اشاعتیں

جنوری 8, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کیوں نہ ہو جوابدہ یہ غیر سرکاری انجمنیں

سپریم کورٹ کے ذریعے غیر سرکاری انجمنوں(این جی او) کو جوابدہی کے دائرے میں لانے کے لئے ان کے کھاتوں کا 31 مارچ تک آڈٹ کرانے کی ہدایت کا خیرمقدم ہے۔ سالانہ حساب کتاب نہ دینے والی این جی او صرف بلیک لسٹ میں ڈالنے کو ناکافی بتاتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے مرکزی حکومت کو ایسی این جی او کے خلاف فوج داری یا دیوانی کا مقدمہ چلانے کی بھی ہدایت دی ہے۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے حکومت سے پوچھا ہے کہ آخر غیر سرکاری انجمنوں و کمیٹیوں کے فنڈ اور ان کے استعمال کی نگرانی کے لئے اب تک کوئی ریگولیٹری سسٹم کیوں نہیں ہے؟ قسم قسم کی غیر سرکاری انجمنوں کو کہاں سے پیسہ ملتا ہے اور اسے کس طرح خرچ کرتی ہیں یہ سب یقینی بنانے والے سسٹم کا قیام بہت پہلے ہی کردیا جانا چاہئے تھا۔ یعنی اب ہر این جی او کو عوام کے پیسے کا حساب کتاب دینا ہوگا۔ دیش بھرمیں تقریباً32 لاکھ این جی او ہیں جن میں سے محض 3 لاکھ ہی اپنی بیلنس شیٹ داخل کرتی ہیں۔ ان پر نگرانی رکھنے کیلئے کوئی باقاعدہ ڈیولپ مشینری بھی نہیں ہے۔ چیف جسٹس جے ایس کھیر، جسٹس این وی رمن اور جسٹس دھنن جے چندرچوڑ کی بنچ نے ایک عرضی کی سماعت کرتے ہوئے غبن کرنے والی این جی او کے خل

گووا میں بھاجپا کو دوبارہ اقتدار میں آنے کی چنوتی

گووا میں 40 سیٹوں کی اسمبلی کے لئے 4 فروری کو ووٹ پڑیں گے۔ اس وقت بھاجپا 21 سیٹوں کے ساتھ سرکار میں ہے وزیر اعلی ہیں لکشمی کانت،گووا میں اس بار مقابلہ سہ رخی ہونے کا امکان ہے۔ 4 فروری کو ہونے والے اسمبلی چناؤ میں حکمراں بھاجپا، اپوزیشن کانگریس اور پہلی بار اپنی قسمت آزمانے جا رہی عام آدمی پارٹی آمنے سامنے ہوں گے۔ 2012ء کے چناؤ میں منوہر پاریکر کی قیادت میں بھاجپا نے کامیابی حاصل کی تھی۔تب مہاراشٹر وادی گومنتک پارٹی (ایم جی پی) کے ساتھ اس کا اتحاد تھا لیکن اب یہ گٹھ بندھن ٹوٹ گیا ہے۔ مہاراشٹر وادی گومنتک پارٹی نے انتخابات کے اعلان ہونے کے بعد بھاجپا اتحاد توڑ لیا ہے۔ این جی پی چیف دیپک چھب لیکر نے گووا کی گورنر مردلسنہا اور اسمبلی اسپیکر اننت ساٹھے کو اپنا خط لکھ کر اس سلسلے میں اطلاع دے دی ہے۔ ریاست میں 40 سیٹوں پر اب وہ آر ایس ایس کے سابق لیڈر سبھاش ویلنکر کی پارٹی کے ساتھ مل کر چناؤلڑے گی۔ شیو سینا کے بھی اس اتحاد میں شامل ہونے کا امکان ہے۔ چھب لیکر نے بتایا کہ پارٹی 22 سیٹوں پر چناؤ لڑے گی۔ کانگریس پارٹی کیلئے یہ چناؤ وجود بجانے کا موقعہ ہے۔ 2012ء کے چناؤ میں 9 سیٹ کے ساتھ وہ کم ا

لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے پاک باز آنے والا نہیں ہے

پٹھانکوٹ کی طرح ایک بار پھر سال کے شروع میں ہی جموں و کشمیر میں آتنکی حملہ ہوا ہے۔اکھنور سیکٹر میں ایتوار کی رات 1 بجے دہشت گردوں نے جنرل ریزرو انجینئرنگ فورس کے کیمپ پر حملہ کرکے اس میں کام کرنے والے 3 مزدوروں کو موت کی نیند سلا دیا۔ کیمپ پر پہلے دستی گولے پھینکے گئے پھر اندھا دھند گولیاں چلائی گئیں۔ وہاں کھڑی گاڑیوں اور دفتری دستاویزات میں آگ لگادی اور اندھیرے و کہرے کا فائدہ اٹھاکر فرار ہونے میں کامیاب رہے۔ اس وقت کیمپ میں 10 ملازم اور 10 مزدور موجود تھے۔ آتنکی حملہ میں 3 مزدورمارے گئے۔ اس سے پہلے دہشت گردوں نے جموں کے ہی نگروٹا سیکٹر میں فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کیا تھا جس میں دو افسر سمیت 7 جوانوں کی جان گئی۔ اسی دن سانبا ضلع میں بارڈر سکیورٹی فورس کے ایک کیمپ پر بھی آتنکی حملہ ہوا تھا۔ ان دہشت گردوں نے 40 دن بعد پھر حملہ کرکے یہ جتادیا کہ ان کی سرگرمی نہ صرف بنی ہوئی ہے بلکہ شاید اور بڑھ گئی ہے۔ دہشت گردوں نے جس طرح حملہ کیا اس سے اسی اندیشے کو تقویت ملتی ہے کہ ان دہشت گردوں کے لئے ہندوستانی سرحد کی ٹوہ لینا ابھی بھی آسان ہے۔ اس سے اندرونی سکیورٹی سسٹم کے چاق چوبند ہونے پر ایک ب

کانگریس اور ہریش راوت کیلئے چناؤوقار کا سوال

اتراکھنڈ میں 15 فروری کو اسمبلی چناؤ کا بگل بجنے کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ کانگریس کے لئے یہ چناؤ کئی معنوں میں اہمیت کے حامل ہیں۔ پارٹی دوسری بار ریاست کی اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں برقرار رکھنے کو بے چین ہے تو اس کی سیاسی وجہ بھی ہمیں سمجھ میں آتی ہے۔ کانگریس کی اصلی پریشانی ریاستوں میں سمٹتے اس کے مینڈیٹ کو بچانے کی ہے۔ بھاجپا کے زبردست اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد کانگریس حکمراں ریاستوں پر اپنی پکڑ بنائے رکھنے کے لئے آنے والے وقت میں مرکزی اقتدار پر اپنی دعویداری کو اور مضبوط کرنے کیلئے 5 ریاستوں میں چناؤ جیتنے کی پوری کوشش کرے گی۔ کانگریس اپنی تیاری کولیکر بیحد چوکس اور فکر مند ہے۔اس نے چناؤ لڑنے کیلئے جارحانہ کوششیں کرنے کی کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔ چناؤ سے پہلے مختلف جائزوں میں پیچھے چل رہی کانگریس کو اب چناوی حکمت عملی ساز پرشانت کمار نامی چمن پراش کا سہارا ہے۔ ایتوار کو پریس کانفرنس میں اس بارے میں سوال کرنے پر وزیر اعلی ہریش راوت نے پرشانت کشور کو چمن پراش بتاتے ہوئے کہا کہ بڑھتی عمر میں ایسے ٹانکوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ چناوی حکمت عملی طے کرنے کے لئے

بی ایس ایف جوان سرحد پر بھوکے رہنے پرمجبور

سرحد پر اپنی جان کی بازی لگا رہے ہمارے بہادر جوانوں کو پیٹ بھر کھانا بھی نصیب نہیں ہورہا ہے ۔جموں وکشمیرمیں بی ایس ایف کے ایک جوان نے اپنے افسروں پر سنگین الزام لگا ئے ہیں ۔29ویں بٹالین کے جوان بہادر یادو نے اتو ار کو فیس بک پر ایک کے بعد ایک 4ویڈیو پوسٹ کئے ہیں فیس بک پر یادو کے ان ویڈ یو کو 65لا کھ بار دیکھا گیا ہے ۔اس میں تیج بہادر نے جوانوں کو خراب کھانے کی شکایت کرتے ہوئے کہاکہ سرحد پر جوان 11گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی بھوکے سونے کو مجبور ہیں کیونکہ افسران راشن بیچ دیتے ہیں پہلے ویڈیو میںیادو نے بتایاکہ ہم صبح 6بجے سے شام 5بجے تک برف میں کھڑے ہوکر ڈیوٹی دیتے ہیں ۔ ہمارے حالات نہ تو میڈ یا دکھاتا ہے نہ ہی وزیر سنتا ہے کوئی سرکار آئے حالات وہی ہیں لیکن ہم سرکار پر الزام لگانا نہیں چاہتے کیونکہ وہ ہر سامان دیتی ہے لیکن دیگر افسر بیچ کر کھاجاتے ہیں ہمیں کچھ نہیں ملتا ۔ کئی بار جوان بھوکے سوتے ہیں میں وزیر اعظم سے کہنا چاہتاہوں کہ وہ اس کی جانچ کرائے ۔ دوستوں یہ ویڈیو ڈالنے کے بعد شاید میں رہوں یا نہ رہوں افسران کے ہاتھ بہت بڑے ہیں میرے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ ویڈ یو نمبر 2اور

