اشاعتیں

اگست 14, 2011 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

یہ تحریک بھارت کے ہی نہیں ساری دنیا کے لئے مثال ہے!

تصویر
  Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily  Published On 20th August 2011 انل نریندر کانگریس نے اناہزارے کی حمایت میں بڑی تعداد میں لوگوں کے آگے آنے پر سوال اٹھاتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ اس تحریک کے پیچھے امریکہ کاہاتھ ہے۔ کانگریس کی دلیل ہے کہ امریکہ نے کبھی کسی تحریک کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیاتھا مگر انا کی تحریک کو لے کر امریکہ کی وکالت شبہ پیدا کرتی ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے بھی انا ہزارے کی گرفتاری کو لے کر پارلیمنٹ میں دئیے گئے اپنے بیان میں غیرملکی طاقتوں کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں جانتا اس تحریک کے پیچھے امریکہ کاہاتھ ہے یا نہیں۔ امریکہ جب بھی کسی ملک میں سرکارکچلنے والے قدموں پر جمہوری طریقہ سے جنتا تحریک کو ختم کرنے پر اتر آئے توامریکہ اس پر وارننگ دینے کی تجویز ضرور رکھتا ہے۔ اس نے چین، وسطی دیشوں کو بھی ایسی وارننگ دی ہے اور دیتا رہا ہے۔ یہ کہناہے کہ اس لئے بھی غلط لگتا ہے کہ جتنی امریکہ پرست یہ منموہن سرکار ہے اتنی تو آزاد بھارت کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوگا۔ ساری کانگریس لیڈر شپ امریکی ہمدرد ہے اور یہ بات کئی بار

راجیہ سبھا میں جسٹس سین کیخلاف مقدمہ

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 19th August 2011 انل نریندر راجیہ سبھا میں بدھ کو ایک تاریخی واقعہ کا آغاز ہوا۔ کولکتہ ہائی کورٹ کے ایک جج سمتر سین کے خلاف تحریک ملامت راجیہ سبھا میں شروع ہوئی ۔ یہ ایوان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہورہا ہے۔ ویسے جسٹس سین دیش کی عدلیہ تاریخ میں ایسے دوسرے جج بن گئے ہیں جن کے خلاف پارلیمنٹ کے کسی ایوان میں تحریک ملامت کی کارروائی کی جارہی ہے۔ راجیہ سبھا پہلی بار ایک عدالت میں تبدیل ہوئی ہے۔ ایوان کی چیئر کے سامنے والے دروازے کے پاس بنے کٹہرے میں جسٹس سین نے اپنا موقف رکھا۔ جسٹس سمتر سین پر لگے الزامات کی جانچ کے لئے کمیٹی راجیہ سبھا کے چیئرمین حامد انصاری نے بنائی تھی۔ کمیٹی نے 33 سالہ جج کو بدعنوانی کے الزامات میں قصوروار پایا ہے۔ آئین کے تحت سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج پر پارلیمنٹ میں تحریک ملامت پیش کر اس کو عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ایسی تجویز دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے پاس ہونا ضروری ہے۔ بدگمانی اور الزامات کو ثابت کرنے والے ریزولیوشن پارلیمنٹ کے اجلاس میں ہیں پاس ہونا ضروری ہیں۔ پارلیمنٹ کی

