اشاعتیں

مارچ 23, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

وقت بتائے گا نئی دہلی اور مشرقی دہلی پارلیمانی سیٹ پر کس کا ہوگا دبدبہ!

دہلی کی سبھی ساتوں پارلیمانی سیٹوں کے لئے نام واپسی کے آخری دن کل150 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ چاندنی چوک سیٹ پر9 اور نارتھ ایسٹ دہلی سے 14 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں۔ دہلی میں مجموعی طور پر ساتوں سیٹوں کیلئے 150 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں۔ نئی دہلی سیٹ صرف دہلی کے لئے ہی نہیں بلکہ دیش کے لئے ہمیشہ وی آئی پی سیٹ رہی ہے۔ اس سیٹ کی اہمیت اسی بات سے لگتی ہے کہ اٹل بہاری واجپئی، لال کرشن اڈوانی، راجیش کھنہ جیسی سرکردہ ہستیاں یہاں سے ایم پی رہ چکی ہیں۔ نئی دہلی پارلیمانی سیٹ پر ایک بار پھر دیش کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے میں یہاں سے اہم امیدواروں کے بارے میں روشنی ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں کہ نئی دہلی پارلیمانی سیٹ پر سرکاری ملازمین کا ایک بڑافیکٹر ہے لوک سبھا سیٹ پرہار یا جیت طے کرنے میں سرکاری ملازمین کا نظریہ سب سے بڑا فیکٹر ثابت ہونے والا ہے۔ حلقے میں ویسے تو دہلیمیں باقی 6 لوک سبھا سیٹوں کے مقابلے میں چاندنی چوک میں اور نئی دہلی میں سب سے کم ووٹر ہیں۔ نئی دہلی حلقے میں سرکاری ملازمین کا تناسب زیادہ ہے اور اس میں 14.89 لاکھ ووٹروں میں 2.5 لاکھ سرکاری مل

دبنگوں کے معاملے میں حمام میں سبھی پارٹیاں ننگی ہیں!

بہت پرانی بات نہیں ہے جب سپریم کورٹ نے دیش کی سیاست کو جرائم سے بچانے کے لئے ایک اہم فیصلہ دیا تھا۔تب ایک بار تو ایسا لگا تھا کہ اب مستقبل میں سیاست میں جرائم کی چھایا ختم ہوجائے گی۔ تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا۔ دو ممبران پارلیمنٹ لالو پرساد یادو ، رشید مسعود کی ممبر شپ بھی چلی گئی تھی لیکن قتل ،لوٹ مار اور تشدد جیسے سنگین معاملوں میں گھرے کئی دبنگی ایک بار پھر چناؤ میں اترے ہوئے ہیں۔ اصولوں کی بات کرنے والی کئی پارٹیاں انہیں اپنے پالے میں کھینچنے سے باز نہیں آئیں۔ سب کی نظر سیٹیں بچانے میں لگی ہوئی ہے وہیں کئی دبنگئی ایسے بھی ہیں جو بڑی پارٹیوں سے موقعہ نہیں ملا تو وہ علاقائی پارٹیوں کے سہارے پارلیمنٹ میں پھر سے دستک دینا چاہتے ہیں۔ وارانسی میں دبنگی مختار انصاری نے چناؤ لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔ انصاری جیل سے ہی چناؤ لڑیں گے۔ الہ آباد کی پھولپور سیٹ سے ایم پی کا سفر کر چکے دبنگی عتیق احمد بسپا راج میں بھاگے بھاگے گھوم رہے تھے لیکن جیسے ہی سپا کا دور آیا وہ تال ٹھونکنے لگے اور سپا نے آخر کار انہیں چناؤ میدان میں اتار دیا۔ ادھر بلرام پور سیٹ س

این سرینواسن : بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے!

