اشاعتیں

جنوری 18, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

کول بلاک الاٹمنٹ گھوٹالے میں منموہن سنگھ سے پوچھ تاچھ!

کول بلاک الاٹمنٹ گھوٹالہ سامنے آنے کے بعد یوپی اے سرکار کے چلے جانے کے بعد سی بی آئی نے ا س معاملے میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ ان سے’’ ہنڈالکو‘‘ کمپنی کو کول بلاک الاٹمنٹ کئے جانے کے بارے میں معلومات کی گئیں۔16 دسمبر کو سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سی بی آئی کی ایک ٹیم نے منموہن سنگھ سے ان کی رہائش گاہ پر پوچھ تاچھ کی۔ سی بی آئی کو اس معاملے میں27 جنوری کو خصوصی عدالت میں اپنی اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنی ہے۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کوئلہ گھوٹالے اجاگر ہونے کے بعد ’ہزاروں جوابوں سے اچھی ہے میری خاموشی‘ جیسا جملہ کہہ کر بچ نکلنے والے منموہن سنگھ اب سی بی آئی کے سوالوں کے دائرے میں آگئے ہیں۔ حالانکہ اس خبر کی تصدیق نہ تو ان کی طرف سے اور نہ ہی سی بی آئی کی طرف سے ہوئی ہے لیکن اس معاملے میں کسی طرح کی تردید نہ آنے سے اس معاملے کو تقویت ملتی ہے کہ ان سے پوچھ تاچھ ہوئی ہے یہ مبینہ جانچ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی عوامی زندگی پر داغ لگانے والی ہے۔ کوئلہ وزیر کی شکل میں ان کے کردار کو لیکر پوچھ تاچھ کی گئی تھی جس میں آدتیہ برلا کی کمپنی ’ہنڈالکو‘ کو کول بلاک الاٹمن

ٹائیگروں کا بڑھتا کنبہ اچھی خبر!

پچھلے کافی عرصے سے شیروں کی گھٹتی تعداد باعث تشویش بنی ہوئی تھی۔ دیش میں سمٹتے جنگلوں کے درمیان ٹائیگروں کی دھاڑ بہت ہی کم سنائی پڑتی تھی۔ خاص کر2008 میں جب بھارت میں صرف 1400 شیر یعنی ٹائیگر بچے تھے تب ان کے وجود پر ہی بحران منڈرانے لگا تھا۔ ٹائیگروں کے تحفظ کے لئے 1973 میں بھارت حکومت نے پروجیکٹ ٹائیگر نام سے پروگرام شروع کیا تھا اس کے تحت دیش کی 18 ریاستوں میں اس وقت 47 ٹائیگر ریزرو ہیں۔ یہ دیش کی کل جغرافیائی حدود اربعہ کا 2.08 فیصدی حصہ ہے۔ دنیا کے70 فیصد ٹائیگر اکیلے بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ پچھلی صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں تقریباً1 لاکھ ٹائیگر ہوا کرتے تھے اس آبادی کا 97 فیصد حصہ ختم ہوگیا ہے اب یہ تعداد تین چار ہزار کے درمیان ہی رہ گئی ہے۔ جنگلاتی جانوروں کے شائقین کے لئے 2015ء بڑی خوشخبری لیکر آیا ہے۔ 2010 سے2014 تک دیش بھر میں ٹائیگر کی تعداد میں 30.5فیصد اضافہ ہوا ہے۔2010 میں ٹائیگروں کی تعداد 1706 تھی جو 2014 میں بڑھ کر 2226 ہوگئی ہے۔ 2006 میں یہ اعدادو شمار محض1411 ہوا کرتے تھے۔ منگل کے روز نئی دہلی میں مرکزی وزیر جنگلات ماحولیات پرکاش جاوڑیکر نے ایک پروگرام میں قومی

اوبامہ کی سکیورٹی پر امریکی ضد بھارت نے ٹھکرائی!

امریکی صدر براک اوبامہ کے دو روزہ دورۂ ہند کی تیاریاں زوروں پر جاری ہیں۔ پچھلے پیر کو اوبامہ کے دورۂ بھارت پر امریکی اورہندوستانی حکام کی ایک خصوصی میٹنگ ہوئی جس میں امریکہ نے اوبامہ کی سکیورٹی اپنے ہاتھوں میں لینے کی تجویز رکھی تھی لیکن بھارت نے منع کردیا۔ ہندوستانی حکام کا کہنا تھا کہ یوم جمہوریہ ہندوستان کا ایک فیسٹیول ہے اس لئے سکیورٹی بھی ہم ہی کریں گے۔ امریکی حکام نے چار مطالبے رکھے تھے جنہیں بھارت نے مسترد کردیا۔پہلا مطالبہ امریکہ کا یہ تھا کہ راج پتھ کے آس پاس چھتوں پر صرف امریکی سونگھنے والا عملہ تعینات ہوگا۔ بھارت نے کہا یہ ممکن نہیں ہے تقریب میں بھارت کے صدر اور وزیر اعظم سمیت کئی اہم شخصیات بھی ہوں گی ایسے میں ہندوستانی اسنائپرس بھی تعینات ہوں گے۔ دوسری تجویز تھی جس راستے سے اوبامہ جائیں وہاں پر کوئی دوسرا نہ چلے۔بھارت نے کہہ دیا یہ ممکن نہیں ہے، مہمان کا راستہ میزبان ہی طے کرتا ہے۔ اب صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم اور باقی اہم شخصیات بھی اسی راستے سے جائیں گی۔ تیسری تجویز صدر پرنب مکھرجی اور اوبامہ الگ الگ جائیں ،بھارت نے بتادیا ہے کہ مہمان خصوصی صدر جمہوریہ کے ساتھ ہی جات

ٹکٹوں کو لیکربھاجپا میں مچا گھمسان!

