اشاعتیں

فروری 14, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کشمیری علیحدگی پسند و نکسلیوں کاگٹھ جوڑجے این یو پر حاوی

جے این یو میں صرف ملک مخالف نعرے ہی نہیں لگے یہ جو جے این یو میں کیا چل رہا ہے اس سے آہستہ آہستہ پردہ اٹھنا شروع ہوگیا ہے۔ کئی برسوں سے یونیورسٹی میں طالب علم ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ یہ اب صاف ہوتا جارہا ہے پچھلے سات آٹھ دنوں کی جانچ سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ تنازعہ کشمیری علیحدگی پسندوں اور نکسلیوں کی گٹھ جوڑ کانتیجہ ہے ہندوستانی اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے خواب دیکھنے والے علیحدگی پسندوں چاہے وہ کشمیرکے ہوں یا پھر نارتھ ایسٹ کے ہوں انہوں نے نکسلیوں کے ساتھ ہاتھ ملا لئے ہے۔ سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق کافی عرصے سے جے این یو کیمپس میں سرگرم ہے اور اس کے لئے انہوں نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس یونین( ڈی ایس یو) کے نام سے اپنی طلبہ انجمن بھی بنا رکھی ہے۔ فی الحال اس تنظیم سے اب تک صرف دس طالب علم ہی جڑے ہیں پچھلے سال گڑھ چیرولی میں گرفتار ہیم مشرا اسی ڈی ایس یو سے جڑا ہوا تھا۔ کچھ وقت پہلے چھتیس گڑھ میں جب ستر سے اوپر سی آر پی ا یف کے جوان نکسلیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے تو اس انجمن نے جے این یو میں جشن منایا تھا۔ ڈی ایس یو کے علاوہ نکسلیوں نے کشمیری اور نارتھ ایسٹ کے علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ

ہائی کورٹ نے جج نے سپریم کورٹ سے ہی جواب مانگ لیا ہے؟

ہندوستانی عدلیہ میں پیر کو کچھ ایسا ہوا ، جو اس سے پہلے دیش کی عدلیہ کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ دوپہر پیر کو سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے ایک جج کو کسی طرح کے عدلیہ کام دینے پر روک لگا دی تھی لیکن اس کے کچھ دیر بعد مدراس ہائی کورٹ کے اسی جج نے سپریم کورٹ چیف جسٹس سے ہی تحریری جواب مانگ لیا۔ سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سی ایس کارن کو کوئی بھی عدلیہ کام نہ دینے کی ہدایت دی تھی۔ دراصل کارن کاتبادلہ کلکتہ ہائی کورٹ کردیا گیا ہے۔ لیکن جج موصوف نے اس تبادلہ کے حکم پر بھی روک لگا دی۔ اس کے بعد جسٹس کارن کوئی عدلیہ کام دینے پر روک لگائی گئی تھی۔ مدراس ہائی کورٹ کے جسٹس یہی تک نہیں رکے انہوں نے سپریم کورٹ کے ان دونوں ججوں کے خلاف بھی ایس سی ؍ ایس ٹی کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کی دھمکی دی جنہوں نے جسٹس کارن کو کوئی بھی عدلیہ کام نہ دینے کی ہدایت دی تھی۔ اپنی عدلیہ اختیارات کاعلاوہ دیتے ہوئے جسٹس کارن نے کہا کہ وہ خود نوٹس لیتے ہوئے چنئی پولیس کمشنر کو سپریم کورٹ کے دونوں ججوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے جوڈیشل حکم دیں گے انہوں نے ایک بار پھر خود کو ذات پات امتیاز جانچ کا

بھارت کا کسان بدحال و پریشان

بھارت ایک زراعت کفیل ملک ہے۔ ہندوستانی معیشت کی بنیادزراعت ہے۔گھریلو پیداوار میں زرعی اور اس سے متعلق میدانوں کا اشتراک 2007-08 اور 2008-09 اور 2010-11 کے دوران بسلسلہ 17.8 ، 17.1 اور 14.5 فیصد رہی۔ ہندوستانی زرعی پیداوار ابھی بھی مانسون پر منحصر کرتی ہے کیونکہ تقریباً55.7فیصد زراعت بارش پر منحصر ہے۔ ہندوستان کا کل جغرافیہ حدودربا 3287 کروڑ ایکڑ ہے جس سے 14.03 کروڑ ہیکٹیر میں کھیتی کی جاتی ہے۔ اس نظریئے سے بھارت کے کسان کو دیش کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے تو کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ آج کسان کھیتی باڑی چھوڑنے پر مجبور ہورہا ہے۔ خسارے کا سودا ہونے کی وجہ سے ہر روز ڈھائی ہزار کسان کھیتی چھوڑ رہے ہیں اور تو اور دیش میں ابھی کسانوں کی کوئی ایک بھی تشریح نہیں ہے۔ مالیاتی منصوبوں میں، قومی جرائم ریکارڈ بیورو اور پولیس کی نظر میں کسان کی الگ الگ تشریح ہے۔ ایسے میں کسان مفادات سے وابستہ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کچھ ہی وقت بعد پیش ہونے والے عام بجٹ میں گاؤں ، کھیتی اور کسان کو بچانے کیلئے ہندوستانی وزیر مالیات کیا پہل کریں گے؟ اتار چھڑاؤ کے درمیان زرعی ترقی رفتار نہیں پکڑ رہی ہے۔ وزارت زراعت