اکیلے سیاستداں ایسے نہیں ہوتے جو ہر حال میں سنگین سے سنگین الزامات لگنے کے بعد کرسی سے چپکے رہتے ہیں۔ ہمارے کھیلوں کے مٹھادھیش بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ آپ بی سی سی آئی چیئرمین این سرینواسن کا معاملہ ہی لے لیجئے۔ آئی پی ایل اسپارٹ فکسنگ معاملے میں وہ پھنسے ہوئے ہیں تمام الزامات کے باوجود وہ اپنی کرسی چھوڑنے کوتیار نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے منگلوار کو مدگل کمیٹی کی رپورٹ پر سماعت کرتے ہوئے اس کے جسٹس اے کے پٹنائک کی بنچ نے جس طرح سے این سرینواسن کو پھٹکا لگائی اور عہدہ چھوڑنے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں فرمان جاری کرنے کی بات کہی تھی۔ اس کے بعد تو چاہئے تھا کہ سرینواسن فوراً استعفیٰ دے دیتے۔ کرسی سے چپکے رہنا اور کوئی گھپلا سامنے آجانے پر خودبخود ہی جانچ بٹھا کر خود کو بے قصور ثابت کردینا نیتاؤں کا ہی نہیں ہمارے دیش کے کھیل اداروں کے اعلی کمان کا بھی محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔بی سی سی آئی کے صدر مسٹر سرینواسن کی بیجا ضد کو دیکھتے ہوئے آخر کار جسٹس پٹنائک کی بنچ کو کہنا پڑا کے سٹے بازی اور اسپارٹ فکسنگ کی منصفانہ جانچ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے عہدے سے فوراً ہٹ جائیں۔ عدالت نے صاف کہا

پنجاب کا سب سے بڑا دلچسپ مقابلہ: ارون جیٹلی بنام کیپٹن امرندر سنگھ!

بھارتیہ جنتا پارٹی کے راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی آئے تو تھے امرتسر کو بھاجپا کا ایک مضبوط اور محفوظ قلعہ مان کر لیکن کانگریس نے ان کے سامنے کیپٹن امرندر سنگھ جیسے مضبوط امیدوار کو اتار کر ان کی ڈگر ہلا دی۔ اگر ڈگر مشکل جیٹلی کی ہوئی ہے تو کیپٹن امرندر سنگھ کا بھی اب مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ پہلے کیپٹن نے امرتسر سے چناؤ لڑنے سے منع کردیا تھا لیکن کانگریس اعلی کمان (سونیا ۔ راہل) کے حکم کے بعد ان کو میدان میں کودنا پڑا۔دراصل امرتسر سیٹ سے کانگریس کو جیٹلی کے خلاف ایک مضبوط اور بڑے امیدوار کی تلاش تھی اور اس سلسلے میں ہائی کمان نے کیپٹن کو بھٹنڈہ یا امرتسر سے چناؤ لڑنے لو کہا تھا لیکن انہوں نے اسے یہ کہہ کر منع کردیا کہ وہ انہیں سیٹوں تک محدود رہ جائیں گے اور پٹیالہ سے چناؤ لڑرہی اپنی بیوی اور وزیر مملکت خارجہ پرمیت کور کے علاوہ ریاست میں پارٹی کے لئے چناؤ کمپین نہیں کرسکیں گے۔ بتایا جاتا ہے ریاست میں پارٹی کی حالت کو دیکھتے ہوئے اعلی کمان نے کیپٹن کو امرتسر سیٹ سے چناؤ لڑنے کے لئے منا لیا۔ ان کی امیدواری کا اعلان ہوتے ہیں امرتسر میں کانگریس ورکروں میں خوشی کی لہر دوڑ گ

نریندر مودی کا مشن272+ بنام راجناتھ سنگھ کا خفیہ مشن!

عام چناؤ میری رائے میں مودی بنام باقی بن گیا ہے۔ کانگریس، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، انا ڈی ایم کے و عام آدمی پارٹی سبھی نریندر مودی سے لڑ رہے ہیں اورکوئی اشو نظر نہیں آرہا ہے۔ اس چناؤ میں نریندرمودی اپنے مشن272+ پر دن رات لگے ہوئے ہیں لیکن پچھلے کچھ دنوں سے جو مودی حامی ہوا دیش میں بنی تھی اس کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ خود بھارتیہ جنتا پارٹی ہی ہے۔ پارٹی میں ٹکٹوں کے بٹوارے کو لیکر پیدا ہوئی ناراضگی اور وفادار بزرگ نیتاؤں کی بے عزتی وغیرہ کے کہرام میں مودی کے مشن 272+ کے پنکچر ہونے کا خطرہ کھڑا کردیا ہے۔ پارٹی لیڈر شپ خاص کر پارٹی پردھان راجناتھ سنگھ کے فیصلوں نے بھاجپا کے لئے مصیبتیں بڑھا دی ہیں۔ پنجاب میں غبارہ پھٹنے سے لگی آگ بھاجپا کی بڑھتی پریشانی کا ایک نمونہ ہے۔ یوپی میں سڑکوں پر گھٹ رہے ورکروں کے غبار کی آنچ مشن مودی کے پسینے چھڑاتی دکھائی دے رہی ہے۔ جنہیں مخالف سیناؤں سے مورچہ لینے کے لئے زمین پر دکھائی دینا چاہئے لیکن ورکر لیڈر شپ کے فیصلے سے خفا ہوکر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ پارٹی پردھان ایسا کیوں کررہے ہیں؟ کیا بھاجپا پردھان راجناتھ

ہریش راوت بنام ستپال مہاراج: داؤ پر اتراکھنڈ حکومت!

