شکست کے بعدکانگریس میں اندر اور باہر لیڈر شپ پر اٹھے سوال!

جیسا کہ میں نے اسی کالم میں اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ چار ریاستوں میں کراری ہار سے کانگریس کے اندر اور اس کے ساتھیوں میں لیڈر شپ کے خلاف بغاوتی آوازیں اٹھنے لگیں گی۔ ویسا ہی اب دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آخر ہار کی ذمہ داری کسی کو تو لینی پڑے گی اس سے بھی زیادہ اہم شاید یہ ہے کہ 2014ء کے عام چناؤ کے لئے کانگریس کی قیادت کون کرے گا؟ پہلے بات کرتے ہیں کانگریس کے اندر اس شرمناک ہار کے بعد اٹھی بغاوت کی آوازیں۔ اگر ہم دہلی سے شروع کریں تو سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت نے ہار کی سب سے بڑی وجہ پارٹی کے سینئر لیڈروں سے تعاون نہ مل پانے کو بتایا۔ان کا اشارہ صاف طور پر دہلی پردیش کانگریس کے پردھان جے پرکاش اگروال کی جانب ہے۔ یہ صحیح ہے کہ دہلی اسمبلی چناؤمہم میں اکیلی شیلا جی ہی دن رات ریلیوں میں تقریر کرتی نظر آئیں۔ اس کے پیچھے جے پرکاش اور شیلا جی کے درمیان کافی عرصے سے 36 کا آنکڑا بھی ایک وجہ تھی۔ جے پرکاش کا کہنا تھا کہ شیلا جی ہمیشہ اپنی مان مانی کرتی تھیں اور کہیں بھی انہوں نے انہیں ساتھ لینے کی کوشش نہیں کی۔ راجستھان سے بھی اشوک گہلوت حمایتی اب کھل کر نائب صدر راہل گاندھی پر یہ کہتے ہوئے الزام لگا رہے ہیں کہ پولنگ سے ٹھیک پہلے سی پی جوشی کا نام آگے بڑھا کر وہ کیا سندیش دینا چاہتے تھے؟ لیکن سب سے تلخ حملہ پارٹی کے سینئر لیڈر منی شنکر ایئر نے کیا۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے 2014 کے لوک سبھا چناؤ میں خدشہ ظاہر کرتے ہوئے یہ کہہ کر سنسنی پھیلادی کے کچھ وقت پہلے اپوزیشن میں بیٹھنا پارٹی کے لئے اچھا رہے گا۔ ایئر نے پارٹی میں زبردست تبدیلی کی وکالت کر تنظیم میں انقلابی سطح پر قدم اٹھانے کی صلاح دی ہے۔ حالیہ ریاستی اسمبلی چناؤ میں زبردست شکست کے بعد کانگریس میں خود محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس تجویز کو ناکافی مانتے ہوئے ایئر نے کہا کہ اب کافی دیر ہوچکی ہے ان کا کہنا تھا دیش کے32 لاکھ پنچایت نمائندوں میں ایک تہائی کانگریسی ہیں۔ 10 لاکھ کیڈر کی پارٹی دیش میں دیگر کسی پارٹی کو دھول چٹا سکتی ہے لیکن جب اس کا استعمال نہیں ہوگاتو نتیجے اسی طرح کے آئیں گے۔ نچلی سطح کی لیڈر شپ تبدیلی کے لئے کارروائی ہونی چاہئے لیکن چاپلوسی کے کانگریسی کلچر کے چلتے ہمیں شبہ ہے کہ پارٹی میں کچھ خاص تبدیلی ہوگی۔لیکن معاملہ جوں کا توں رہے گا اور پارٹی دگوجے سنگھ جیسے چاپلوس لیڈروں کے دم خم پر چلتی رہے گی اور ٹوٹے گی۔ اب بھی دگوجے سنگھ کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی چناؤ کے نتائج راہل گاندھی کے خلاف ریفرنڈم نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا اسمبلی چناؤ عام چناؤ سے الگ ہوتے ہیں اور انتخابات میں کانگریس کو ہوئے نقصان کو 2014ء میں لوک سبھا چناؤ میں اس کی ہار کا اشارہ نہیں مانا جاسکتا۔ اشو الگ ہوتے ہیں۔ اسی درمیان ایک سرکردہ لیڈر ستیہ ورت چترویدی نے اپنا تلخ تبصرہ کیا ہے کہ کانگریس کے جو خراب حالات بنے ہیں اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ اعلی کمان چاپلوسوں کی زیادہ سنتا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کانگریس میں اعلی کمان کا مطلب پارٹی چیف سونیا گاندھی ہیں۔ ایسے میں ستیہ ورت نے ایک طرح سے سونیا گاندھی کو ہی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ متنازعہ تبصروں کیلئے مشہور ستیہ ورت کا مدھیہ پردیش کی سیاست میں کافی دبدبہ رہا ہے۔ اسی وجہ سے تنظیم کی قومی لیڈر شپ نے انہیں لگاتار نظر انداز کیا ہے۔ انہوں نے مدھیہ پردیش میں پارٹی کی ہار کی ذمہ داری سیدھے طور پر دگوجے سنگھ پر چھوڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فی الحال دو سال سے کانگریس لیڈر شپ سے بار بار کہا جارہا ہے کہ مدھیہ پردیش کی جنتا دگوجے سنگھ کو سب سے زیادہ ناپسند کرتی ہے لیکن کانگریس لیڈر شپ ان لوگوں کی بات نہیں سنتا جو کڑوی باتیں سنتے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کو نقصان پہنچانے والے دگوجے سنگھ کو پورے چناؤ میں سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ جس آدمی کو سب سے زیادہ ناپسند کیا جاتا ہے اسے سب سے زیادہ اہمیت دے کر آخر کانگریس لیڈر شپ کرنا کیا چاہتی ہے؟ ستیہ ورت کہتے ہیں کہ اگر جوتر ادتیہ سندھیا کو چناؤ مہم کی کمان سونپی جاتی تو بہتر نتیجے آتے۔ وہ کہتے ہیں کیا دگی کے نام کانگریس لیڈر شپ نے مدھیہ پردیش کی جاگیر لکھ دی ہے؟ ادھر مرکز میں بھی کانگریسیوں نے پارٹی لیڈر شپ کی ناک میں دم کردیا ہے۔ منموہن سرکار کے خلاف آندھرا پردیش کے ناراض ممبران نے اپنی ہی سرکار کے خلاف عدم اعتمادکا نوٹس دے دیا ہے۔ انہوں نے اس غیرمقبول سرکار کو گرانے کے لئے نمبر بھی اکھٹے کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔ وجے واڑہ سے کانگریس ایم پی ایل راج گوپال نے کہا کہ ہمیں آندھرا پردیش اور ریاست کے باہر سے کچھ ایم پی کی حمایت ملی ہے۔ یہ تحریک عدم اعتماد ایک غیر مقبول سرکار کے ذریعے تلنگانہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے روکنا ہے۔ اب بتا کرتے ہیں یوپی اے سرکار کی اتحادی اور حمایتی پارٹیوں کی ان میں ڈی ایم کے ، ترنمول کانگریس جیسی اتحادی پارٹیاں پہلے ہی الگ تھلگ وجوہات سے یوپی اے سے باہر ہوچکی ہیں۔ تمام کوششوں کے باوجود جنتادل (یو) بھی اب یوپی اے کنبے سے جڑنے سے کترارہی ہے۔ بیجو جنتا دل بھی یوپی اے سے دوری بنائے رکھنے کی سوچ رہی ہے۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی تاریخی جیت سے تیسرے مورچے کے لئے حوصلہ پارہی علاقائی پارٹیوں کو نئی آکسیجن مل گئی ہے۔ این سی پی کے چیف شرد پوار اس بار بھی نہیں چوکے۔ انہوں نے کہا کانگریس جب سنکٹ کے دور میں آتی ہے تو وہ ایسی ہی چالیں چلتی ہے۔ انہوں نے بغیر نام لئے کانگریس کے یووراج پر طنز کسا اور کہہ دیا لیڈر شپ کی کمزوری کی وجہ سے کانگریس چناؤ ہارتی ہے۔ ایسے میں وقت رہتے کانگریس لیڈر شپ کے بارے میں دوبارہ سے نظرثانی کرنی چاہئے۔ دیش چاہتا ہے لیڈر شپ مضبوط اور پائیدار ہو۔ تاریخ انور نے راہل گاندھی کا نام لے کر کہہ دیا اس ہار پر راہل گاندھی کو منتھن کرنا چاہئے کیونکہ کانگریس نے چناؤانہی کی غیر اعلانیہ قیادت میں لڑے تھے۔ اس لئے ہار کی ذمہ داری انہیں لینی چاہئے۔ان چناؤ نتیجوں کے نفع نقصان کیلئے کانگریس تو ذمہ دار ہے ہی اور یہ ہی اب دیش کا موڈ ہے کہ لوگ کانگریس کے خلاف ہیں۔ ان چاروں ریاستوں میں لوگوں نے کانگریس کو مسترد کردیا ہے۔ لوگ بھلے ہی ماننے کو تیار ہوں نہ ہوں ان چناؤ کا بڑا اثر آنے والے2014ء لوک سبھا چناؤ میں پڑنے والا ہے۔ لیکن اس سیاسی واقعے سے یوپی اے کی کانگریسی اتحادی پارٹیاں سہم گئی ہیں۔ انہیں لگنے لگا ہے کانگریس کے ساتھ ہی چپکے رہے تو ان کا بھی سیاسی وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اسی کے چلتے کانگریس کے کئی ساتھیوں نے اب الگ راستے پر چلنے کا متبادل تلاشنا شروع کردیا ہے۔کل ملا کر کانگریس کے اندر کانگریس کی اتحادی پارٹیوں نے کانگریس لیڈر شپ کی قابلیت پر سوال کھڑے کرنے شرو ع کردئے ہیں۔ دیکھیں 100 سال کی پرانی اس بڑی پارٹی کو مستقبل میں صحیح لیڈر شپ ملتی ہے یا یوں ہی یہ پارٹی دھرے پر چلتی رہے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