اشاعتیں

جولائی 27, 2014 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

US CHANTING NAMO NAMO AFTER AFFRONTING MODI FOR THE LAST 12 YEARS

Anil Narendra, US after continuously insulting Narendra Modi for a period of 12 years is showering extolment on him.  US denied visa to him is now compelled to shift its stiff stand; there might be many invisible reasons behind this.  US has not only expressed its desire to establish historic partnership with India but has also praised her approach. The way US Secretary of State, John Kerry, just before his visit to India spoke high about Modi Government and gave indication of the long term relations between the two countries is enough to assess the changing bilateral spectrum of relations.  The kind of relations developed on the announcement of the Indo –US Civil Nuclear Agreement during UPA I regime, weakened during last few years.  The visible US enrapture has been drawing attention as the doors of US had been closed for Modi after Gujarat riots.  US had not been at all ready to grant visa to Modi till announcement of Lok Sabha election results.  It is not a surp

ووٹ بینک کی سیاست اترپردیش کوتباہ کررہی ہے!

10 مئی کو پیاؤ بنانے کے معمولی تنازعے نے میرٹھ شہر کے فرقہ وارانہ تشددکی آگ میں جھونک دیا۔ دوفرقوں کے درمیان گھنٹوں جم کر پتھراؤ، فائرننگ و آگ زنی ہوئی۔ دوکانوں کو لوٹا گیا۔ تشدد میں پانچ لوگوں کو گولی لگی، ایک نوجوان کو جان گنوانی پڑی۔ اسی طرح اگست2013ء میں کوال گاؤں میں چھیڑ چھاڑ کی چھوٹی واردات سے شروع ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نے مظفر نگر کو ہی نہیں یوپی کو دنیا میں بدنام کردیا۔ 28 اپریل کو مظفر نگر کے ہی سوجرو گاؤں میں فرقہ وارانہ فساد اور راشن کی تقسیم پر ہوگیا۔ 4 جولائی کو کانٹھ (مراد آباد) میں لاؤڈاسپیکر لگانے پر مچا واویلا ابھی خاموش نہیں ہورہا ہے اب سہارنپور کے دنگے نے ایک برس پرانے مظفر نگر کانڈ کو دوہرانے کی دہشت پیدا کردی ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کی 247 وارداتوں کے ساتھ اترپردیش 2013ء میں ہوئے فسادات کے سلسلے میں ریاستوں کی فہرست میں چوٹی کے مقام پر ہے اور2014ء کی پوزیشن بھی کچھ الگ نہیں ہے۔ اترپردیش میں پچھلے سال فرقہ وارانہ فساد میں 77 لوگوں کی جان گئیں۔ وہیں اس سال کے اعدادو شمار وزارت داخلہ کے ذریعے ابھی اکھٹے کئے جانے ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق اس سال فرقہ وارانہ تشدد

کہیں سیلاب تو کہیں سوکھے کا سنکٹ: کسان کی تباہی!

دیش کے کئی حصوں میں خوشک سالی اور سیلاب کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ کسانوں کو دونوں ہی مشکلوں سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ بہار، اترپردیش کے زیادہ تر حصوں میں خوشک سالی کا اندیشہ تھا لیکن اب ان ریاستوں میں سیلاب کا خطرہ منڈرانے لگا ہے۔ بہار میں ایک طرف 25 ضلع سوکھے کی زد میں ہیں تو دوسری طرف کچھ شہروں میں ندیوں میں آبی سطح بڑھ گئی ہے۔ اس سے ہزاروں ایکڑ میں کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ظاہر ہے کہ خوشک سالی ہو یا سیلاب ہو دونوں ہی صورتوں میں خمیازہ کسانوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ابھی 10 دن پہلے تک یوپی میں سوکھے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا تھا لیکن اس دوران اتنی بارش ہوئی کہ اب سیلاب کا خطرہ کھڑا ہوگیا ہے۔ سنچائی محکمے کے مطابق شاردا ندی، پلیاکلاں، لکھیم پوری کھیری، شاردا نگر میں خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہی ہے۔ بارہ بنکی کے ایلیگن پل اور ایودھیا میں گھاگرا ندی خطرے کے نشان کے اوپر بہہ رہی ہے۔ گنگا ندی بلند شہر کے نرورا، رام گنگا، مراد آباد اور گھاگرا ،بلیا کے توتی پار میں خطرے کے نشان کے قریب بڑھ رہی ہے۔ اندازہ ہے گھاگرا ندی بارہ بنکی میں اور ایودھیا اور بلیا میں توتی پار خطرے کے نشان کو پار کر

اتراکھنڈمیں جہاں کانگریس کو ملی تقویت وہیں بھاجپا کے گرتے گراف کااشارہ!

