھا اسی تھیوری پر سی بی آئی کام کررہی ہے۔ کول نے اس معاملے میں ملزم بتائے گئے کمپاؤنڈر کرشنا، نوکر راجکمار اور وجے منڈل کو کلین چٹ دے دی تھی۔ سیکٹر25 میں واقع جل وایو وہار میں فلیٹ نمبر32 میں ڈاکٹر تلوار کی بیٹی آروشی اور نوکر ہیمراج کا قتل ہوا تھا۔ نوئیڈا پولیس نے اپنی جانچ میں تلوار کو ملزم بنای

دہشت گردی سے لڑنے کی بھارت سرکار کی کوئی حکمت عملی ہے اور نہ ہی قوت ارادی

دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ہم ایک بار پھر کہتے ہیں کہ امریکہ میں بوسٹن میراتھن دھماکوں کے کچھ گھنٹوں بعد کرناٹک کے بینگلورو شہر میں بم دھماکے اس کا ثبوت ہیں کے بینگلورو کے بھاجپا دفتر کو نشانہ بنا کر جمعرات کو کئے گئے دھماکوں میں 11 پولیس والوں سمیت کم سے کم16 افراد زخمی ہوگئے۔5 مئی کو ہونے والے اسمبلی چناؤ کی وجہ سے اس دھماکے اور مقام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ دھماکے کا ٹائم بھی اشارہ کرتا ہے چناؤ کی وجہ سے بھاجپا دفتر میں ورکروں اور ٹکٹ کے متلاشیو ں کی بھیڑ ہوگی۔ حالانکہ چناؤ کو دیکھتے ہوئے بھاجپا دفتر کے پاس خصوصی انتظامات کئے گئے تھے۔ بم کو ایک وین اور کار کے بیچ میں کھڑی موٹر سائیکل پر لگایا گیا تھا۔ دھماکہ آئی ڈی کے ذریعے کیا گیا۔ دھماکے میں امونیم نائٹریٹ استعمال ہوا تھا۔ کیا17 اپریل کی تاریخ آتنک وادیوں کے لئے کوئی خاص اہمیت رکھتی ہے، کیا اسے اتفاق ہی سمجھیں کے ٹھیک تین سال پہلے17 اپریل 2010ء کو اسی شہر بنگلورو کے چننا سوامی اسٹیڈیم کے باہر شام4 بجے دو دھماکے ہوئے تھے جن میں 7 لوگ زخمی ہوئے تھے۔ اس سے پہلے اسی شہر میں 25 ستمبر 2005ء اور10 مئی 2008 اور 25 جولائی 2009ء کو آتنک

اقتدار میں آنے پر سپا مبینہ غنڈوں کو سبق سکھائیں گے:مایاوتی

اترپردیش میں قانون انتظام کے حالات بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں اور اکھلیش یادو سرکار کی کرکری ہوتی جارہی ہے۔ اب جنتا یہاں تک کہنے لگی ہے کہ اس سے تو اچھی مایاوتی سرکار تھی کم سے کم غنڈوں میں تو خوف تھا۔ مایاوتی نے پردیش سرکار کے خلاف تلخ تیور دکھاتے ہوئے خبردار کیا کہ بسپا کو اقتدار ملا تو قانون توڑنے اور دلتوں کو ستانے والوں کو ایسا سبق سکھایا جائے گا کہ وہ یاد رکھیں گے۔ قانون و انتظام کو پوری طرح چوپٹ قراردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپا سرکار کے ایک سال کے عہد میں ہی جنتا پریشان ہونے لگی ہے۔ سپا کے غنڈے بدمعاشوں اور شرارتی عناصر کا راج چل رہا ہے۔ ڈاکٹرا مبیڈکر کی 122ویں جینتی پر لکھنؤ کے گومتی نگر میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر سماجک پریورتن استھل پرمنعقدہ شردھانجلی میں بہن جی نے کہا کہ سپا نے جن بے زمینوں کو سرکاری زمین پٹے پر دی تھی سرکار بدلتے ہی سپا لیڈروں نے اس پر قبضہ کرنا شروع کردیا اور فصل کاٹ لی۔ مایاوتی نے کہا بسپا کی سرکار بننے پر دلتوں اور پسماندہ کی زمین پر قبضہ کرنے والے سپا کے غنڈوں کو سبق سکھایا جائے گا۔ انہوں نے الزام لگایا سپا کے ایک سالہ عہد میں سب سے زیادہ فساد ہوئے۔ما