منموہن سرکار کی گمراہی کا نتیجہ ہے یہ دھماکو صورتحال

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 19th August 2011 انل نریندر تہاڑجیل کے باہرکا منظر قاہرہ کے تحریر چوک جیسا بنا ہوا ہے لیکن اندر ہیں انا ہزارے اور جیل کے باہر جنتا۔ اگست کرانتی چوک بن گیا ہے دہلی کا جیل روڈ۔ہزاروں کی تعداد میں عوام جیل کے باہر بارہ گھنٹوں سے ڈٹی ہوئی ہے۔بدھ اور جمعرات کوبھی یہ ہی نظارہ دیکھنے کو ملا۔ جس طریقے سے حکومت نے انا ہزارے کی تحریک کو ہینڈل کیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایڈمنسٹریشن کے لحاظ سے جتنے طریقے کی ناکامی ہو سکتی ہے ہم ان سبھی کو گنا سکتے ہیں۔ پچھلے دو تین دنوں سے جو کچھ ہورہا ہے اس سے لگتا ہے کہ یوپی اے سرکار کا خفیہ تجزیہ فیل ہوگیا ہے بلکہ اس کی قوت ارادی میں بھی کمی نظرآتی ہے اور مکمل کنفیوژن ہے۔ قانون کا مذاق بنا ہوا ہے۔ پولیس کی فضیحت کے ساتھ ہی اس کا حوصلہ پست ہونے جیسے حالات ہوگئے ہیں۔ یعنی جسے کہیں تو مکمل طور پر غلط طریقے سے معاملے سے نمٹنا۔ سرکار کی نیت بھی صاف نہیں تھی، وہ کبھی کچھ تو کبھی کچھ جیسے حالات میں دکھائی پڑی۔ یہ تجزیہ ٹھیک سے نہیں ہوا کہ انا کی گرفتاری کے نتیجے میں دہلی اور دیش میں کیا بو

انا کی آندھی ہے ، یہ دوسرے گاندھی ہیں

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 18th August 2011 انل نریندر منگل 16 اگست کا دن ہمیشہ یادرہے گا۔ یہ کوئی فلم سے کم نہیں تھا۔ پورے دن سسپنس ، ڈرامہ، اموشن سبھی دیکھنے کو ملے۔ سارے دیش کی نظریں انا ہزارے پر لگی ہوئی تھیں ،دیکھیں آج انا کیا کرتے ہیں۔ انا اپنے کہنے پر کھرے اترے، تمام طرح کے دعوؤں کے باوجود انا اپنے موقف پر اٹل رہے اور رہیں گے۔ منگل کی صبح دہلی پولیس کے سینئر افسر قریب ڈھائی سو جوانوں کولیکر میور وہار فیز I میں واقع سپریم انکلیو میں پرشانت بھوشن کے فلیٹ پہنچے۔ قریب آدھے گھنٹے تک بات چیت کا کوئی نتیجہ نہ نکلا تو پولیس نے انا کو اسی فلیٹ میں جس فلیٹ میں رکے تھے وہاں سے حراست میں لے لیا۔ انا کو جیسے ہی انووا کار میں کرائم برانچ کے آدمی لیکر باہر نکلے تو گاڑی کو ہجوم نے گھیر لیا۔ لوگوں نے یوپی لنک روڈ جام کردیا۔ انا ہزارے کو علی پور روڈ پر واقع دہلی پولیس کے آفیسر میس میں لایا گیا۔ بعد میں انا کو امن بھنگ کرنے کے اندیشے میں گرفتار کرنے کا اعلان ہوا۔ انا کے حمایتیوں کے ڈرسے پولیس نے انہیں نامعلوم مقام پر بھیجنے کی تیار کی۔ پولیس انا کو گاڑی میں بٹھ

اگست انقلاب: حکومت اور انا میں آر پار کی لڑائی

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 17th August 2011 انل نریندر آزادی کی سالگرہ پر ہی ایک بڑی لڑائی کا اعلان ہوگیا ہے۔ آزادی کی 65 ویں سالگرہ پر ایک طرف وزیر اعظم منموہن سنگھ اور ان کی سرکار ہے تو دوسری طرف انا ہزارے اور ان کی سول سوسائٹی ہے۔ ایک طرف سب سے طاقتور حکومت ہے جو ہر حال میں انا کی تحریک کو دبانا چاہتی ہے تو دوسری طرف عام جنتا کی حمایت پا رہے بدعنوانی ختم کرنے کی لڑائی لڑنے پر آمادہ انا ہزارے اپنے وعدے کے مطابق انا نے منگلوار کی صبح اپنی بھوک ہڑتال شروع کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں میور وہار میں ہی صبح حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ انا کے خاص حمایتی شانتی بھوشن، اروند کیجریوال، کرن بیدی کو بھی حراست میں لیا گیا۔ اس سے پہلے 15 اگست کا دن گہما گہمی کا رہا۔ صبح میں یوم آزادی پر وزیراعظم منموہن سنگھ نے قوم سے لال قلع کی صفیل سے دیش کو خطاب کرتے ہوئے انا کو براہ راست چنوتی دے ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ انشن سے بدعنوانی ختم نہیں ہوگی اور بدعنوانی کے خلاف لوکپال لانے کی لڑائی لال قلع سے اور زیادہ تیز ہوگئی۔ وزیراعظم نے اپنی حکومت کے دامن پرلگے داغ کو تسل