اتراکھنڈ میں ودھان سبھا کیلئے ہوئے ودھان سبھا اپ چناؤ میں کانگریس نے تینوں سیٹیں جیت کر بھاجپا کا سوپڑا صاف کردیا۔ اس سے جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھاری جھٹکا لگا ہے وہیں لوک سبھا چناؤمیں کراری ہار سے کوما میں پہنچ گئی کانگریس کو سنجیونی مل گئی ہے۔ابھی دو مہینے پہلے ہی لوک سبھا چناؤ میں ملی ہار سے گھبرائی کانگریس کیلئے یہ جیت جان ڈالنے کا کام کرے گی۔ساتھ ہی کانگریس کی یہ جیت بھاجپا کیلئے بڑا جھٹکا اس لئے بھی ہے کیونکہ اس میں پردھان منتری نریندر مودی کا جادو لوگوں سے اترنے کے صاف صاف اشارے ملنے لگے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ریاست کے مکھیہ منتری ہریش راوت دہلی میں ہسپتال میں پڑے تھے اور چناؤ پرچار کرنے نہ وہ خود گئے اور نہ ہی پارٹی کا کوئی بڑا نیتا ہی اترا کھنڈ گیا۔ اس لئے یہ جیت ہریش راوت کی شہرت کا ثبوت تو ہے ہی کانگریس کی واپسی کا اشارہ بھی ہے۔لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کی لہر کی وجہ سے اتراکھنڈ کی پانچوں سیٹیں بھاجپا نے جیتی تھیں لیکن دو مہینے کے اندر ہی تین ودھان سبھا سیٹوں پر ہوئے اپ چناؤ میں کانگریس کی جیت نے مودی لہر کی ہوا نکال دی ہے۔ ساتھ ہی پردیش میں راج نیتک سمی کرن

میڈیکل نظام میں چل رہے گورکھ دھندے پر ہرش وردھن نے اٹھائی آواز!

مرکزی وزیر صحت ڈاکٹرہرش وردھن مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے ایسے مسئلے پر ہاتھ ڈالا ہے جس کا سیدھا تعلق راجدھانی کے عام آدمی سے جڑا ہے۔ یہ اس لئے بھی قابل تعریف ہے کہ ڈاکٹرصاحت نے خود ڈاکٹر ہوتے ہوئے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ معاملہ ہے ڈاکٹروں اور پیتھولوجی مراکز کی ملی بھگت کا۔ پیتھولوجی لیب کا مطلب ہے خون اور دیگر ٹیسٹ کرنے والی جانچ ایجنسی۔ یہ ملی بھگت اتنی گہری ہوچکی ہے کہ مریضوں کو چھوڑیئے خود جو سمجھدار ڈاکٹر ہیں وہ بھی اس ملی بھگت سے پریشان ہوچکے ہیں۔ چونکہ ڈاکٹر ہرش وردھن دہلی کے جانے مانے ڈاکٹر ہیں جو ہزاروں مریض دیکھتے ہیں تو انہیں جانکاری ہے اس گورکھ دھندے کی۔ مریض ڈاکٹر کے پاس اپنی بیماری لے کر جاتا ہے تو ڈاکٹر طرح طرح کی جانچ کرانے کوکہہ دیتا ہے۔ کئی بار یہ ضروری ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر ان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پیتھ لیب جو بل بنتا ہے جو عام طور پر موٹا ہوتا ہے اس میں سے پہلے سے ڈاکٹر کی کمیشن اسے پہنچا دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ہرش وردھن نے یہ معاملہ لوک سبھا میں بھی اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیمار لوگوں کی غیر ضروری جانچ لکھی جاتی ہے تاکہ جانچ سینٹر کا بزنس بڑھے اور وہ بل