12 سال بعد پھر لوٹا امریکہ میں آتنک واد

9/11 کے آتنکی حملے کے بعد امریکہ میں کوئی اور آتنکی حملہ نہیں ہوسکا اور یہ بات امریکی حکام بڑے فخر سے کہا کرتے تھے اور فخر ہونا بھی چاہئے کیونکہ عالمی دہشت گردی سے بچنا آج کل ناممکن ہے۔12 12 سال بعد دہشت گردوں نے امریکہ میں واپسی کرتے ہوئے بوسٹن شہر میں دوہرے بم دھماکوں کی واردات کو انجام دیا ان دھماکوں نے امریکہ کو پھر ہلا کر رکھ دیا اور9/11 کی یاد تازہ کردی۔ اس بار بوسٹن میراتھن کو نشانہ بنایا گیا۔ دھماکہ میرتھن کی فنش لائن کے قریب ہوا۔ جس میں تین لوگوں کی موت ہوگئی جبکہ176 لوگ زخمی ہوگئے۔ جن میں دو درجن سے زیادہ افراد کی حالت نازک بتائی جاری ہے۔ مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔کئی لوگوں کے ہاتھ پاؤں خراب ہوگئے۔ 116 سال پرانی میراتھن ریس میں 23 ہزار لوگ حصہ لے رہے تھے جن کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے لاکھوں لوگ سڑک کے دونوں طرف موجود تھے۔ مرنے والوں میں 8 سالہ بچی مارٹن رچرڈ ہے۔ دھماکوں کے لئے پریشر کوکر بم کا استعمال کیا گیا۔ 9/11 کے بعد امریکی حکومت نے اپنے دیش کو محفوظ رکھنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ ذرا سابھی شبہ ہونے پر مشتبہ کی جانچ شروع ہوجاتی اور ہوائی اڈوں پر عد

سی بی آئی نہ تو کبھی آزاد تھی اور نہ ہی ہوگی

چلئے آج ہم بات کرتے ہیں سی بی آئی کی اس پر دباؤ کی اور اس کی کارگذاری کی۔ سی بی آئی نے اپنا شاندار آغاز 1941ء میں اسپیشل پولیس ادارے کی شکل میں کیا تھا۔ لیکن یہ مکمل وجود میں یکم اپریل 1963ء کو آئی تھی۔ آج یہ دیش کی سب سے اڈوانس تفتیش رساں ایجنسی ہے۔ سی بی آئی سبھی طرح کے معاملوں کو دیکھتی ہے اور معاملے صرف کرپشن تک محدود نہیں ہیں بلکہ اقتصادی اور سیاسی اور مجرمانہ معاملے بھی دیکھتی ہے۔جرائم کے کئی راون نما چہرے ہوتے ہیں اس لئے سی بی آئی نے مناسب اہلیت حاصل کرنے کے علاوہ اپنے ساتھ اوزاروں کو بھی شامل کیا ہے۔ آج کی تاریخ میں سی بی آئی کے پاس تقریباً8200 مقدمے ہیں۔ جن میں222 کیس 20 سال سے اور 1571 کیس 10-12 سال سے زیر تفتیش ہیں۔ اگر ہم سیاستدانوں کے بڑے معاملوں کی بات کریں تو حال میں مایاوتی،ملائم سنگھ یادو، جگموہن ریڈی، کنی موجھی، ایم کے اسٹالن، قابل غور ہیں۔ راجہ بھیا اور وی آئی پی ہیلی کاپٹر خرید گھوٹالے بھی ہیں جنہیں سی بی آئی دیکھ رہی ہے۔ سی بی آئی کے طریق�ۂ کار پر سب سے زیادہ سوال پچھلی دو تین دہائیوں سے اٹھ رہے ہیں۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے ونت نارائن معاملے میں جس طرح سی بی آئ