ایک مسلم بچے کی ہندو خاندان نے کیسے پرورش کی

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 14th August 2011 انل نریندر کبھی بھی ایسی سچی کہانی سننے کو ملتی ہے کہ آدمی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ سچی کہانی الہ آباد اور لکھنؤ سے وابستہ ہے۔ تقریباًسات سال پہلے اکبر نام کا مسلم بچہ لاپتہ ہوگیا تھا۔ تین سال بعد ماں شہناز کو پتہ چلا کہ اس کا بیٹا لکھنؤ کے قیصر باغ میں ایکولال نامی شخص کے گھر پر ہے تو وہ اپنے شوہر کیساتھ وہاں پہنچی اور بیٹا واپس مانگنے لگی۔ لیکن بچے اکبر نے ماں کے ساتھ جانے سے صاف منع کردیا۔ اس کے بعد ایکولال نے بھی اسے بچہ نہیں دیا۔ اس پر شہناز لکھنؤ کوتوالی گئی لیکن پولیس نے رپورٹ اس لئے درج کرنے سے منع کردیا کہ بچے کے کھونے کے بعد ماں باپ نے کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی تھی۔ اس کے بعد شہناز نے ہائیکورٹ میں عرضی دائر کرائی جسے ہائیکورٹ نے یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ بچے کی مرضی کے خلاف وہ اسے نہیں رکھ سکتی۔ آخر کار یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ بدھ کے روز اس عجیب و غریب مقدمے کو سلجھانے کیلئے سپریم کورٹ نے قانون کے بجائے انسانی پہلو کو اپنایا۔عدالت نے شہناز کی مالی حالت کے بارے میں اس سے حل

پرکاش جھا کی تنازعات میں گھری فلم ’آرکشن‘

تصویر
Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily Published On 14th August 2011 انل نریندر تنازعات سے فلم ساز پرکاش جھا کا پرانا رشتہ ہے۔ وہ ایسے مسئلوں پر زیادہ فلم بناتے ہیں جو متنازعہ ہوتے ہیں۔ یہ ہی حال ان کی فلم ’گنگا جل‘ اور ’اپہرن‘ کا بھی رہا ۔ ایسا ہی نئی فلم ’آرکشن‘ سے بھی ہورہا ہے۔ بہار کے پس منظر میں بنی گنگا جل اور اپہرن کی ریلیز کے عین وقت بہار کی سیاست کے چند دبنگ لیڈروں نے ریاست میں اسے نہ چلنے کی دھمکی دی۔ ان فلموں کو سینسر بورڈ نے اپنے کچھ سینئر ممبران کودیکھنے کے بعد منظوری دی تھی۔ ایسا ہی فلم ’آرکشن‘ کے بارے میں معاملہ الجھا ہوا ہے۔ اس کی ریلیز کچھ ریاستوں میں تو رک گئی ہے خاص طور سے سیاستدانوں اور تنظیموں کی مخالفت جھیل رہی فلم ’آرکشن‘ جمعہ کے روز دہلی میں ریلیز ہوگئی۔ لیکن اترپردیش، پنجاب، آندھرا پردیش میں اس پر پابندی لگ گئی۔ پرکاش جھا فلم میں کچھ مناظر و مکالمے تک کاٹنے کوتیار ہیں۔ مایوس پرکاش جھا نے سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹایا ہے لیکن وہاں سے بھی انہیں کوئی راحت نہیں ملی۔ یوپی، پنجاب اور آندھرا میں لگی پابندی کو ہٹوانے کیلئے پروڈیوسر پرکاش جھ