اروندرسنگھ لولی نے پہنا کانٹوں بھرا تاج!

دہلی اسمبلی چناؤ میں کراری ہار کے لئے بلی کا بکرا بنایا گیا دہلی پردیش کانگریس پردھان جے پرکاش اگروال کو۔ انہیں اس عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اب یہ کانٹوں بھرا تاج 46 سالہ اروندر سنگھ لولی کو پہنایاگیا ہے۔ لولی نہ صرف سب سے کم عمر کے پردیش کانگریس کمیٹی کے چیف بنے ہیں بلکہ وہ پہلے سکھ لیڈر ہیں جنہیں اس اہم عہدے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ غور طلب ہے کانگریس میں اہم عہدوں پر نوجوان چہروں کو لانا راہل گاندھی کی ترجیحات میں شامل رہا۔ کانگریس ہائی کمان نے اپنے نوجوان ممبر اسمبلی لولی کو دہلی میں پارٹی کی کمان تھماکر صاف اشارے دئے ہیں کہ بھلے ہی اسمبلی چناؤ میں اس کی کراری شکست ہوئی ہے لیکن حریف پارٹیوں سے ٹکر لینے کا دم خم اس میں اب بھی باقی ہے۔ لولی اپنی تیز طرار ساکھ کے لئے جانے جاتے ہیں۔ دہلی اسمبلی سے لیکر سرکار تک میں ان کی دھاک محسوس کی جاتی رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دہلی میں 45 سیٹوں سے گھٹ کر محض8 سیٹوں پر کانگریس پارٹی سمٹ گئی ہے۔ اس کو پھر سے اقتدار کے قریب پہنچاپانا لولی کے لئے آسان کام نہیں ہوگا۔ دہلی اسمبلی چناؤ میں کانگریس کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ اس وقت یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پارٹی پچھلے 20 سال میں سب سے مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ بھاجپا اور عام آدمی پارٹی کے پاس کانگریس اسمبلی میں نمبر تین پر ہے۔ اسے اپوزیشن کا رول بھی نہیں ملا۔اگلے سال ہونے والے لوک سبھا چناؤ کے پیش نظر کانگریس کی پوزیشن بھی ڈانواڈول ہے۔ ان حالات میں یہ عہدہ اروندر سنگھ لولی کے لئے کانٹوں بھرے تاج سے کم نہیں ہے۔ کانگریس اعلی کمان نے پردیش کانگریس پردھان کے عہدے پر مشرقی دہلی کے نوجوان ممبر اسمبلی لولی کو چنا ہے تو اس کی وجہ ہے دراصل بھاجپا نے مشرقی دہلی کی ہی ایک سیٹ کرشنا نگر سے پارٹی کے ممبر اسمبلی ڈاکٹر ہرش وردھن کو وزیر اعلی کا دعویدار اعلان کیا تھا۔ کانگریس کے نئے پردیش صدر لولی ہرش وردھن کو چیلنج دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے لولی سابق وزیر اعلی شیلا دیکشت کے قریبی مانے جاتے ہیں۔ اجے ماکن کے بھی خاص دوست ہیں۔2013ء کی اس کانگریس مخالف لہر میں لولی کا اپنی سیٹ پر جیت پانایہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی اپنے علاقے میں پکڑ مضبوط ہے۔ سکھ ہونے کے ناطے انہیں دہلی کا طاقتور سکھ فرقے کے بھی حمایت مل سکتی ہے۔ پارٹی کے سامنے اندرونی گروپ بندی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچا ،نیچا دکھانے کا ٹرینڈ بدلنا ہوگا۔ پارٹی کے سامنے اب نہ صرف بھاجپا بلکہ عام آدمی پارٹی بھی ایک زبردست چیلنج ہے۔ ایسے میں پارٹی کو پردیش پردھان کے طور پر ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو حریفوں سے کھل کر دو دو ہاتھ کر سکے۔ مانا جارہا ہے لولی اس کام میں ماہر مانے جاتے ہیں۔ ان کی ساکھ توبے داغ ہے لیکن شراب کاروباری پونٹی چڈھا قتل کانڈ کے بعد انہیں اس معاملے میں گھسیٹنے کی ضرور کوشش کی گئی۔ حالانکہ خود لولی کا کہنا ہے اگر قتل کا ملزم ہی کسی شخص کو ایسے معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش کرے تو اس کا بھروسہ خودبخود مشتبہ ہوجاتا ہے۔ ہم اروندر سنگھ لولی کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ تاج تو انہوں نے پہن لیا لیکن ہوشیاررہیں کیونکہ یہ تاج کانٹوں بھرا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!