ضمنی چناؤ کے سندیش اور سبق بھی سمجھنا ضروری ہے

عام طور پر لوک سبھا یا اسمبلی کے ضمنی چناؤ نتیجوں سے دیش کی سیاست پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا مگر ان کے ذریعے رائے دہندگان کے موڈ کو سمجھنے کا ضرور اشارہ ملتا ہے۔ یہی بات 13 فروری کو 8 ریاستوں میں اسمبلی کے ضمنی چناؤ کو لیکر کہی جاسکتی ہے جن کے نتیجے مختلف پارٹیوں کے لئے ملے جلے رہے ہیں۔ اگر ان نتیجوں کو ریاستی سطح پر دیکھیں تو ان میں کچھ ایسے سندیش ضرور چھپے ہوئے ہیں جن میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ہوا کس طرف بہہ رہی ہے۔ بہار میں عوام میں قریب2 مہینے پہلے زبردست کامیابی والے جے ڈی یو ۔ آر جے ڈی اتحاد کو مسترد کردیا ہے تو اترپردیش میں حکمراں سماجوادی پارٹی کی حالت خراب کردی ہے۔بھاجپا کے لئے تشفی کی بات یہ رہی ہے کہ مدھیہ پردیش کے میہر اسمبلی حلقے میں پارٹی نے جیت کا پرچم لہرایا ہے۔ اس کامیابی سے وزیر اعلی شیو راج چوہان کا بلڈ پریشر ضرور بہتر ہوگا۔ اگر ہم بہار کی بات کریں تو جے ڈی یو۔ آر جے ڈی اتحاد اور راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی کے امیدوار کی جیت کو بھلے ہی ہمدردی ووٹ سے کامیابی کہیں لیکن کچھ مہینے کی حکومت کی بنیاد کو مان لیں تو یہ جیت اس سے آگے کی کہانی بیان کرتی ہے۔اس وقت نتیش کمار اور

بہار میں حکمراں ممبران اسمبلی نے اڑائیں قانون کی دھجیاں

اس مرتبہ بہار میں لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی اور نتیش کمار کی جنتا دل (متحدہ) کا اتحاد بھاری اکثریت سے اقتدار میں آیا تو بہت سے لوگوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ریاست میں کہیں پھر سے لالو یادو سرکار کے وقت کا ماحول نہ بن جائے اور بہار میں پھر سے جنگل راج نہ لوٹ آئے۔ مگر اقتدار میں آتے ہی ماحول ویسا ہی بنتا جارہا ہے۔ بھوجپورمیں گزشتہ جمعہ کو ہتھیاروں سے مسلح جرائم پیشہ افراد نے بھاجپا کے پردیش نائب پردھان وشیشور اوجھا کو گولیوں سے بھون دیا۔ ان کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔ حملے میں بکسر ضلع کے مکھیہ سمیت بھاجپا نیتا کی گاڑی کا ڈرائیور زخمی ہوگیا۔ باجپا نیتا کو10سے11 گولیاں لگیں۔ ایک ہفتے کے اندر تین قتلوں نے بہار میں لا اینڈ آرڈر کو پھر سے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ جمعہ کی شام کو آرا کے شاہ پور تھانہ علاقے کے تحت سونبردا بازار میں وشیشور اوجھا اپنی گاڑی سے اتر کر لوگوں سے ان کی پریشانی سن رہے تھے اسی دوران اچانک ڈیڑھ درجن سے زائد نامعلوم رائفلوں سے مسلح جرائم پیشہ نے ان پر اندھادھند گولیاں داغنی شروع کردیں۔ وشیشور اوجھا پچھلے بہار اسمبلی چناؤ میں شاہ پور سے بھاجپا کے امیدوار تھے۔ اوجھا کے قتل ک