پوڑی گڑھوال سے ایم پی ستپال مہاراج کا کانگریس چھوڑنا اور بھاجپا میں شامل ہونا اتراکھنڈ کی سیاست میں خاصی اہمیت رکھتا ہے ستپال مہاراج کے بھاجپا میں شامل ہونے سے اتراکھنڈ میں سیاسی تجزیئے بدل گئے ہیں۔ ہریش راوت کی کانگریس سرکار کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ستپال مہاراج کے کئی آدمی کانگریس کے ایم ایل اے ہیں اور وقت آنے پر وہ بھی پالہ بدل سکتے ہیں۔ حالانکہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی ہریش راوت نے کہا کہ کانگریس پارٹی متحد ہے اور نہ تو ان کی سرکار کوکوئی خطرہ ہے اور نہ ہی پارٹی میں اتحاد کو۔ آنے والے چناؤ میں بھاجپا کو پوری طاقت سے ہرادینے کو پارٹی تیار ہے۔ پارٹی کے کچھ بڑے نیتاؤں کا خیال ہے کہ مہاراج کے کانگریس چھوڑ جانے سے پارٹی میں طویل عرصے سے چلی آرہی رسہ کشی پر لگام لگ جائے گی اور گروپ بندی بھی رکے گی۔ جب ہریش راوت سے اس بارے میں پوچھا گیاتو انہوں نے کہاکہ ہمیں اب یہ دیکھنا ہوگاکہ چناؤ میں بھاجپا کو کس طرح ہرایا جائے۔ مہاراج کے جانے کے بعد پوری پارٹی کے نیتاؤں اور ورکروں نے اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک ایک دوسرے کے سیاسی دشمن نظر آرہے اتراکھنڈ کے دو سب سے بڑے حریف ہریش راوت ا

وقاس کی گرفتاری دہلی و راجستھان پولیس کی بڑی کامیابی!

دہلی پولیس کی اسپیشل سیل و راجستھان پولیس نے ایک بڑی دہشت گردانہ سازش کو ناکام کرتے ہوئے انڈین مجاہدین کے چار آتنک وادیوں کو گرفتار کیا ہے۔ اجمیر، جے پور اور جودھپور یں انڈین مجاہدین کے چار آتنک وادیوں کی گرفتاری دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں ایک بڑی کامیابی ہے۔پاکستانی دہشت گرد وقاس کی گرفتاری کے ساتھ دیش میں چار برسوں سے جاری دہشت گردی و دھماکوں کے گناہگاروں میں سے ایک اہم کڑی ہاتھ میں آگئی ہے۔ بم بنانے میں ماہر اس آتنکی کے سال2010ء میں قدم رکھتے ہی دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس میں دہلی کی جامع مسجد میں سیلانوں پر حملے کے ساتھ بنارس ،ممبئی ، پنے اور احمد آباد ،حیدر آباد کے بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں دھماکے کی وارداتیں شامل ہوتی گئیں۔ اس کامیابی کی اہمیت اس لئے بھی ہے کیونکہ یہ ہی وقاس جو کہ پاکستانی ہے انڈین مجاہدین کے سرغنہ یٰسین بھٹکل کا دائیاں ہاتھ بتایا جارہا ہے۔ اس بات پر زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ پکڑے گئے دہشت گرد پڑھے لکھے ہیں۔ ضیاء الرحمن عرف وقاس عمر25 سال ، تعلیم فیصل آباد کالج سے فوڈ ٹیکنالوجی میں ڈپلومہ، محمد مشرف عمر 21 برس، تعلیم جے پور میں وویکاآنند انسٹی ٹی

بہار کی سیلبریٹی سیٹ پٹنہ صاحب میں شترو کا وقار داؤ پر لگا!