گرگٹ کی طر ح رنگ بدلتے ملائم سنگھ یادو

تمام رسہ کشی کے بعد پیر کو آخرکار سماجوادی پارٹی کے چیف ملائم سنگھ یادو نے کہہ دیا کہ چناؤ بعد اکھلیش ہی وزیر اعلی ہونگے ۔ سپا کے اس مہا دنگل میں ابھی تک سخت دکھا ئی دے رہے ملائم کی اس پلٹی سے سیاسی گلیاروں میں بحت چھڑ گئی ہے کہ یہ ان کے من کی بات ہے یا طے شدہ قلمبندکہانی ہے ؟سوال کیا جارہا ہے کہ کیا آخر سپا معاہدے کی راہ پر ہے ؟سپا میں ٹکٹوں کی تقسیم کو لیکر شروع ہوئے جھگڑے پارٹے کے بٹوارے اور چناؤ نشان تک پہنچ گئے ہیں ۔ اکھلیش کو وزیر اعلی کا چہر ہ نہ بنانے کا اعلان اسکی بڑی وجہ تھی ملائم نے پہلے ہی کہا تھا کہ وزیر اعلی کا چناؤ اسمبلی پارٹی کریگی (چناؤ نتیجہ کے بعد)اس کے بعد کہا گیا کہ سپا میں کسی کو وزیر اعلی کا چہر ہ بنانے کی روایت نہیں ہے اب انہی ملائم سنگھ یادو نے پیر کو ایسا یوٹرنرلیا کہ سیاست کے ماہر الگ الگ مطلب نکالنے پر مجبور ہوئے پارٹی دوخیموں میں بٹ گئی او رسبھی فریقین نے پیر کو الیکشن کمیشن میں اپنی اپنی باتیں اور دلیلیں رکھیں ۔ ملائم سنگھ جب لکھنؤ سے دہلی آئے تو انکا رخ بدلا ہواتھا اچانک پارٹی دفتر پہنچے اور جلد ہی جھگڑا سلجھا نے کے اشارے دئے پارٹی میں کوئی جھگڑا نہیں

پرنب مکھرجی کی تشویش واجب ہے

نوٹ بندی کالے دھن اور کرپشن کے خلاف بیشک ایک بڑا قدم ہے مگر صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کی وارننگ پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ اس قدم سے طویل المدت ملنے والے فائدے کی توقعات میں غریبوں کو ہورہی تکلیفوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتالیکن سرکار کو اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ گورنروں اور لیفٹیننٹ گورنروں کے لئے نئے سال کے اپنے خطاب میں بصد احترام پرنب مکھرجی نے دوہرایا ہے کہ نوٹ بندی کالے دھن اور کرپشن کے خلاف ایک بڑا قدم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے جزوی مندی آسکتی ہے۔ اقتصادی ترقی کے دم پر مضبوط فیصلے لے رہی مرکزی حکومت کے لئے جی ڈی پی میں اضافے کے اندازے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نوٹ بندی سے دیش کو کچھ سیکٹروں میں نقصان بھی ہورہا ہے۔ سی ایس او نے رواں مالی سال کیلئے 7.1 فیصدی کی ترقی شرح کا اندازہ لگایا ہے جو کہ ایک سال پہلے 7.6 فیصدی کے مقابلے کم ہے۔ مگر ماہر اقتصادیات اور پرائیویٹ اکنامک ایجنسیاں اس اعدادو شمار سے اتفاق نہیں رکھتیں۔ ان کی مانیں تو جب حتمی طور پر اعدادو شمار آجائیں گے تو ترقی شرح کی تصویر ویسی نہیں رہے گی، جیسی بتائی جارہی ہے۔ ان سبھی کی دلیل ہے کہ جب