شام میں اگر سعودی عرب نے فوجی بھیجے تو چھڑ سکتی ہے عالمی جنگ

سعودی عرب، شام میں جلد میدانی جنگ کی تیاری کررہا ہے۔حال ہی میں جاری رپورٹس کی مانیں تو سعودی عرب شام بارڈر سے لگے ترکی کے انکپلنگ ہوائی اڈے پر اپنے جنگی جہاز اور فوجیوں کو بھیج رہا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ میولت کابوسوگل نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ شام میں زمینی جنگ کے لئے فوجی بھیجنے کی سعودی عرب اور ترکی کے ارادوں پر روس بھڑک اٹھا ہے۔ جرمنی پہنچے روس کے وزیر اعظم دیمیتری میدوف نے جمعہ کو دھمکی دی تھی کہ ایسا کرنے سے زمین پر ایک اور عالمی جنگ چھڑسکتی ہے۔دراصل ایسے امکانات جتائے جارہے ہیں کہ شام میں زمینی فوج بھیجنے کی سعودی عرب اور ترکی کی پہل کے بعد امریکہ بھی اس میں شامل ہوسکتا ہے۔ صدر بشر الاسد کی قیادت والی شامی فوجوں کے علاقے میں بڑھت بنانے سے چڑھے سعودی عرب اور ترکی نے یہ رخ دکھایا ہے۔ الیدھوں کے آدھے حصے پر آئی ایس ، النصرہ فرنٹ، اہران الشام جیسی کئی باغی تنظیموں کا قبضہ ہے۔ سعودی عرب، ترکی ، شام میں اسد مخالف باغی گروپوں کی چپ چاپ مدد کررہے ہیں۔ دوسری طرف روس اسد کی حمایت میں کھڑا ہوا ہے۔ شام پر مذاکرات کیلئے میونخ پہنچے روسی وزیر اعظم نے آگاہ کیا کہ زمینی فوج اتارنے کی کوئی بھی

راہل گاندھی کی دیش دشمن طلبا کو حمایت

جواہر لال نہرو یونیورسٹی تنازع بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اب لڑائی کیمپس سے نکل کر عدالت پہنچ گئی ہے۔ پیر کے روز ملکی بغاوت کے الزام میں گرفتار اسٹوڈینٹ یونین لیڈر کنہیا کمار کی پیشی پٹیالہ ہاؤس عدالت میں تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے کئی طالبعلم لیڈر، ٹیچرس و جے این یو حمایتی لوگ لنچ بریک میں ہی متعلقہ مجسٹریٹ کے کمرے میں جاکر بیٹھ گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے وہاں موجود جے این یو طلبا کو شناختی کارڈ چیک کرکے باہر نکالنے لگے۔ اس کے بعد ہاتھاپائی نعرے بازی شروع ہوگئی۔ اس ہاتھاپائی میں کچھ میڈیا ملازم بھی پھنس گئے اور ان کے چوٹیں بھی لگیں۔ دہلی پولیس کمشنر بی ۔ ایس بسی نے واردات کو ہاتھا پائی بتاتے ہوئے کہا کہ کسی کو شدید چوٹ نہیں آئی ہے۔ زور زبردستی دونوں طرف سے کی گئی تھی۔ پولیس نے اس معاملے میں نامعلوم لوگوں کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی ہیں۔ میڈیا میں ایک فوٹو چھپی ہے جس میں بی جے پی ممبراسمبلی او۔ پی شرما کو ایک سی پی آئی ورکر کی پٹائی کرتے دکھایا گیا ہے۔ او۔پی۔ شرما نے دعوی کیا ہے کہ ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے کچھ لوگوں نے ان پر حملہ کیا تھا۔ کنہیا کی گرفتاری کو صحیح قرار دیتے ہوئے