بہار کے پٹنہ صاحب کا نام آتے ہی گورو گووند سنگھ پرم پاون نگری کی یاد آجاتی ہے۔ حد بندی کے بعد بنے اس نئے پارلیمانی حلقے میں پٹنہ کا اہم شہری علاقہ شامل ہے۔ 2009ء میں ہوئے عام چناؤ میں شتروگھن سنہا اور شیکھر سمن جیسے سیلبریٹی امیدواروں کے درمیان ٹکر سے یہ سیٹ سرخیوں میں آئی تھی۔ اس چناؤ میں شتروگھن سنہا نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن تب بھاجپا اور جنتا دل (یو) کا اتحاد تھا۔ اس بار دونوں الگ ہوچکے ہیں۔17 اپریل کو ہونے والے چناؤ میں دونوں پارٹیوں کے امیدوار ایک دوسرے کو ٹکر دیں گے۔ اس بار پٹنہ صاحب سے بھاجپا امیدوار شتروگھن سنہا ہی ہیں جبکہ جنتا دل (یو) سے مشہور ماہر طب ڈاکٹر گوپال پرساد سنہا چناؤ لڑ رہے ہیں۔ کانگریس ۔ آر جے ڈی اتحاد کی طرف سے کانگریسی امیدوار راج کمار راجن کو بدل کر بھوجپوری فلم اداکار کنال سنگھ کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ آپ پارٹی نے پروین امان اللہ کو اتارا ہے۔ کرپال سنگھ نے کہا کہ یہ مقابلہ دو ستاروں کا نہیں بلکہ راجہ اور رنک کے درمیان ہے جس میں جنتا اسی کو چنے گی جو ان کے درمیان کا ہے۔ چناؤ مبصرین کا کہنا ہے اس بار شتروگھن سنہا کی ساکھ داؤ پر لگی ہے۔ پٹنہ دور قدیم او

سری پرکاش جیسوال اور ڈاکٹر مرلی منوہرجوشی میں ٹکراؤ!

اترپردیش کا سب سے بڑا شہر کانپور ہے اس شہر میں اس بار وارانسی ، اعظم گڑھ کے بعد اس سب سے اہم سیاسی لڑائی کا چناوی حلقہ بن گیا ہے۔ وارانسی سے بھاجپا کے سرکردہ لیڈر ڈاکٹر مرلی منوہرجوشی کے وارانسی سے مودی کے لئے سیٹ خالی کرنے پر مجبور ہونے کے بعد کانپور سے وہ چناؤلڑ رہے ہیں۔ سیاست میں کانپور کا اپنا ہی مزاج ہے۔ کانپور کے مزاج میں ممبران پارلیمنٹ کی ہیٹ ٹرک بنانا اور اب تک تین ممبران نے بنائی ہے۔ چار بار آزاد ایم پی چننے والا کانپور شاید پورے دیش میں اکیلا شہر ہوگا۔ اترپردیش کے سب سے بڑے شہر کی تکلیفیں بھی بڑی ہیں۔ گندگی، خستہ حال سڑکیں، صنعت، ٹریفک جام،کم ہوتے روزگارکے مواقع اور بجلی کا بحران وغیرہ وغیرہ شامل ہیں لیکن ان سے لڑتے ہوئے بھی شہر بار بار اپنے نیتاؤں کا موقعہ دیتا رہا ہے۔ تین بار سے کانپور کانگریس کے سری پرکاش جیسوال کو چنتا آرہا ہے۔ اس مرتبہ بی جے پی کے ڈاکٹر مرلی منوہرجوشی کے میدان میں اترنے سے مقابلہ دلچسپ ہوگیا ہے۔ 1857ء کی آزادی کی پہلی لڑائی کے میدان جنگ کی رانی جھانسی ، تاتیاٹوپے وغیرہ کا یہ شہر آزادی کی لڑائی کے لئے مشہور ہے۔ چندر شیکھر آزاد، بھگت سنگھ جیسے انقلابی

دو ہیروئنیں ایک ویلن :چنڈی گڑھ میں دلچسپ مقابلہ

عام چناؤ 2014ء میں جہاں پورے دیش کی زیادہ توجہ وارانسی جیسی اہم سیٹ پر مرکوز ہے وہیں کئی دلچسپ مقابلے دوسری سیٹوں پر بھی ہونے جارہے ہیں۔ ان میں ایک ایسی سیٹ چنڈی گڑھ کی ہے جہاں ایک سیاستداں کی ٹکر سنیما کی دو ہیروئنوں سے ہونے والی ہے۔ ریلوے رشوت خوری معاملے میں ریل وزارت کی کرسی گنوانے کے بعد کانگریسی امیدوار پون کمار بنسل کے لئے اس مرتبہ کامیابی کی راہ آسان نہیں لگتی۔ چنڈی گڑھ سیٹ سے چار بار ایم پی رہے بنسل کا مقابلہ عورتوں سے ہے جن میں دو مشہور اداکارائیں ہیں۔دونوں سے انہیں سخت ٹکر مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں پارٹی میں رسہ کشی سے بھی نمٹنا ہوگا۔ اس بار بنسل کے خلاف بھاجپا کی ٹکٹ پر انوپم کھیر کی بیوی کرن کھیر اور ’آپ‘ کی امیدوار و سابق مس انڈیا گل پناگ میدان میں ہیں۔ حالانکہ پون بنسل کا پلڑا اس بار بھی بھاری مانا جارہا ہے لیکن جیت کے لئے انہیں سخت مشقت کرنی پڑ رہی ہے۔ حالانکہ ریلوے رشوت معاملے میں پھنسنے کے بعد سے ان کی ساکھ خراب ہوئی ہے ساتھ ساتھ سرکار مخالف فیکٹر سے بھی انہیں مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر کی کرسی گنوانے کے بعد ورکروں سے دوری اور تال میل میں کمی بڑی کمزوری ثابت ہ