پنجاب میں اسمبلی چناؤ کی بساط بچھ چکی ہے

پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کے اعلان کے بعد دیش کی نظریں سب سے زیادہ اہم ریاست اترپردیش اور پنجاب پر ٹک گئی ہیں۔ پنجاب کے لوگوں کے پاس اپنے من کی بات کہنے کے لئے چناؤ کمیشن نے 30 دن کا وقت دیا ہے۔ پنجاب میں عام طور پر اکالی۔ بھاجپا اتحاد بنام کانگریس کے درمیان مقابلہ ہوتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ عام آدمی پارٹی کے چناؤ دنگل میں کودنے کے بعد مقابلہ سہ رخی بنتا نظر آرہا ہے۔ 4 فروری کو ہونے والے اسمبلی چناؤ میں انہی تینوں کے درمیان سخت ٹکر ہوگی۔ پہلے ہم اکالی دل کی بات کرتے ہیں۔ 10 سال میں اقتدار کا سکھ اٹھا چکی شرومنی اکالی دل کے لیڈروں نے پچھلے 6 مہینوں کے دوران یہ سب کچھ کرنے کی تمام کوشش کی ہے جو انہوں نے پچھلے ساڑھے نو سال کے دوران نہیں کی تھی۔ پارٹی کی دیہی علاقوں میں مضبوط بنیاد ہے بھاجپا کے ساتھ اتحاد سے وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرے کا فائدہ بھی ہے۔ ہرمندر صاحب۔ سورن مندر کا ڈیولپمنٹ سہ رخی مقابلے میں حریف ووٹوں کا امکانی بٹوارے کا بھی پارٹی کو فائدہ مل سکتا ہے۔ دوسری طرف اس اتحاد کے سامنے چنوتیاں بھی کم نہیں ہیں۔ اینٹی کمبینسی سے لڑنا ہوگا۔ نشے کا کاروبار اور نوٹ بندی کے بعد بڑھتی

چناؤ سے 3 دن پہلے بجٹ پر اپوزیشن کا اعتراض

پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ شروع ہونے کے تین دن پہلے پیش ہونے والے عام بجٹ کو لیکر سیاسی گھماسان شروع ہوچکا ہے۔ اپوزیشن نے الیکشن کمیشن سے عام بجٹ کو چناؤ بعد پیش کرنے کی مانگ کی ہے جبکہ سرکار نے تاریخ بدلنے سے انکار کرتے ہوئے کہا بجٹ یکم فروری کو ہی پیش ہوگا۔ اپوزیشن پارٹیوں کے ایک نمائندہ وفد نے چناؤ کمیشن سے ملاقات کرکے مانگ کی ہے کہ یکم فروری کو بجٹ پیش کرنے کی سرکاری تیاری کو روکا جائے۔ وہ مانتے ہیں یہ چناؤ ضابطہ کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس کے لئے کئی پارٹیوں نے صدر جمہوریہ کو بھی خط لکھا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ یہ بجٹ اس وقت پیش کیا جائے گا جب دیش کی پانچ ریاستوں میں پولنگ کی تیاری چل رہی ہوگی۔ ان پارٹیوں کو ڈر ہے کہ مرکزی سرکار اس بجٹ میں عوام کو لبھانے والی پالیسیوں و اسکیموں کو اس طرح سے پیش کر سکتی ہے جس سے رائے دہندگان متاثر ہوسکیں۔ کانگریس، سپا، بسپا، ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے، جنتادل (یو) ، آر ایل ڈی کے نیتا اپنی اس مانگ کو لیکر الیکشن کمیشن گئے۔ کانگریس کے لیڈرغلام نبی آزاد نے کہا کہ ہمیں بجٹ اجلاس سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ چناؤ کے درمیان بجٹ پیش کرنے پر اعتراض ہے۔ غور طلب ہے

اکھلیش کانگریس سے اتحاد کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں

یوپی میں چناؤ سے عین پہلے سماجوادی پارٹی میں رسہ کشی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ باپ ۔ بیٹے میں یہ لڑائی اگر ختم ہوجائے اور سمجھوتہ ہوجائے جس کے امکانات روز بروز گھٹتے جارہے ہیں تو اور بات ہے نہیں تو پارٹی دو گروپوں میں بٹتی نظر آرہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اکھلیش اور ملائم الگ الگ چناؤ لڑیں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو کس کا پلڑا بھاری ہوگا؟ سی ووٹر کے تازہ سنیپ پول کے مطابق سبھی نوجوان عمر اور ذات پات کے زیادہ تر حمایتی اکھلیش یادو کے خیمے کے ساتھ ہیں مگر اقتدار کی دوڑ میں بنے رہنے کے لئے اکھلیش کو کانگریس کا ساتھ بھی ضروری ہوگا۔ اگر کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کے ساتھ اکھلیش یادو گروپ کا تال میل ہوتا ہے تو اب بھی وہ چناؤ جیت کر سب کو چونکا سکتے ہیں۔ اس کنبہ جاتی جھگڑے نے ملائم سنگھ یادو کو بہت کمزور کردیا ہے اور ان کے روایتی ووٹروں نے بھی مشکل کی گھڑی میں ان کا ساتھ چھوڑ کر اکھلیش کا دامن پکڑ لیا ہے۔ تازہ سروے میں اکھلیش حمایتی سپا کے پالے میں 24.9 فیصد ووٹر ہیں۔ ملائم حمایتی سپا کو 3.4فیصد لوگوں کا ہی ساتھ مل سکتا ہے۔ سروے میں کانگریس کو 5.8 لوگوں کی حمایت ملے گی۔ باقی پارٹیوں کی بات کریں ت

