آخر کار لوکپال بل کیلئے انا کا خواب پورا ہوا

46 سالوں کی کوششوں کے بعد آخر کار دیش کو اب ایک تاریخی لوکپال قانون مل گیا ہے۔ راجیہ سبھا میں پہلے ہی بل کو پاس کردیا تھا اور بدھ کو لوک سبھا نے بھی لوکپال و لوک آیکت بل 2013 کو صوتی ووٹ سے پاس کردیا۔ سماجوادی پارٹی کو چھوڑ کر باقی دیگر پارٹیوں خاص کر بھاجپا لیفٹ، بسپا وغیرہ نے بل کی حمایت کی ہے۔بل کا احتجاج کررہی سپا کے ممبران ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔2011ء میں جب انا ہزار اسی لوکپال کو لیکر دہلی کے رام لیلا میدان میں انشن پر بیٹھے تھے تبھی لگنے لگا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب سرکار اور سیاسی پارٹیوں کو عوام کی مانگ کو ماننا پڑے گا۔ آج اگر یہ قانون بننے جارہا ہے تو اس کا سہرہ انا ہزارے کو جاتا ہے۔ یہ انہیں کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ کانگریس بھاجپا نے بھی اس کی حمایت کرکے اچھا کیا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں کانگریسی ایم پی اور پارلیمنٹری سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین ستیہ ورت چترویدی کو نہیں بھولنا چاہئے اور ان کی تعریف کرنا سیاسی پارٹی بھی نہ بھولیں۔ اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی نے کہا کہ دو سال پہلے 27 دسمبر2011 کو اس سرکار نے لوکپال بل پر کنی کاٹ لی تھی۔ جیٹلی نے کہا بل پر عام رائے بنانے کے لئے سلیکٹ کمیٹی کے چیئرمین ستیہ ورت چترویدی نے پارٹی لائن سے بالاتر ہوکر سخت محنت کی۔ ان کی بعد سبھی مقررین نے چترویدی کی کوشش کی تعریف کی۔ دراصل جب سرکار نے اپوزیشن پارٹیوں کے خدشات کو دور کردیا اور ان کے تقریباً سارے سجھاؤ نئے بل میں شامل کرلئے تو بل روکنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ بیشک لوکپال بل سے کرپشن پوری طرح سے نہیں رکے گا لیکن یہ صحیح سمت میں ایک صحیح قدم تو ہے ہی سب سے بڑی بات میری رائے میں اس بل سے ہر سطح پر پہلی بار لیڈروں اور افسروں وغیرہ کو جوابدہی ہوگی۔ اب تک تو کسی سطح پر جوابدہی طے نہیں تھی۔ جیسا کہ انا نے کہا اب میں خوش ہوں 50 فیصدی کرپشن تو مٹے گا۔ پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد بل کو صدر کو بھیجا جائے گا۔ ان کے دستخط کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ ریاستوں میں لوکپال کی طرز پر لوک آیکت معمور ہوں گے۔ اس کے لئے متعلقہ ریاستوں کو قانون بنانے کیلئے ایک سال کا وقت دیا گیا ہے۔ ترمیم لوکپال بل میں اہم شقات اس طرح ہیں۔ لوکپال کی جانچ کے دائرے میں وزیر اعظم، ممبر پارلیمنٹ، مرکزی سرکار کے گروپ اے بی سی ڈی افسر اور عام ملازم آئیں گے۔ لوک آیکت کے دائرے میں وزیر اعلی ریاستی وزراء، ایم ایل اے اور ریاستی سرکار کے افسر ہوں گے۔ لوکپال کو کچھ معاملوں میں دیوانی عدالت کے بھی اختیار ہوں گے۔یعنی یہ سزا دے سکتا ہے۔ لوکپال کے پاس کرپٹ افسر کی پراپرٹی باقاعدہ قرق کرنے کا اختیار ہوگا۔ خاص حالت میں بدعنوانی سے کمائی پراپرٹی اور ان کی دوسری املاک یا دیگر فوائد کو ضبط کرنے کا حق ہوگا۔ مرکزی سرکار کو کرپشن کے معاملوں کی سماعت کے لئے اتنی ہی خاص عدالتوں کو قائم کرنا ہوگا جتنی لوکپال بتائیں گے۔ اگر ایک سال کے وقت میں معاملہ پورا نہیں ہوتا تو خصوصی عدالت اس کے بعد معاملے پر سماعت کرے گی اور سماعت تین مہینے میں پوری کرنی ہوگی۔ یہ میعاد تین تین مہینے کے حساب سے بڑھائی جاسکتی ہے۔ بہرحال یہ ایک تاریخی قدم ہے ، اس کا اثر ضرور ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