پھر ہوا امریکہ کا دوہرا چہرہ بے نقاب

دہشت گردی کو پالنے اوراسپانسر کی شکل میں بدنام پاکستان کو امریکہ کے ذریعے سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے 86 کروڑ ڈالر مالیت کی فوجی امداد دینے پر آمادگی سے امریکہ ایک بار پھر بے نقاب ہوگیا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے کہا ہے کہ اس نے پاکستان کو تقریباً 70 سے80 کروڑ ڈالر قیمت کے 8 ایف 16- جنگی جہام فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیوکلیائی ہتھیار لے جانے میں استعداد رکھنے والے ان جنگی جہازوں کی فروخت کی تجویز کو ریپبلکن ممبران والی کانگریس میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مدد کیلئے ایمرجنسی فنڈ کا سہارا اس لئے بھی لیا گیا ہے تاکہ اس پر روک لگانے کی کوشش کامیاب نہ ہوسکے۔ حال ہی میں پاکستان کو ایف۔16 جنگی جہاز کی سپلائی دینے کی تجویز پر امریکی سینیٹ رکاوٹ ڈال چکی ہے لیکن اس کے باوجود اوبامہ پاکستان کو یہ مدد کرنے پر آمادہ ہیں۔ امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ پاکستان کو دی جانے والی امریکی سکیورٹی مدد دہشت گردوں کے ذریعے پاکستانی سرزمیں کا استعمال پناہ گاہ کی شکل میں کئے جانے کی صلاحیت کو کم کرتی ہے۔ ہم ان موصوف افسر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا پاکستان ان ایف۔16 جنگی جہازوں کا استعمال

اب خواتین کو قاضی بنانے پر تنازع

خواتین کے قاضی بننے کو لیکر ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ جے پور کی دو عورتوں نے دعوی کیا ہے کہ وہ پہلی مہلا قاضی ہیں۔ ان کے مطابق اب وہ ایک قاضی کے طور پر نکاح بھی پڑھا سکتی ہیں۔ عورتوں کے اس دعوے کو لیکر تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ جے پور کی یہ دونوں عورتیں پچھلے دنوں ہی ممبئی سے قاضی کی ٹریننگ لیکر لوٹی ہیں۔ دونوں عورتوں اور مسلم سماج میں عورتوں کی بھلائی کا کام کرنے والے ان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ پہلی خاتون قاضی ہیں۔ ادھر علماء اور مسلم سماج کے مذہبی پیشواؤں نے دلیل پیش کی ہیں کہ عورتیں قاضی نہیں بن سکتیں۔ جے پور میں چاردروازہ کی باشندہ جہاں آرا اور داس بدنپور کی باشندہ افروز بیگم نے خود کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ممبئی کے مدرسہ دارالعلوم نسواں سے ہندوستانی مہلا تحریک کے تحت دو سال کا مہلا قاضی کورس کیا ہے۔ان کے مطابق نہ صرف وہ نکاح پڑھا سکتی ہیں بلکہ طلاق کے معاملے بھی دیکھ سکتی ہیں۔ انہوں نے بتایا طلاق جیسے معاملوں کو قریب سے جاننے کیلئے اور عورتوں کو انصاف دلانے کیلئے انہوں نے یہ ٹریننگ لی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ راجستھان میں قریب5 ہزار مدرسوں کی کمان پہلی بار خاتون کو ملی

ہیڈلی نے تصدیق کی،عشرت لشکر کی فدائین دہشت گرد تھی

ممبئی پر26/11 حملے کے سلسلے میں گواہی دے رہے پاکستانی نسل کے امریکی دہشت گرد ڈیوڈ کول مین ہیڈلی نے جمعرات کو سنسنی خیز خلاصہ کیا کہ 2004ء میں مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں ماری گئی کالج اسٹوڈنٹ عشرت جہاں آتنک وادی تنظیم لشکر طیبہ کی فدائین ممبر تھی اور وہ بھارت میں تباہی مچانے کے مقصد سے بھرتی کی گئی تھی۔سال 2013 ء میں بھی ہیڈلی نے این آئی اے افسران کو دئے بیان میں یہ دعوی کیا تھا، لیکن تب کی کانگریس کی یوپی اے سرکار نے سیاسی وجوہات سے بیان کے اس حصے کو ہٹا دیا تھا۔ عشرت پر نام نہاد سیکولر نیتاؤں نے خاصی سیاست کی تھی، لیکن ممبئی کی عدالت کے سامنے ہیڈلی کے تازہ بیان سے اس کے دہشت گرد ہونے پر لگا سوالیہ نشان ختم ہوگیا۔ یہ ایک ایسا کیس تھا جس پرنام نہاد سیکولر نیتاؤں نے اپنی سیاست چمکانے کی خاطر ساری حدیں پار کردی تھیں۔ انہوں نے نہ تو سیاستدانوں کو چھوڑا نہ ہی اعلی پولیس افسران کو چھوڑا اور نہ ہی خفیہ و جانچ ایجنسیوں کے افسروں کو۔ یہ انکاؤنٹر جب ہوا تھا تب امت شاہ گجرات کے وزیر داخلہ تھے۔ سیاسی حملوں کے چلتے انہیں نہ صرف وزارت کے عہدے کو چھوڑنا پڑا تھا بلکہ مہینوں جیل میں گزارنے پڑے تھے۔ جیل