کیپٹن کول نے پھر چونکایا

اپنی ٹائمنگ اور فیصلے سے حریف ٹیم کو چونکانے کا ہنر رکھنے والے کیپٹن کول مہندر سنگھ دھونی نے اس مرتبہ تو سبھی کو اپنے فیصلے سے تعجب میں ڈال دیا ہے۔ یہ تعجب نہیں تو اور کیا تھا کہ رانچی جیسے شہر سے نکل کر دیش دنیا میں اپنی بڑھیا چھاپ چھوڑنے والے دھونی نے اچانک اعلان کردیا کہ وہ ٹی ۔ٹوئنٹی اور ونڈے کی کپتانی چھوڑ رہے ہیں۔ دھونی نے آسٹریلیا کے ساتھ ٹیسٹ سیریز میں ہی ٹیسٹ کرکٹ سے الوداع کہہ دیا تھا۔ مہندر سنگھ دھونی نے ٹی۔ٹوئنٹی اور ونڈے کی کپتانی چھوڑ کر پھرثابت کردیا کہ وہ ایک ایسے سنجیدہ کھلاڑی ہیں جو اپنے لئے نہیں دیش کے لئے کھیلتے ہیں اور ٹیم انڈیا کے مفاد میں کوئی بھی فیصلہ لے سکتے ہیں۔ کھیل اور یا پھر کوئی اور دیگر میدان ہو اصل لیڈر وہ ہے جو اپنے سے بھی بہتر قیادت کنندہ کو پہچان سکے اور وقت رہتے مرضی سے اپنے آپ چھوڑ دے۔ دھونی کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ آنے والا وقت وراٹ کوہلی کا ہے اور اب وقت آگیا تھا کہ وہ کپتانی چھوڑ کر کوہلی کو آگے کریں۔ ایسا نہیں تھا کہ دھونی پر کپتانی چھوڑنے کا کوئی دباؤ تھا، وہ چاہتے تو کچھ دن اور رک سکتے تھے۔ انگلینڈ کے ساتھ 15 تاریخ کو پنے میں ہونے والا پہلا

سدیپ بندواپادھیائے کی گرفتاری پر واویلہ کیوں

مغربی بنگال میں مبینہ روز ویلی چٹ فنڈ گھوٹالہ میں ترنمول کانگریس کے ایم پی اور لوک سبھا میں پارٹی کے لیڈر سدیپ بندو اپادھیائے کی گرفتاری سے سیاسی ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے۔ ان کو سی بی آئی نے منگل کو گرفتار کیا۔ معاملہ میں پارٹی کے ایک اور ایم پی تپسپال کی گرفتاری کے بعد یہ پہلی بار ہے جب سدیپ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ روز ویلی گروپ پچھلے دو سال سے سی بی آئی اور دیگر جانچ ایجنسیوں کے راڈار پر تھا۔روز ویلی گھوٹالہ قریب6 ہزار کروڑ کا ہے جو پونجی گھوٹالوں میں سب سے بڑا ہے۔یہ شاردہ گھوٹالہ سے کم سے کم 16 گنا بڑا ہے۔ سی بی آئی کے مطابق روز ویلی نے سرمایہ کاروں سے قریب17 ہزار کروڑ روپے ٹھگے۔ سی بی آئی نے اپنی ابتدائی چارج شیٹ میں روز ویلی کے چیف گوتم کٹو کو بنیادی ملزم بتایا ہے۔ گوتم کی 700 ایکڑ کی اسٹریٹ 12 ریاستوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ بتایا جاتا ہے اس کے پاس 150 کاریں جس میں کئی لگژری کاریں شامل ہیں۔ ہندوستانی سیاست کا یہ وہ مرحلہ ہے جس میں یہ چلن عام ہوتا جارہا ہے کہ اپنی حریف پارٹیوں کے لیڈروں کے کرپشن کو بڑھا چڑھا کر پروپگنڈہ کرتے ہیں لیکن جب ان کے کسی نیتا پر کرپشن کا الزام لگتا ہے اور اسے گرفت