بھاجپا کو نتیش سے آر پار کی لڑائی لڑنی ہوگی

بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتادل (یو) کا17 سال پرانا رشتہ لگتا ہے اب ٹوٹنے کے دہانے پر ہے جس طریقے سے بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے ایتوار کو نئی دہلی میں اپنی پارٹی کے دوروزہ اجلاس میں گجرات کے وزیراعلی نریندر مودی پر حملہ بولا ہے اس سے تو یہ ہی لگتا ہے کہ نتیش بہت آگے بڑھ گئے ہیں وہاں سے ان کا لوٹنا اور بھاجپا کو آنکھیں دکھانا ممکن نہیں ہے۔ جنتا دل کے دو روزہ اجلاس میں نہ صرف نریندر مودی ہی نتیش کے نشانے پر تھے بلکہ بھاجپا کومودی کو نشانہ بنا کر جم کر کھری کھوٹی سنائی گئی۔ ان کی تقریر سے ایسا لگ رہا تھا کہ جنتادل (یو ) کی میٹنگ مودی کے احتجاج کے لئے بلائی گئی ہے۔ نتیش کمار ایک طرف بھاجپا کے ساتھ اتحاد بنا کر اپنی سرکار چلا رہے ہیں تو دوسری طرف جب وہ نریندر مودی پر اتنا بڑا حملہ کرتے ہیں تو ایک طرح سے بی جے پی پر حملہ کررہے ہیں۔ جس انداز میں نتیش نے مودی پر حملہ بولا ہے ایسا لگا کہ وہ کانگریس کے لیڈر کے طور پر مودی پر حملہ کررہے ہیں۔ نتیش نے جنتادل (یو) کو کانگریس کی بی ٹیم بنا کر رکھ دیا ہے۔ آج وہ کانگریس کے خیمے میں جانے کو بیتاب ہیں اور بہانا نریندر مودی کو بنا رہے ہیں۔ ہمیں لگتا

زیادہ سیٹوں کو متاثر کرے گا سوشل میڈیا

سوشل میڈیا کی اہمیت مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ جہاں آپسی رابطے کا یہ ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے وہیں اس کی اہمیت سیاست میں بھی بڑھتی نظر آنے لگی ہے۔ وسنت وہار گینگ ریپ کیس میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح فیس بک اور ٹوئٹر پر پورے دیش ہی نہیں دنیا میں بیداری پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔ حالانکہ اس کا مثبت اثر بھی کافی سامنے آیا ہے ۔’آئی آر آئی ایل نالج فاؤنڈیشن‘ اور انٹرنیٹ اینڈ موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا کے ایک تازہ جائزے میں دعوی کیا گیا ہے جس میں سوشل میڈیا دیش کی 160 لوک سبھا سیٹوں کے نتیجوں پر تجزیہ کرے گا۔سوشل میڈیا مہاراشٹر میں سب سے زیادہ26 لوک سبھا سیٹوں کو متاثر کرے گا اسکے بعد گجرات17 کا نمبر آتا ہے۔ ان پارلیمانی سیٹوں کے نتیجوں پر سوشل میڈیا کا سب سے زیادہ اثر پڑ سکتا ہے جہاں فیس بک یوزرس کی تعداد پچھلے لوک سبھا چناؤ میں کامیاب امیدواروں کی جیت کے فرق سے زیادہ ہے یا جہاں کل ووٹروں میں 10 فیصدی سے زیادہ فیس بک یوزر ہیں۔ مطالعے کے مطابق سوشل میڈیا اترپردیش کی 14، کرناٹک کی 12، تاملناڈو12، آندھرا 11 اور کیرل کی10 سیٹوں کو متاثرکرے گا۔ راجدھانی کی7 اور مدھیہ پردیش کی 9 سیٹوں کے نتائج پر اس کا