یوں تو بھارتیہ جنتا پارٹی میں باہر سے لیڈروں کے آنے کی بھیڑ سی لگی ہوئی ہے۔ کیرن بیدی کے بعد کانگریس کی تیز طرار خاتون لیڈر کرشنا تیرتھ آئیں، شازیہ علمی آئیں نہ جانے کون کون آیا۔ بھاجپا میں شامل ہونے کی ایک دوڑ سی لگ گئی ہے جہاں بھاجپا ہائی کمان کو لگتا ہے کہ ان باہری لیڈروں کے آنے سے پارٹی مضبوط ہوئی ہے اور7 فروری کے دن جب ووٹ پڑیں گے تو اسے واضح اکثریت ملے گی لیکن ان باہری لیڈروں کے آنے کی پارٹی کے اندر مخالفت ہورہی ہے۔ باہری لیڈروں کے آنے سے وہ ٹکٹ تقسیم میں جانبدرانہ رویئے کو لیکر بھاجپا میں آتے ہی کچھ نہ کچھ زیادہ دکھائی دینے لگا ہے لیکن اندر جم کر گھمسان مچا ہوا ہے۔ ٹکٹ نہ ملنے سے کئی لیڈروں کے حمایتیوں کا غصہ سڑکوں پر آگیا ہے۔ پردیش بھاجپا صدر ستیش اپادھیائے سمیت کئی اور لیڈروں کے حمایتی منگلوار کو ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض دکھائی دئے۔ انہوں نے پردیش بھاجپا دفتر میں جاکر جم کر ہنگامہ برپا کیا۔ ان ورکروں کا کہنا ہے بھاجپا کتنی اصولی پارٹی ہے اس کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ اس کو قائم ہوئے 34 برس گزر گئے ہیں۔ پارٹی کی مرکز میں حکومت ہے لیکن وزیر اعلی کا چہرہ پیراشوٹ سے لانا پڑا اور چار

صدر کی نیک نصیحت ، آرڈیننس سے بچیں!

مودی حکومت کے8 ماہ کے عہد میں ایک کے بعد ایک 9 آرڈیننس لانے کے پیش نظر صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کی نصیحت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صدر نے سرکار کو آرڈیننس راج سے بچنے کیلئے سیدھا پیغام دیا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کو بھی سخت پیغام دیتے ہوئے کہہ دیا کہ اقلیتی اپوزیشن اکثریت کی آواز کو بے وجہ نہیں دبا سکتی۔ 16ویں لوک سبھا میں حکمرانی اور پائیداری کیلئے اکثریت ملی ہے۔ آئے دن آرڈیننس جاری کرنے سے بچنے کے لئے دونوں کو آپس میں مل بیٹھ کر کوئی باقاعدہ حل نکالنا چاہئے۔ صدر محترم نے بلوں کو پاس کرانے کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کو بھی غیرضروری بتایا ہے۔ ایسا کہہ کر انہوں نے مودی سرکار کو چوکس کیا ہے۔ پارلیمانی وقار کو لگاتارٹھیس پہنچنے پر دیش کی بیدار عوام فکر مند ہے۔ میڈیا سمیت کئی اسٹیج پر یہ تشویش ظاہرکی گئی ہے اور اب صدر محترم نے بھی اسے اٹھا لیا ہے۔ ایک سرپرست کی طرح صدر پرنب مکھرجی نے مناسب طور پر دونوں فریقین کو یاد دلایا ہے جب پارلیمنٹ آئین سازیہ میں ناکام ہوتی ہے تو اس پر سے جنتا کا بھروسہ ٹوٹتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کارروائی میں رخنہ نہیں ڈالنا چاہئے۔ شور شرابہ کر

عیسائیوں کے سپریم پیشوا پوپ فرانسس کے لائق تحسین خیالات!

کیتھولک عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا پوپ فرانسس نے اپنے ایشیائی دورے کے دوران سری لنکا اور منیلا میں اپنے خطابات میں کہا سماج میں مذہبی کٹرتا ،کرپشن اور ناانصافی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس کی پوری ذمہ داری پالیسی سازوں اور حکمرانوں کی بنتی ہے۔ صحافیوں سے مخاطب پوپ فرانسس نے فرانسیسی میگزین ’’شارلی ہیبدو‘‘ پر ہوئے آتنکی حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا اظہار آزادی ضروری ہے لیکن اس کی آڑ میں دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور انہیں بھڑکانا غلط ہے۔ ایسا ہونے پر اس کیلئے سخت رد عمل جھیلنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا مذہبی آزادی اور اظہار آزادی ہر کسی کا بنیادی حق ہے لیکن اس حق کے ساتھ یہ بھی فرض وابستہ ہے کہ ایسا کچھ بھی کرتے وقت یہ خیال رکھنا جانا چاہئے کہ اس سے کسی کو ٹھیس نہ پہنچے بلکہ اس میں سب کی بھلائی شامل حال ہو۔ پوپ نے یہ کہہ کر بھی صاف اشارہ دے دیا کہ میگزین میں پیغمبر حضرت محمدؐ کا کارٹون چھاپا جانا صحیح نہیں تھا۔ پوپ نے منیلا پہنچ کر یہاں کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کو غریبوں کے خلاف ہورہی ناانصافی ،مظالم اور کچلنے والی پالیسیوں کے خلاف آگاہ کرتے ہوئے کہا ان کی وجہ سے ہی سماج میں ز