مودی ۔ ملائم کے آنے سے دلچسپ ہوگئی ہے پوروانچل کی سیاسی جنگ!

بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کو وارانسی پارلیمانی سیٹ سے امیدوار بنا کر پوروانچل کی مٹی میں گرمی پیدا کردی ہے اور رہی سہی کثر سماجوادی پارٹی کے مکھیہ ملائم سنگھ یادو نے بنارس سے ہی سٹی اعظم گڑھ سیٹ پر امیدوار بن کر پوری کردی ہے۔ سیاست کے دھرندر مانے جانے والے ان دونوں کھلاڑیوں کے رن کوشل کی پرکھ اس بار پوروانچل کی زمین پر ہو جائے گی۔ بھاجپا کے اعلی لیڈر رہے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی گذشتہ چناؤ میں بنارس سے لگ بھگ 17 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتے تھے اور انہوں نے پوروانچل کے باہوبلی ودھایک مختار انصاری کو ہرایا تھا۔ مودی کا بنارس سے لڑنے کا اثر پوروانچل کی تقریباً آدھا درجن سیٹوں بمولی، غازی پور، بلیا، اعظم گڑھ، جونپور، مرزا پور، بھدوئی سمیت آدھا درجن سے زیادہ سیٹوں پر اس کا اثر پڑے گا اور کبھی بھاجپا کو سب سے زیادہ سیٹیں دینے والا پوروانچل ایک بار پھر مودی کے لئے فائدے مند ثابت ہوسکتا ہے۔ مودی اور بھاجپا کی اس راج نیتی کو دیکھتے ہوئے ہی سماجوادی پارٹی نے بھی ملائم سنگھ کو بنارس کے بجائے اعظم گڑھ لوک سبھا سیٹ سے چناؤ میدان میں اتارا ہے۔ آخر اعظم گڑھ سے ہی کیوں لڑنا چاہتے ہیں چناؤ ملائم

چاندنی چوک ہاٹ سیٹ بن گئی ہے۔ دلچسپ مقابلہ

راجدھانی کی چاندنی چوک لوک سبھا سیٹ آئندہ چناؤ میں سب سے ہاٹ میں سے ایک بن گئی ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگاوارانسی کی سیٹ کے بعد سب کا دھیان چاندنی چوک پر ٹک گیا ہے۔ وجہ ہے یہاں سے کھڑے کانگریس ۔ بھاجپا کے امیدوار۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس سیٹ پراپنے پردیش ادھیکش ڈاکٹر ہرش وردھن کو اتاراہے تو کانگریس نے اپنے قد آور نیتا و مرکزی وزیر کپل سبل کو اتارا ہے۔کپل سبل نے 2004-2009 کے لوک سبھا چناؤ میں پارٹی کو اس علاقے سے جیت دلائی ہے۔ عام آدمی پارٹی نے آئی بی این۔7 کے سابق سمپادک آشوتوش کو میدان میں اتارا ہے۔ چاندنی چوک سیٹ کے کچھ ضروری آنکڑوں 1956 میں وجود میں آئی چاندنی چوک پارلیمانی حلقہ انتخاب کے تحت آتی تھی۔8میٹرو پولیٹن کونسل سیٹوں پر 1993ء میں ودھان سبھاتشکیل ہونے کے بعد اس سیٹ کے تحت 6 ودھان سبھا سیٹیں پہاڑ گنج، مٹیا محل، بلیمان، چاندنی چوک، منٹو روڈ اور رام نگر شامل کی۔ 2008ء میں حد بندی کے بعد پارلیمانی سیٹ میں10ودھان سبھا سیٹیں شامل ہوں گئی۔ یہاں پر کل 1413535ووٹر ہیں۔ ان میں 783545 مرد ہیں اور 629990 عورتیں ہیں۔اس سیٹ پر انہیں اب تک چنے گئے 14 سانسدوں میں 9 کانگریسی رہے ہیں ان میں س