ٹیم راجناتھ کی پہلی چنوتی کرناٹک اسمبلی چناؤ

بھارتیہ جنتا پارٹی کے نئے صدر راجناتھ سنگھ اور ان کی نو تشکیل ٹیم کے لئے سب سے پہلا چیلنج کرناٹک اسمبلی چناؤ ہے جو5 مئی کو ہونے والے ہیں۔ ان اسمبلی چناؤ میں 110 سیٹیں جیت کر ریاست میں پہلی بار یا یوں کہیں جنوبی ہندوستان میں بھاجپا کی سرکار بنانے میں کامیاب رہی پارٹی کو دوبارہ اقتدار میں آنا آسان نہیں دکھائی پڑتا۔ اسمبلی چناؤ کئی اسباب سے اور قومی اہمیت رکھتے ہیں۔سب سے پہلے تو یہ 2014ء کے عام چناؤ سے پہلے ہورہا ہے۔ اس کے نتائج سے اندازہ لگایا جاسکے گا کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔ خاص کر اس لئے بھی کیونکہ اس چناؤ میں نہ صرف دونوں بڑی پارٹیوں کانگریس۔ بی جے پی آمنے سامنے ہیں بلکہ ممکنہ تیسرے مورچے (دیوگوڑا ، یدیرپا) جیسے بڑے لیڈر میدان میں ہیں۔ اس کے علاوہ چناؤ سے یہ بھی معلوم ہوسکے گا کہ دیش کے سامنے جو کرپشن اور دیگر برننگ اشو ہیں ان پر ووٹروں کا کیا ردعمل ہے۔ بھاجپا کے لئے یہ چناؤ اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ وہ جنوبی ہندوستان میں اپنے اثر کو بچائے رکھ سکتی ہے یا نہیں اور ساتھ ہی اپنی ٹیم اور چناوی چہروں کی وجہ سے ان کو فائدہ ہو سکتا ہے یا نہیں؟ بھاجپا کے مرکزی لیڈر مان رہے ہیں کہ پچھلی با

راجستھان اسپورٹس کونسل کاسنگھ یا جماعت سے تعلق ہے یا نہیں؟

راجستھان کھیل پریشد ان دنوں اپنے ایک فرمان کو لے کر سرخیوں میں چھائی ہوئی ہے۔ اس نے راجستھان سرکار سے کھیل ایوارڈ پانے والے کھلاڑیوں سے ایک حلف نامہ مانگا ہے جس میں بتانے کو کہا گیا ہے کہ کیا ان کا تعلق آر ایس ایس یا جماعت اسلامی سے ہے یا نہیں؟ اس فرمان کو لیکر جمعہ اور سنیچر کو بھاری ہنگامہ ہوا اور ریاست میں کئی جگہ مظاہرے ہوئے۔ اصل میں ریاستی کھیل پریشد نے جمعہ کو سوا دو کروڑ روپے کی انعام رقم بانٹنے کے لئے کھلاڑیو ں کو بلا لیا۔ اس دوران اس نے ایک حلف نامہ بھرنے کو کہا جس میں صاف کرنا تھا کہ ان کا تعلق آر ایس ایس اور جماعت اسلامی سے تو نہیں ہے۔ اس کو لیکر کھلاڑیوں نے ہلکا پھلکا احتجاج درج کرایا لیکن آگے کی کارروائی جاری رہی۔ اس کی اطلاع جیسے ہی باہر نکلی تو احتجاج ہونا شروع ہوگیا۔ ریاست کے وزیر کھیل مانگی لال چورسیا کا کہنا ہے کہ یہ قاعدہ 1986 ء نافذ ہے ، سرکار اس کی تعمیل کررہی ہے لیکن راجستھان کھیل کونسل کے سابق صدر ایس ایم ماتھر نے اس طرح کے کسی قاعدے سے انکار کیا۔ اس اشو کو گرمانے کے بعد ریاستی حکومت اور کھیل کونسل کے بیانوں میں بھی فرق آگیا ہے۔ اس حلف نامے کی بابت پوچھے جانے

سال سے 84 کے دنگے کے متاثرین کو انصاف نہیں ملا

29 سال پرانے پل بنگش گورودوارہ فساد معاملے میں کانگریسی لیڈر جگدیش ٹائٹلر کو تین سکھوں کے قتل کے معاملے میں سی بی آئی کی کلین چٹ اور مجسٹریٹ عدالت کے ذریعے کلوزر رپورٹ کو منظور کرنے والے حکم کو بدھ کے روز سیشن عدالت نے مسترد کردیا۔ اس طرح1984ء میں ہوئے29 سال پرانے دنگوں کے معاملے میں ٹائٹلر ایک بار پھر پھنستے نظر آرہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے پرانے معاملے میں ٹائٹلر کوتین بار راحت ملی ہے اور تین بار دوبارہ مقدمے کی جانچ کے احکامات دئے جاچکے ہیں۔ سی بی آئی ہر بار پختہ ثبوت نہ ہونے کی دلیل پیش کرتی ہے۔ بدھوار کو کڑکڑ ڈوما عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج انورادھا شکلا بھاردواج نے سی بی آئی کی اس کلوزر رپورٹ کو مسترد کردیا جس میں جگدیش ٹائٹلر کو کلین چٹ دی گئی ہے۔ عدالت نے کہا سی بی آئی امریکہ میں مقیم ان تین لوگوں کا بیان درج کرنے کو مجبور ہے جن کے بارے میں ایک گواہ نے کہا تھا کہ وہ بھی موقعہ واردات پر موجود تھے۔عدالت کا کہنا ہے کہ جس وقت گواہ کابیان درج کیا جارہا تھا ،چاہے وہ سچ ہے یا جھوٹ، جانچ ایجنسی کا تقاضہ تھا کے ان لوگوں کے بیان درج کرتی یا کم سے کم ان سے پوچھ تاچھ کرلیتی۔ عدالت

بلند شہر کے قانونی محافظ خود ہی قانون کے بھکشک بنے

اترپردیش میں بگڑتے لا اینڈ آرڈر کی ایک اور مثال سامنے آئی ہے۔ بلندشہر میں پولیس نے ایک نابالغ آبروریزی کا شکار کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہوگی۔ یہ تشفی اور راحت کی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے پولیس کے غیر انسانی برتاؤ کے اس واقعے کا خود ہی نوٹس لیا ہے۔ اس واردات کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوال کا جواب سارا دیش جانناچاہتا ہے۔ آخر پولیس ایک10 سالہ بچی کو جیل میں کیسے ڈال سکتی ہے؟ غور طلب ہے کہ بلندشہر میں ایک 10 سالہ بچی کے ساتھ ایک دبنگ نے آبروریزی کی اور اس پر الٹے چوری کا الزام جڑدیا گیا۔ جب اس کی ماں اسے لیکر تھانے پہنچی تو پولیس نے ماں کو بھگادیا اور بچی کو ہی حوالات میں بند کردیا۔ اس نے اس کے ساتھ آبروریزی کے معاملے پر توجہ دینے بھی ضروری نہیں سمجھی۔ اس واقعہ کی میڈیا رپورٹ کے بنیاد پر سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا اور اترپردیش سرکار سے اس بارے میں جواب مانگا۔ اس کیس میں یہ سوال اور سنگین ہوجاتا ہے کہ یہ واقعہ اس تھانے میں ہوا ہے جس کا انچارج ایک خاتون تھی۔ کیا اس سے زیادہ غیر انسانی اور تکلیف دہ بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ آبروریزی کا شکار بچی کی